روزنامہ جنگ لاہور ۲۱ جون ۲۰۰۰ء کی ایک خبر کے مطابق دارالعلوم کراچی کے صدر مہتمم مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی نے اس امر پر تشویش اور افسوس کا اظہار کیا ہے کہ حکومت ایک طرف سودی قوانین کے خاتمہ کی بات کر رہی ہے مگر دوسری طرف حکومت کی طرف سے جن نئی مالیاتی اسکیموں کا اعلان کیا گیا ان میں سود پر مبنی اسکیم بھی شامل ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بینچ نے ملک میں رائج تمام سودی قوانین کو قرآن و سنت کے منافی قرار دیتے ہوئے حکومت کو ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ جون ۲۰۰۱ء تک تمام سودی قوانین کو ختم کر کے سود سے پاک معاشی نظام کے نفاذ کا اہتمام کرے۔ اور اس کے بعد سے حکومتی حلقے مسلسل اس عزم کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق سودی قوانین کو مقررہ مدت کے اندر ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں۔
وفاقی وزیر جناب شوکت عزیز نے بجٹ کی وضاحت کے لیے کی گئی پریس کانفرنس میں سودی قوانین کے خاتمہ کے عزم کو دہراتے ہوئے بتایا ہے کہ حکومت نے اس سلسلہ میں عملی تعاون کے لیے سعودی عرب اور دیگر حکومتوں سے رابطہ قائم کر رکھا ہے۔ جبکہ نیشنل سکیورٹی کونسل کے رکن جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی نے گزشتہ دنوں فاران کلب کراچی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ ادارے اس سلسلہ میں پوری مستعدی سے کام لے رہے ہیں اور حکومت سودی قوانین کے خاتمہ میں سنجیدہ ہے۔
مگر ان اعلانات کے پس منظر میں مولانا مفتی رفیع عثمانی کی طرف سے سرکاری سطح پر ایک نئی مالیاتی اسکیم کے اجرا کی نشاندہی نے ان شکوک و شبہات کو ایک بار پھر اجاگر کر دیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے واضح فیصلہ کے باوجود حکومتی ادارے سودی قوانین کو ختم کرنے اور ملک کو اس لعنت سے نجات دلانے میں سنجیدہ نہیں ہے اور مختلف حیلوں بہانوں سے سودی نظام کے تسلسل کو باقی رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس لیے ہم حکومت سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس سلسلہ میں اپنی پوزیشن واضح کرے اور مبینہ نئی سودی مالیاتی اسکیم کے خاتمہ کا اعلان کر کے سودی قوانین سے ملک کو نجات دلانے کے سلسلہ میں عدالتِ عظمٰی کے فیصلے پر جلد از جلد عملدرآمد کا اہتمام کرے۔