پاکستان مسلم لیگ (ق) کے مرکزی رہنما چودھری پرویز الٰہی نے گزشتہ روز لاہور کے حلقہ این اے ۱۲۳ میں ایک کارنر میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف پر الزام لگایا ہے کہ
”انہوں نے اپنے دور میں شریعت بل پیش کر کے امیر المومنین بننے کی کوشش کی تھی۔ اگر وہ کامیاب ہو جاتے تو جمہوری عمل نہ صرف رک جاتا بلکہ ختم ہو جاتا، کیونکہ ملک ون مین شو کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ نواز شریف نے اس بل کے ذریعے شریعت، جمہوریت اور جمہوری اقدار کا مذاق اڑایا، آج وہ کس منہ سے جمہوریت کی بات کرتے ہیں؟“
روزنامہ پاکستان لاہور کی ۷ جنوری ۲۰۰۸ء کی اشاعت میں شائع ہونے والی اس خبر کے مطابق اگر چودھری پرویز الٰہی نے فی الواقع یہی کچھ کہا ہے تو یہ انتہائی افسوسناک بات ہے اور ایک باخبر سیاستدان کی زبان سے اس خلاف واقعہ اور مغالطہ آفرینی پر مبنی بات کی کم از کم میں توقع نہیں کر سکتا، مگر چودھری پرویز الٰہی کے ان الفاظ کے بارے میں کچھ عرض کرنے سے پہلے میں ”شریعت بل“ کے بارے میں کچھ ضروری تفصیلات قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا۔
”شریعت بل“ میاں محمد نواز شریف نے نہیں، بلکہ ۱۹۸۵ء کے غیر جماعتی انتخابات میں صوبہ سرحد سے سینیٹ کے رکن منتخب ہونے والے دو ارکان مولانا سمیع الحق اور مولانا قاضی عبد اللطیف نے پیش کیا تھا، جس کا مرکزی نکتہ اس بل کی یہ دفعہ تھی کہ ”پاکستان میں دستوری طور پر قرآن و سنت کو بالاتر قانون کی حیثیت حاصل ہو گی“ اور قرآن و سنت کے دستوری طور پر بالاتر قانون ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر اسے منظور کر لیا جائے تو ملک میں قرآن و سنت کے صریح احکام کے منافی جتنے قوانین یا ضوابط موجود ہیں وہ خودبخود ختم ہو جائیں گے یا عدالتی نظام کے ذریعے انہیں ختم کرایا جا سکتا ہے۔ مولانا سمیع الحق اور مولانا قاضی عبد اللطیف کا تعلق جمعیت علماء اسلام درخواستی گروپ سے تھا، جبکہ جمعیت ان دنوں درخواستی گروپ اور فضل الرحمٰن گروپ کے دو دھڑوں میں منقسم تھی۔ اس شریعت بل کا ملک بھر کے دینی حلقوں میں خیر مقدم کیا گیا اور اس کے لیے اجتماعی مہم چلانے کے لیے شیخ الحدیث مولانا عبد الحق رحمہ اللہ اکوڑہ خٹک کی سربراہی میں ”متحدہ شریعت محاذ پاکستان“ تشکیل دیا گیا، جس میں مولانا مفتی محمد حسین نعیمی رحمہ اللہ، مولانا معین الدین لکھنوی، مولانا مفتی احمد الرحمٰن رحمہ اللہ، قاضی حسین احمد، ڈاکٹر اسرار احمد اور مختلف مکاتب فکر کے دیگر سرکردہ حضرات شامل تھے۔ راقم الحروف ان دنوں جمعیت علماء اسلام درخواستی گروپ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور متحدہ شریعت محاذ کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہا تھا اور اس حوالے سے شریعت بل کی اس تحریک میں متحرک اور پیش پیش تھا۔
سینیٹ نے اس ”شریعت بل“ کو عوامی رائے کے لیے مشتہر کیا تھا، جس پر ملک بھر سے لاکھوں کی تعداد میں خطوط سینیٹ کے سیکرٹریٹ کو موصول ہوئے تھے اور ایک مرحلہ میں سینیٹ کو بتایا گیا تھا کہ اس سے قبل بل کی حمایت میں سینیٹ کے سیکرٹریٹ کو اتنے خطوط موصول نہیں ہوئے۔ اس بل کی حمایت میں ملک بھر میں مظاہرے ہوئے اور کئی ماہ تک عوامی مہم چلائی گئی۔ حتیٰ کہ حضرت مولانا عبد الحق رحمہ اللہ کی قیادت میں اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ایک پرجوش اور بھرپور عوامی مظاہرہ ہوا، جس سے تمام مذہبی مکاتب فکر کے سرکردہ قائدین نے خطاب کیا اور شریعت بل کی حمایت کا اعلان کیا۔
شریعت بل کے بارے میں اس وقت کے سیکولر حلقوں کی طرف سے جو شکوک و شبہات اور اعتراضات کھڑے کیے گئے، ان میں ایک یہ بھی تھا جو آج بیس سال کے بعد چودھری پرویز الٰہی نے دہرایا کہ شریعت بل کی منظوری سے جمہوری عمل رک جائے گا اور پارلیمنٹ کی خود مختاری ختم ہو جائے گی۔ حالانکہ یہ شریعت بل ملک کے مروجہ دستوری ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے پیش کیا گیا تھا، جس میں پہلے سے یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ پارلیمنٹ اپنی تمام تر قانون سازی میں قرآن و سنت کی پابند ہو گی اور قرآن و سنت کے منافی کسی قسم کی قانون سازی نہیں کر سکے گی۔ یہ شریعت بل اسی طے شدہ دستوری ضمانت کو عملی شکل دینے کے لیے ایک پیشرفت کی حیثیت رکھتا تھا اور اسے پارلیمنٹ پر اوپر سے مسلط کرنے کی بجائے پارلیمنٹ سے ہی منظور کرایا جا رہا تھا۔ لیکن نہ صرف ملک کے اندر، بلکہ عالمی سطح پر بھی یہ پروپیگنڈہ زور و شور کے ساتھ کیا گیا کہ یہ شریعت بل پارلیمنٹ کی خود مختاری کو ختم کرنے اور جمہوری عمل کو روکنے کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ جبکہ اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ پاکستان میں اور پاکستان کے ساتھ اسلام کے نام کو صرف سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں اور دستورِ پاکستان کی ان دفعات پر کوئی عملی پیشرفت نہیں دیکھنا چاہتے جن میں اسلام کے نفاذ کی ضمانت دی گئی ہے اور قرآن و سنت کے منافی قانون سازی سے پارلیمنٹ کو روک دیا گیا ہے، وہ اسی طرح کا پروپیگنڈہ کر کے اسلامی قوانین کے نفاذ کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ ورنہ جب دستور میں یہ بات ہمیشہ کے لیے طے کر دی گئی ہے کہ ملک میں حکومت ہمیشہ جمہوری ہو گی، قانون سازی منتخب پارلیمنٹ کے ذریعہ ہو گی اور حکومت اور پارلیمنٹ دونوں قرآن و سنت کے دائرہ کی پابند ہوں گی تو اس کے بعد جمہوری عمل کے خاتمہ اور جمہوری اقدار کو کمزور کرنے کی کون سی بات باقی رہ جاتی ہے؟
شریعت بل کئی سال تک سینیٹ میں زیرِ بحث رہا، اسے اسلامی نظریاتی کونسل کے سپرد کیا گیا، جس نے تفصیل کے ساتھ جائزہ لے کر اس کی نوک پلک سنواری اور اس کی دفعات کی درجہ بندی کر کے اسے آئینی ترامیم اور قانونی دفعات کی صورت میں ازسرنو مرتب کیا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے اس کا جائزہ لیا اور اسے اپنے طور پر ایک نئی شکل دی، جبکہ متحدہ شریعت محاذ نے بھی تمام اعتراضات و شکوک کو سامنے رکھتے ہوئے اس میں اصلاحات و ترامیم تجویز کیں۔ دینی حلقوں میں سے ابتدا میں جمعیت علماء اسلام فضل الرحمٰن گروپ اور تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ نے اس کی مخالفت کی، لیکن بعد میں مولانا فضل الرحمٰن نے اس کی حمایت کا اعلان کیا اور راولپنڈی کے فلیش مین ہوٹل میں شریعت بل کی تائید میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنس کی ایک نشست کی صدارت کرتے ہوئے اس بل کی حمایت کا اعلان کیا۔ فلیش مین ہوٹل کی اس کانفرنس میں میاں نواز شریف نے بھی شرکت کی، جو اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔
چنانچہ ایک طویل جدوجہد اور کشمکش کے بعد سینیٹ نے اس بل کو منظور کر لیا، لیکن پارلیمانی ضوابط کے مطابق سینیٹ سے منظور ہونے کے بعد نوے روز کے اندر اس شریعت بل نے قومی اسمبلی میں پیش ہو کر منظوری حاصل کرنا تھی اور اس کے بعد اسے دستوری حیثیت ملنا تھی، مگر نوے روز کی مدت کے اندر قومی اسمبلی توڑ دی گئی، جس کی وجہ سے یہ شریعت بل سینیٹ میں منظور ہو جانے کے باوجود قومی اسمبلی میں بروقت پیش نہ ہو سکنے پر ازخود ختم ہو گیا۔ نئے انتخابات کے بعد میاں نواز شریف کی حکومت قائم ہوئی تو ان پر مختلف اطراف سے دباؤ تھا کہ وہ اس شریعت بل کو قومی اسمبلی میں لائیں۔ چنانچہ ان کے دور میں یہ شریعت بل قومی اسمبلی میں لایا گیا اور باقاعدہ طور پر قومی اسمبلی نے اسے منظور کیا، مگر اس میں قرآن و سنت کی بالادستی کو اس شرط کے ساتھ مشروط کر دیا گیا کہ اس سے ”سیاسی نظام اور حکومتی ڈھانچہ“ متاثر نہیں ہو گا۔
اس بل میں نہ کسی کو امیر المومنین بنانے کی بات تھی اور نہ ہی ملک کے دستور میں موجود جمہوری ڈھانچے کو چھیڑا گیا تھا۔ اس بل کا مقصد صرف یہ تھا کہ دستور میں قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کی جو ضمانت دی گئی ہے، اس پر عملدرآمد کی کوئی صورت سامنے آئے۔ لیکن ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے اس کے ساتھ وہی کھیل کھیلا جو وہ اب تک قرارداد مقاصد کے ساتھ کھیلتی آ رہی ہے اور اس حوالے سے میاں نواز شریف اور چودھری پرویز الٰہی کے کردار میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جہاں تک پاکستان کے عوام کا تعلق ہے، امریکی ادارے یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پیس کے تازہ ترین سروے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت پاکستان میں ایک ایسا جمہوری نظام چاہتی ہے، جو مکمل طور پر اسلام سے مطابقت رکھتا ہو۔ امریکی ادارے کے اس سروے کی رپورٹ آج کے اخبارات میں شائع ہوئی ہے، جو پاکستان کی رائے عامہ کے رجحانات کی نشاندہی کرتی ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کو اگر الیکشن کی افراتفری میں دستوری اور ایمانی تقاضے یاد نہیں رہے تو کم از کم عوامی رجحانات ہی کا لحاظ کر لیں کہ ووٹ تو آخر انہی سے لینے ہیں۔