الشیخ محمد بن عبد الوہابؒ: عقائد، دعوت اور علماء کی رائے

   
۱۱ جنوری ۱۹۸۰ء

اس وقت ہمارے سامنے محکمہ شرعیہ قطر کے قاضی الشیخ احمد بن حجر آل ابو طامی کا کتابچہ ہے جس میں انہوں نے شیخ محمد بن عبد الوہابؒ کی زندگی، عقائد، دعوت اور ان کے بارے میں علماء کی آراء کا تذکرہ کیا ہے۔ کتابچہ کا عنوان ہے:

’’الشیخ محمد بن عبد الوہابؒ: عقیدۃ السلفیہ و دعوۃ الاصلاحیۃ وثناء العلماء علیہ‘‘۔

کتابچہ کی تصحیح سعودی عرب کے مقتدر عالمِ دین فضیلۃ الشیخ عبد العزیز بن الباز نے کی ہے اور اس پر مقدمہ بھی لکھا ہے اور اسے مرحوم شاہ فیصل کے حکم پر ۱۳۹۵ھ میں حکومت سعودی عرب کی طرف سے طبع کرا کے مفت تقسیم کیا گیا ہے۔

عربی ٹائپ کے ۱۳۰ سے زائد صفحات پر پھیلے ہوئے اس کتابچہ میں مصنف قاضی احمد بن حجر نے سب سے پہلے شیخ محمد بن عبد الوہابؒ کی ولادت، تعلیم اور اساتذہ کا ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد نجد کے حالات، شیخؒ کی تحریک اور اس کے نتائج پر روشنی ڈالی ہے۔ حجاز و نجد میں سعودی حکومت کے قیام اور آل سعود کی طرف سے شیخ محمد بن عبد الوہابؒ کی تائید و حمایت کا تذکرہ کیا ہے۔ شیخ کی تصانیف کا تعارف کرایا ہے۔ بعد ازاں شیخؒ اور ان کی تحریک کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں کا ذکر کرتے ہوئے شیخؒ اور ان کے رفقاء کے عقائد و نظریات کو واضح کیا ہے، اور آخر میں علماء و اکابر کی ان آراء کو درج کیا ہے جن میں شیخؒ اور ان کی تحریک کی تعریف و توصیف کی گئی ہے۔ عقائد و افکار کے ضمن میں مصنف نے خود شیخ محمد بن عبد الوہابؒ اور ان کے فرزند شیخ عبد اللہ بن محمد بن عبد الوہابؒ کی تصانیف اور مکاتیب کے حوالہ سے تفصیلی بحث کی ہے۔ اس بارے میں حلقۂ عوام میں موجود مختلف آراء و قیاسات کے پیش نظر اس بحث کے اہم امور کا تذکرہ مناسب ہو گا۔

اہل السنۃ والجماعت

مصنف نے صفحہ ۳۴ پر شیخ محمد بن عبد الوہابؒ کا ’’اہل القصیم‘‘ کے نام مکتوب نقل کیا ہے جس کا آغاز یوں ہے:

اشہد اللہ و من حضرنی الملائکۃ واشہد کم انی اعتقد ما اعتقدہ اہل السنۃ والجماعۃ۔

’’میں اللہ تعالیٰ کو اور اپنے پاس موجود فرشتوں کو گواہ بناتا ہوں کہ میرے عقائد وہی ہیں جو اہل السنۃ والجماعت کے ہیں۔‘‘

اس کے بعد عقائد کا تفصیل کے ساتھ ذکر ہے جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

  • میں اللہ تعالیٰ پر اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، بعث بعد الموت پر اور تقدیر پر ایمان رکھتا ہوں۔
  • قرآن پاک اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، مخلوق نہیں ہے۔
  • نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد کے زمانوں کے لیے جو خبریں دی ہیں میں ان سب کو مانتا ہوں۔
  • قبر کے عذاب اور راحت پر میرا ایمان ہے اور جسموں میں ارواح کے اعادہ کا قائل ہوں۔
  • حشر نشر کو مانتا ہوں۔
  • نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض کوثر پر میرا ایمان ہے۔
  • نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت حق ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سب سے پہلے شافع ہیں۔
  • میں جنت اور دوزخ کو مانتا ہوں، وہ اب بھی موجود ہیں اور کبھی فنا نہیں ہوں گی۔
  • نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت مانتا ہوں۔
  • صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سب سے افضل حضرت ابوبکرؓ ہیں، پھر حضرت عمرؓ، پھر حضرت عثمانؓ، پھر حضرت علیؓ، پھر باقی عشرہ مبشرہؓ، پھر اہل بدر، پھر بیعت رضوان کے شرکاء، پھر باقی صحابہ کرامؓ۔
  • صحابہ کرامؓ سے محبت کرتا ہوں اور ان کے محاسن کا ذکر کرتا ہوں۔ ان کا نامناسب ذکر نہیں کرتا۔ ان کے لیے استغفار کرتا ہوں اور ان کے باہمی تنازعات پر سکوت اختیار کرتا ہوں۔
  • صحابہؓ اور امہات المومنینؓ کی فضیلت کا قائل ہوں اور انہیں ہر برائی سے پاک سمجھتا ہوں۔
  • اولیاء کرام کی کرامات کا قائل ہوں لیکن انہیں اللہ تعالیٰ کے معاملات میں شریک نہیں سمجھتا۔
  • کسی مسلمان کے جنتی یا دوزخی ہونے کی شہادت نہیں دیتا مگر جس کے بارے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ ہاں نیک کے لیے جنت کی امید رکھتا ہوں اور بدکار کے لیے دوزخ کا خوف رکھتا ہوں۔
  • کسی مسلمان کی گناہ کی وجہ سے تکفیر نہیں کرتا۔
  • جہاد کو جاری مانتا ہوں۔ اسے کسی ظالم کا ظلم یا کسی عادل کا عدل ختم نہیں کر سکتا۔ مسلم حکمرانوں کے لیے سمع اور طاعت کو واجب مانتا ہوں جب تک اللہ کی نافرمانی کا حکم نہ دیں۔
  • اہل بدعت سے نفرت اور لاتعلقی کو ضروری سمجھتا ہوں جب تک توبہ نہ کرلیں۔ ان کے بارے میں ظاہر کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہوں اور دلوں کی بات اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں۔

ائمہ اربعہ

اس کے بعد مصنف نے صفحہ ۳۸ پر عراقی عالم الشیخ عبد الرحمٰن بن عبد اللہ السویدی کے نام شیخ محمد بن عبد الوہابؒ کا خط نقل کیا ہے جس میں شیخ لکھتے ہیں:

عقیدتی و دینی الذی او دین اللہ بہ ھو مذھب اھل السنۃ والجماعۃ الذی علیہ ائمۃ المسلمین مثل الائمۃ الاربعۃ واتباعھم الی یوم القیامۃ۔

’’میرا عقیدہ اور دین جس کے ساتھ میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہوں وہی ہے جو اہل السنۃ والجماعۃ کا مذہب ہے، اور جس پر مسلمانوں کے ائمہ مثلاً ائمہ اربعہ اور ان کے پیروکار قیامت تک ہیں۔‘‘

صفحہ ۴۰ پر مصنف لے ’’الاسماء والصفات‘‘ کے بارے میں شیخؒ کے ایک رسالہ کا یہ اقتباس بھی نقل کیا ہے:

الذی نعتقد وبدین اللہ بہ ھو مذھب سلف الائمۃ والتابعین والتابعین لھم باحسان من الائمۃ الاربعۃ واصحابھم رضی اللہ عنھم۔

’’ہمارا دین و اعتقاد وہی ہے جو سلف صالحین اور صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کا ہے اور ائمہ اربعہ اور ان کے اصحابؒ کا ہے جنہوں نے صحابہؓ اور تابعینؒ کی اچھے طریقے سے پیروی کی۔‘‘

اختلافی مسائل

مصنف نے اختلافی امور کا بھی ذکر کیا ہے جن میں شیخ محمد بن عبد الوہابؒ نے اپنے معاصر علماء سے اختلاف کیا ہے، مثلاً:

  • اہل اللہ کی قبور پر اجتماعات، غیر اللہ کے لیے نذر و نیاز اور ان سے مدد مانگنے کو شیخؒ نے شرک کہا ہے۔
  • شیخؒ توسل بالاعمال کے قائل ہیں، توسل بالذوات کو نہیں مانتے۔
  • مسجد حرام، مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) اور مسجد اقصیٰ کے سوا کسی اور مسجد کی طرف شدِّ رحال (بقصد سفر) کے قائل نہیں۔
  • قبور پر عمارات اور ان کی تزئین و آرائش کو شیخؒ حرام سمجھتے ہیں۔
  • میلاد النبی کی محافل اور اذان کے بعد بآواز بلند درود شریف پڑھنے وغیرہ اعمال کو شیخؒ بدعات قرار دیتے ہیں۔

تقلید

ص ۵۶ پر مصنف نے شیخ محمد بن عبد الوہابؒ کے فرزند شیخ عبد اللہ کے طویل مکتوب کا یہ حصہ نقل کیا ہے:

ونحن ایضاً فی الفروع علی المذہب الامام احمد بن حنبل ولا ننکر علی من قلد الائمۃ الاربعۃ دون غیرھم لعدم ضبط مذاھب الغیر کالرافضۃ والزیدیۃ والامامیۃ ونحوھم لا نقرھم ظاھرًا علی شئی من مذاھبہ الفاسدہ بل نجبرھم علی تقلید احد الائمۃ الاربعۃ۔

’’ہم فروعات میں امام احمد بن حنبلؒ کے مذہب پر ہیں اور ائمہ اربعہ کی تقلید کرنے والوں پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں بلکہ ان کے علاوہ دوسروں پر ہمیں اعتراض ہے کیونکہ ائمہ اربعہ کے علاوہ دوسروں کے مذاہب منضبط نہیں جیسے رافضی، زیدی، امامی اور ان جیسے حضرات۔ ہم ان کو ان کے فاسد مذاہب میں سے کسی بات پر قائم نہیں سمجھتے بلکہ ان کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی ضرور تقلید کریں۔‘‘

اس کے بعد شیخ عبد اللہؒ نے ان غلط فہمیوں کا بھی ذکر کیا ہے جو شیخ محمد بن عبد الوہابؒ اور ان کی تحریک کے بارے میں لوگوں میں پھیل گئیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ

’’ہمارے بارے میں جو یہ کہا جاتا ہے کہ

  • قرآن کریم کی تفسیر اپنی رائے سے کرتے ہیں، اسی طرح حدیث کا مفہوم خود متعین کرتے ہیں اور مفسرین و شراح کی طرف رجوع نہیں کرتے۔
  • نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں معاذ اللہ کسی قسم کی گستاخی کرتے ہیں۔
  • آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شفاعت کے منکر ہیں۔
  • نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر کی زیارت کو غیر مسنون کہتے ہیں۔
  • علماء کے اقوال کو نہیں مانتے۔
  • اپنے سوا باقی سب مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں۔
  • بیعت کرنے والے سے یہ اقرار کراتے ہیں کہ وہ مشرک تھا اور اس کے ماں باپ شرک پر مرے۔
  • نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھنے سے منع کرتے ہیں۔
  • زیارتِ قبور کی مطلقاً ممانعت کرتے ہیں۔
  • اہلِ بیت کے حق کو نہیں مانتے اور انہیں غیر اہلِ بیت میں نکاح کرنے پر مجبور کرتے ہیں وغیر ذٰلک۔

یہ سب خرافات اور ہم پر الزامات ہیں، سبحانک ہذا بہتان عظیم، کیونکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ:

  • جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم علی الاطلاق تمام مخلوقات سے افضل ہیں۔ وہ اپنی قبر میں حیاتِ برزخیہ کے ساتھ زندہ ہیں اور ان کی زندگی شہداء کی زندگی سے زیادہ قوی ہے۔
  • جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھنے میں اپنے اوقات صَرف کیے اس نے سعادتِ دارین حاصل کی۔
  • ہم کراماتِ اولیاء کو حق مانتے ہیں اور شریعت کی پیروی کرنے والے حضرات کی بزرگی اور ولایت کے قائل ہیں۔
  • کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے مسلمان گناہگار ہو جاتا ہے لیکن اسلام کے دائرہ سے نہیں نکلتا، وغیر ذٰلک۔‘‘

اس کے بعد مصنف نے شیخ محمد بن عبد الوہابؒ اور ان کی تحریک کے بارے میں معاصر علماء کی آراء ذکر کی ہیں۔ مگر کتابچہ میں ایک بات جو ہمیں بری طرح کھٹکی ہے وہ یہ ہے کہ مصنف نے صفحہ ۷۱ پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور اس دور کے حالات کے ساتھ شیخ محمد بن عبد الوہابؒ کی دعوت اور ان کے دور کے حالات کا تقابل کیا ہے، جس کے آغاز میں اگرچہ مصنف نے یہ وضاحت کر دی ہے کہ

’’اس تقابل سے مقصود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شیخ کا (معاذ اللہ) تقابل نہیں کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

لیکن اس وضاحت کے باوجود اس قسم کے تقابل سے ایک مسلمان کی فطرتِ سلیمہ طبعاً رباء کرتی ہے اور جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب و حرمت کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے جہاں تاویلات و توجیہات پر بہرحال ادب و حرمت کے تقاضوں کو فوقیت حاصل ہے۔ ہمارے نزدیک مصنف نے ایسا کر کے ادب و حرمت اور تاویلات کے درمیان توازن کو ملحوظ نہیں رکھا۔

   
2016ء سے
Flag Counter