بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ تشریف آوری سے قبل اس علاقہ کے قبائل ایک حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ اور عبد اللہ بن ابی کو اس کا سربراہ منتخب کر لیا گیا تھا مگر اس کی تاج پوشی سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے جس سے اس حکومت کا قیام کھٹائی میں پڑ گیا۔ حضرت سعد بن عبادہؓ نے اس علاقہ کو ’’اہل ھذہ البحیرۃ‘‘ سے تعبیر کیا ہے جو مدینہ منورہ سے ینبوع کی بندرگاہ تک کی سمندری پٹی بنتی ہے۔
دوسری طرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کم سے کم دو برس سے اس علاقہ میں اپنا مرکز بنانے کے لیے تگ و دو فرما رہے تھے اور انصارِ مدینہ کے دو قبیلوں اوس اور خزرج کے نمائندوں کے ساتھ بیعتِ عقبہ اولیٰ اور بیعتِ عقبہ ثانیہ اسی پس منظر میں ہوئی تھی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقاعدہ بارہ نقیب (نمائندے) مقرر کیے جنہوں نے اس علاقہ میں متعلقہ قبائل اور راہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں اور روابط کر کے ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کی راہ ہموار کی۔ اس کے نتیجہ میں مدینہ منورہ تشریف لاتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاکم کی حیثیت حاصل ہوئی اور آپؐ کی ریاست و حکومت قائم ہو گئی۔ اور پھر یہ حکومت و ریاست جناب نبی اکرمؐ کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو منتقل ہوئی اور اس نے ’’خلافتِ راشدہ‘‘ کا عنوان اختیار کر لیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دس سالہ دور حکومت کو ’’ریاست مدینہ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے جس میں انصار مدینہ کے ساتھ ساتھ یہود کے قبائل اور دیگر لوگ بھی اس کا حصہ تھے۔ اس دور میں ’’ریاست مدینہ‘‘ کے باشندوں میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے علاوہ ایسے لوگ بھی تھے جو کلمہ پڑھتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عبادات و معاملات میں شریک رہتے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ (۱) ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے (۲) آخرت پر ایمان لائے اور (۳) ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اللہ ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ مگر قرآن کریم نے ’’وماہم بمؤمنین‘‘ اور ’’انہم لکاذبون‘‘ فرما کر انہیں مسلمان تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ اسلامی تاریخ میں انہیں منافقین کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔
یہ مسلسل دس سال مدینہ منورہ کی آبادی کا حصہ رہے اور ان کے بہت سے واقعات قرآن و حدیث میں مذکور ہیں جن میں سے چند ایک کا تذکرہ کیا جا رہا ہے تاکہ اسلامی ریاست میں کلمہ گو غیر مسلموں کے ساتھ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل اور اسوہ حسنہ کو سمجھا جا سکے:
★ عبد اللہ بن ابی نے بھی کلمہ پڑھ لیا تھا بلکہ وہ اس گروہ کا سردار تھا اور ساری زندگی اس بحیرہ کی حکومت سے محروم ہو جانے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان سے بدلے لیتا رہا۔
★ احد کی جنگ میں قریش کے لشکر کے مقابلہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں ایک ہزار کا لشکر احد کے دامن میں پہنچا جن میں سے تین سو کو ورغلا کر عبد اللہ بن ابی واپس لے گیا۔ جنگ ختم ہو جانے کے بعد میدان چھوڑ کر چلے جانے والے ان تین سو افراد کے بارے میں مشورہ ہوا کہ ان کے ساتھ کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے؟ اور ان کے خلاف آپریشن کرنے یا نہ کرنے پر دو رائے ہو گئیں کہ ان کے خلاف کوئی کاروائی کرنی چاہیے یا نہیں؟ تو قرآن کریم میں یہ کہہ کر مسلمانوں کو ایسی کاروائی سے روک دیا گیا کہ ’’فما لکم فی المنافقین فئتین‘‘ تم منافقین کے بارے میں دو گروہوں میں کیوں بٹ گئے ہو؟ چنانچہ ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
★ ام المومنین حضرت عائشہؓ پر جھوٹی تہمت لگا کر اس گروہ نے کم و بیش ایک ماہ تک مدینہ منورہ میں طوفان بدتمیزی بپا کیے رکھا جس کی تفصیلات قرآن و احادیث میں مذکور ہیں۔ اس ساری مہم کی قیادت ’’والذی تولیٰ کبرہ‘‘ کے مطابق عبد اللہ بن ابی نے کی۔ اس سازش اور مذموم مہم کے بعد اس حوالہ سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس جس کے خلاف جو کاروائی کی وہ سب کے سامنے ہے، اس کی تفصیلات بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
★ سورۃ المنافقون میں اللہ تعالیٰ نے عبد اللہ بن ابی اور اس کے رفقاء کی اس پلاننگ کا ذکر کیا ہے کہ مدینہ منورہ میں مہاجرین پر خرچ کرنے سے انصار کو روک دیا جائے گا اور مہاجرین کو مدینہ منورہ سے نکال دیا جائے گا۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے اس خفیہ پلاننگ کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رپورٹ دی تو ان منافقین نے قسمیں اٹھا اٹھا کر اس رپورٹ کو جھٹلا دیا جس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ المنافقون میں حضرت زید بن ارقمؓ کی صفائی بیان کی اور ان منافقین کو جھوٹا قرار دیا۔ جس کا ذکر بخاری شریف کی روایت میں بھی حضرت زید بن ارقمؓ نے فرمایا ہے۔
★ غزوہ تبوک میں شریک نہ ہونے اور دوسروں کو روکنے کے لیے منافقین کی کاروائی اور حرکات کا سورۃ التوبہ میں بہت تفصیل کے ساتھ ذکر ہوا ہے، اور
★ مدینہ منورہ میں مسجد کے نام سے اپنا الگ مرکز قائم کرنے کی منافقین کی کاروائی بھی قرآن کریم نے بیان کی ہے جس کے بعد ان منافقین کے بارے میں کچھ فیصلوں کا اعلان کیا گیا:
(۱) ان کا جنازہ پڑھنے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منع کر دیا گیا۔
(۲) ان کی قبر پر دعا سے بھی منع کر دیا گیا۔
(۳) مسجد کے نام پر بنائی جانے والی عمارت گرا دی گئی اور اس کو کفر، ضرار، تفریق بین المسلمین اور مسلمانوں کے دشمنوں کا مورچہ قرار دیا گیا۔
(۴) آئندہ کسی جہاد میں ان لوگوں کی شرکت کو ممنوع قرار دیا گیا۔
(۵) ’’فسیری اللہ عملکم ورسولہ والمومنون‘‘ فرما کر ان کی مستقل اجتماعی نگرانی کا اعلان فرما دیا گیا وغیر ذالک۔
ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دس سالہ دورِ حکومت میں ان کی رعایا میں دیگر غیر مسلموں کی طرح کلمہ گو غیر مسلم بھی رہتے تھے، ان کے خلاف موقع محل کے مطابق کاروائیاں کی گئی ہیں، اور بعض مواقع پر مصلحت و حکمت کے تحت کاروائی سے گریز بھی کیا گیا ہے۔ اس حوالہ سے محققین کو متوجہ ہو کر آج کے حالات و تقاضوں کے لیے طریق کار طے کرنا چاہیے۔ ہماری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے خلاف کاروائی کرنے یا نہ کرنے کا مدار حالات کے تقاضوں اور امت کے اجتماعی مفاد اور ضروریات پر ہے، جس کا تعین اربابِ حل و عقد اور دینی و علمی قیادتوں کو مل کر کرنا چاہیے۔