مولانا سید شمس الدین شہیدؒ کا سفرِ آخرت

   
۲۱ مارچ ۱۹۷۵ء

مولانا سید شمس الدین شہیدؒ مارچ ۱۹۷۴ء کے پہلے ہفتے گھر سے روانہ ہو کر کوئٹہ پہنچے تو صوبائی جنرل سیکرٹری جمعیۃ علماء اسلام جناب محمد زمان خان اچکزئی نے حضرت الامیر مولانا محمد عبد اللہ درخواستی دامت برکاتہم کا وہ پیغام آپ کو پہنچایا جو حضرت مدظلہ نے مدینہ منورہ میں مولانا شمس الدین کے لیے خان صاحب کے سپرد کیا تھا۔ پیغام یہ تھا کہ آپ گورنر بلوچستان خان احمد یار خان سے ملاقات کریں اور ان کو اس گفتگو کے بارے میں یاددہانی کرائیں جو میرے اور ان کے درمیان کم و بیش دو سال قبل ہوئی تھی۔ اس گفتگو میں خان موصوف نے حضرت درخواستی سے کہا تھا کہ مجھے تمام جماعتوں کے منشور پڑھنے کا موقع ملا ہے اور سب سے زیادہ جمعیۃ علماء اسلام کا منشور مجھے پسند آیا ہے، اس لیے جب بھی مجھے موقع ملا میں اس کے مطابق عمل کروں گا۔ حضرت درخواستی نے پیغام دیا کہ اب تو آپ گورنر ہیں، اپنے وعدے کا ایفا کیجیے۔

مولانا شمس الدین شہید امیر محترم کی ہدایت پر گورنر بلوچستان سے ملے اور پیغام پہنچایا۔ خان موصوف نے جواب دیا کہ وزیر اعظم بھٹو بھی اسلامی سوشلزم چاہتے ہیں اس لیے آپ ان سے تعاون کریں۔ پھر گورنر صاحب نے مولانا شمس الدینؒ کو وزارت کی پیشکش کرتے ہوئے دعوت دی کہ آپ نیپ سے تعلق توڑ لیں۔ مولانا شہیدؒ نے کمال استغناء سے وزارت کی اس پیشکش کو مسترد کر دیا اور حضرت الامیر کو ملاقات کی رپورٹ دینے کی غرض سے خان پور روانہ ہو گئے۔

خان پور پہنچے، حضرت مدظلہ سے ملاقات ہوئی۔ دوسرے دن صبح حضرت درخواستی مدظلہ نے پنجاب جمعیۃ کے کنونشنوں میں شرکت کی غرض سے لاہور روانہ ہونا تھا۔ مولانا شمس الدینؒ حضرت الامیر مدظلہ کو رخصت کرنے کے لیے ریلوے اسٹیشن پر آئے، رخصت سے قبل معانقہ ہوا۔ حضرت درخواستیؒ نے فرمایا: ’’مولوی شمس الدین! مجھے تمہارے چہرے پر نور نظر آ رہا ہے۔ شاید یہ ہماری آخری ملاقات ہو، جاتے ہی دین کا کام شروع کر دو۔‘‘

حضرت الامیر کو رخصت کرنے کے بعد مولانا شہیدؒ مخدوم العلماء والمشائخ حضرۃ دین پوری دامت برکاتہم کی زیارت کے لیے دین پور تشریف لے گئے۔

آخری تقریر

واپسی پر رحیم یار خان جمعیۃ علماء اسلام نے سبزی منڈی چوک میں جلسہ عام کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ مولانا شمس الدین نے جلسہ عام سے خطاب کیا۔ یہ شہید کی آخری تقریر ہے جو ٹیپ ریکارڈ ہو چکی ہے اور اب قارئینِ ترجمان کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔ تقریر سے فراغت کے بعد ۱۰ مارچ بروز اتوار وہاں سے روانہ ہو کر رات سبی پہنچے اور حضرت الامیر مدظلہ کے حکم کی تعمیل میں جماعتی تنظیم و رابطہ کا کام شروع کر دیا۔ احباب و رفقاء سے ملاقات کی، جماعتی مسائل پر تبادلۂ خیال ہوا۔ صوبائی امیر حضرت مولانا ابوبکر اور ناظم حضرت مولانا عبد الواحد بھی اس روز سبی میں تھے۔ رات سبی قیام کیا اور پیر کو صبح کوئٹہ پہنچ گئے۔ صوبائی کنونشن کی تیاریوں کے لیے ۱۶ مارچ کو مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کر رکھا تھا۔ گھر سے والد محترم کا پیغام ملا کہ آ کر مل جاؤ، کافی دیر ہو گئی ہے۔ اس خیال سے کہ اجلاس سے قبل وقت ہے، ۱۳ مارچ کو کوئٹہ سے فورٹ سنڈیمن کے لیے روانہ ہو گئے۔ فورٹ سنڈیمن کوئٹہ سے کم و بیش دو سو میل کے فاصلہ پر ہے۔

شاہ وزیر

مبینہ طور پر روانگی کے موقع پر فورٹ سنڈیمن ہی کا ایک شخص شاہ وزیر بھی ساتھ سوار ہوا۔ یہ شخص خود بھی سمگلر ہے اور خاندان کے دوسرے افراد بھی جرائم پیشہ ہیں۔ معلوم ہوا کہ نیپ جمعیۃ حکومت کے دوران نیپ میں تھا۔ پھر پشتون خواہ نیپ میں شامل ہوا اور بعد میں پیپلز پارٹی میں چلا گیا۔ گزشتہ دو تین ماہ سے غائب تھا۔ اس واقعہ سے دو روز قبل فورٹ سنڈیمن آیا اور مولانا سید امام شاہ صاحب سے، جو جمعیۃ کے سرگرم کارکن ہیں، پوچھا کہ مولانا شمس الدین کہاں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ کوئٹہ میں ہیں۔ پھر یہ شخص کوئٹہ چلا گیا اور روانگی کے روز مولانا شمس الدین سے کہا کہ میں نے بھی فورٹ سنڈیمن جانا ہے، مجھے بھی ہمراہ لیتے جائیں۔

روانگی سے قبل اس نے ڈرائیور سے پوچھا کہ تم نے بھی ساتھ جانا ہے؟ ڈرائیور نے بتایا، پتہ نہیں مولوی صاحب مجھے ساتھ لے جاتے ہیں یا خود ہی گاڑی چلائیں گے۔ اس نے پھر ایک دو بار ڈرائیور سے دریافت کیا اور اس نے یہی جواب دیا۔ روانگی کے وقت مولانا شمس الدینؒ نے ڈرائیور سے گاڑی کی چابیاں لے لینا اور کہا کہ تم یہیں رہو میں جاتا ہوں۔ پھر آپ کوئٹہ سے فورٹ سنڈیمن روانہ ہو گئے۔ شاہ وزیر مولانا کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ اسے مولانا شہیدؒ کے ساتھ گلی سیٹ پر بیٹھے بہت سے افراد نے بلکہ خود مولانا شہید کے بھائی سید ضیاء الدین صاحب نے، جو ایک ٹینکر پر فورڈ سنڈیمن سے کوئٹہ آ رہے تھے، دیکھا۔

آخری عمل

کوئٹہ اور فورٹ سنڈیمن کے درمیان قلعہ سیف اللہ ایک بڑا بازار اور قصبہ ہے۔ وہاں سے جب آگے گزر گئے تو دیکھا کہ ایک جیپ کو حادثہ پیش آیا ہے اور کچھ فوجی زخمی ہیں۔ مولانا موصوف نے زخمیوں کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور قلعہ سیف اللہ کے ہسپتال میں داخل کرانے کے لیے واپس ہوئے۔ اس موقع پر شاہ وزیر شاید یہ کہہ کر اتر گیا کہ آپ داخل کرا کر آ جائیں میں پیشاب وغیرہ سے فارغ ہوتا ہوں، واپسی پر سوار ہو جاؤں گا۔ مولانا شہیدؒ قلعہ سیف اللہ سے واپس ہوئے، ایک جگہ نماز ادا کی اور پھر فورٹ سنڈیمن کے لیے روانہ ہو گئے۔ شاہ وزیر اب اگلی سیٹ کی بجائے پچھلی سیٹ پر سوار ہوا۔ اس حالت میں بھی متعدد افراد نے اسے دیکھا

شہادت

ابھی مشکل دو میل کا فاصلہ طے کر پائے ہوں گے کہ موضع خل گئی کے قریب اس شقی القلب نے پیچھے سے مولانا شمس الدینؒ کی کنپٹی پر پستول کی نالی رکھ کر فائر کر دیا۔ اس نے تین گولیاں چلائیں، دو دماغ میں اور ایک بالائی جبڑے میں پیوست ہو گئی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ نور اللہ مرقدہ و رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ۔ قرائن کے مطابق اس شخص نے خود گاڑی کو بند کیا۔ اگلی سیٹ پر پاؤں کے نشان اور سوئچ بورڈ پر ہاتھ کے نشان موجود ہیں۔ گاڑی کچھ دیر چکر کاٹتے ہوئے سڑک سے کچھ فاصلے پر کھڑی ہو گئی اور قاتل فرار ہو گیا۔ کم و بیش اسی وقت قریب کے لوگوں کے بیان کے مطابق وہیں کچھ فاصلے پر ایک جیپ کے مسلسل اور بظاہر بے مقصد ہارن کی لگاتار آواز آتی رہی۔ ملزم جائے واردات سے چکر کاٹتا ہوا پہاڑ پر ایک بستی تک پہنچا، پھر واپس سڑک پر اس مقام تک آیا جہاں سے ہارن کی آواز سنائی دے رہی تھی۔

شاہ وزیر کہاں ہے؟

مختلف حلقوں کی طرف سے شاہ وزیر کے بارے میں مختلف اور متضاد اعلانات کیے جا رہے ہیں۔ مگر ہم فورٹ سنڈیمن سے واپسی پر ڈیرہ اسماعیل خان پہنچے تو سننے میں آیا کہ اسے ڈیرہ اسماعیل خان میں اس سانحہ کے بعد تیسرے روز دیکھا گیا ہے۔ یہ بھی سنا گیا ہے کہ اس کا عزم راولپنڈی جانے کا تھا لیکن اس وقت تک اس کیس کے سلسلہ میں اس کا نام منظر عام پر نہ آیا تھا۔

شہادت کے بعد مولانا شہیدؒ کو سب سے پہلے گل محمد مندوخیل نے دیکھا اور قلعہ سیف اللہ کے حکام کو اس کی خبر دی۔ اس کے بعد یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح بلوچستان میں پھیل گئی۔ مولانا شمس الدینؒ کے والد حضرت مولانا محمد زاہد مدظلہ کو پہلے اطلاع ملی کہ مولانا شمس الدینؒ کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے، وہ فورٹ سنڈیمن سے فوراً جائے واردات کی طرف روانہ ہو گئے مگر وہاں پہنچ کر اصل قصہ کا علم ہوا۔ کوئٹہ میں جناب عبد الواحد صاحب کو بھی اطلاع ہوگئی۔ جناب محمد زمان خان اچکزئی اپنے گھر گلستان میں تھے، رات ۱۱ بجے کے قریب انہیں اطلاع ملی۔ جمعیۃ کے مرکزی قائدین کوٹ ادو ضلع مظفر گڑھ میں علاقائی تربیتی کنونشن میں شریک تھے کہ انہیں نیپ کے جنرل سیکرٹری سید قصور گردیزی نے ملتان سے بذریعہ فون اطلاع دی۔ کوئٹہ فون پر رابطہ قائم کیا تو تصدیق ہو گئی۔ اور اس طرح رات ہی رات جمعیۃ کے مرکزی و صوبائی قائدین تک یہ روح فرسا اطلاع پہنچ گئی۔ مولانا شہیدؒ کے زخموں کا معائنہ کیا گیا اور صرف ایک گولی نکالی جا سکی، دوسری گولیاں اندر ہی رہنے دی گئیں۔

انتہائی المناک دن

۱۴ مارچ جمعرات کا دن پورے ملک میں جمعیۃ علماء اسلام کے حلقوں کے لیے انتہائی کربناک و المناک تھا۔ جب صبح ریڈیو اور اخبارات کے ذریعہ مولانا سید شمس الدین شہیدؒ کی شہادت کی خبر ملک بھر میں پھیل گئی۔ ملک کے سیاسی حلقے، دیندار حضرات، جمعیۃ کے اکابر، کارکن، معاون اور شہید کے اساتذہ، رفقاء و احباب مجمسہ رنج و الم بن گئے۔ بستی بستی اور قریہ قریہ صفِ ماتم بچھ گئی۔ مدارس میں تعطیل کر دی گئی۔ قرآن خوانی کی محافل منعقد ہوئیں اور اس ۲۹ سالہ نوجوان کی بے پناہ دینی خدمات پر شاندار عقیدت پیش کیا گیا۔

ادھر فورٹ سنڈیمن میں انتہائی الم و کرب کے ساتھ محبوب قائد کو سپرد خاک کرنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ کوئٹہ سے مولانا عبد الواحد صاحب کی معیت میں ایک قافلہ پہنچ چکا تھا اور جدھر جدھر خبر پہنچی لوگ دیوانہ وار فورٹ سنڈیمن کی طرف چل پڑے۔ پورے علاقہ میں دکانیں بند تھیں، کاروبار معطل تھے، کیا بڑے کیا چھوٹے سب رنج و الم میں ڈوبے ہوئے تھے۔ مگر مولانا شہیدؒ کا خاندان صبر و استقامت کے ساتھ اس امتحان کا سامنا کر رہا تھا۔ والد محترم مولانا سید محمد زاہد جوان بیٹے کی خون سے لت پت لاش دیکھ کر بھی اپنے آپ پر ضبط کیے ہوئے تھے، بلکہ دوسرے غمزدگان کو تسلی دیتے تھے اور کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے شمس الدین کی قربانی قبول فرما لی ہے۔

۳ بجے عوام کے بے پناہ ہجوم نے جس میں علماء کرام، سیاستدان، کارکن اور ہر طبقہ کے افراد تھے، حضرت مولانا سید محمد زاہد کی امارت میں نماز جنازہ ادا کی۔ اس سے قبل کم و بیش دو تین گھنٹوں تک لوگ اپنے محبوب رہنما کا آخری دیدار کرتے رہے۔ نماز جنازہ سے فارغ ہوئے تھے کہ صوبائی جمعیۃ کے جنرل سیکرٹری سینیٹر محمد زمان خان اچکزئی دیگر احباب کے ہمراہ پہنچ گئے۔ خان موصوف نے اپنے امیر کا آخری دیدار کیا، داڑھی، رخساروں اور آنکھوں کو بوسہ دیا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی اس امانت کو سپرد خاک کر دیا گیا۔

خون میں خوشبو

مولانا سید امام شاہ اور خان محمد زمان خان نے بتایا کہ مولانا سید شمس الدینؒ کے خون مقدس سے ایسی خوشبو آ رہی تھی کہ اس جیسی خوشبو کسی چیز میں نہیں دیکھی۔ حتیٰ کہ بعض افراد نے جن کے ہاتھوں کو خن لگ گیا تھا، سارا دن خون نہیں دھویا، یہ خوشبو لوگوں نے عام طور پر محسوس کی۔

کوئٹہ میں فائرنگ

مولانا شمس الدینؒ کی شہادت کی خبر کوئٹہ پہنچی تو رنج و کرب اور غم و غصہ کی لہر پورے شہر میں دوڑ گئی۔ جماعتی کارکنوں اور جمعیۃ طلباء اسلام نے دوسرے روز شہر میں احتجاجی جلسہ و جلوس کا پروگرام ترتیب دیا۔ محمد زمان خان اچکزئی نے ڈی سی سے کہا کہ شہر میں دفعہ ۱۴۴ اٹھا کر لوگوں کو رنج و غم کے اظہار کا موقع دیں لیکن ڈی سی صاحب نہ مانے۔ خان صاحب موصوف نے عبد الصمد خان اچکزئی کے قتل کا حوالہ دیا کہ وہ رکن اسمبلی تھے اور ان کی المناک موت پر سرکاری طور پر تعطیل بھی ہوئی تھی اور دفعہ ۱۴۴ اٹھا کر لوگوں کو اظہار رنج و غم کا موقع بھی دیا گیا تھا، اب ڈپٹی سپیکر شہید ہوئے ہیں تو آپ کو فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دفعہ ۱۴۴ اٹھا لینی چاہیے۔ مگر ڈی سی صاحب نے نہ ماننا تھا نہ مانے، بلکہ مشورہ دیا کہ آپ چار چار افراد کی ٹولیوں کی صورت میں جلوس نکالیں تاکہ دفعہ ۱۴۴ کی خلاف ورزی نہ ہو۔

چنانچہ دوسرے روز یعنی جمعرات کو اس پروگرام کے مطابق جلوس طے کیا گیا کہ چار چار افراد کی ٹولیوں کی صورت میں جلوس نکالیں گے اور قانون کو ہاتھ میں لینے کی بجائے رنج و غضب کا پر امن مظاہرہ کریں گے۔ پروگرام کے مطابق منان چوک میں جلوس کے لیے کارکن اور عوام جمع ہونے شروع ہوئے تو پولیس بھی بھاری تعداد میں موجود تھی۔ حکام نے جلوس کے منتظمین سے کہا کہ آپ لوگ جلوس نہ نکالیں کیونکہ یہ قانون کے خلاف ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم چار چار افراد کی صورت میں نکلیں گے اور یہ خلافِ قانون نہیں ہے، خود ڈی سی صاحب سے اس سلسلہ میں بات ہو چکی ہے۔ ابھی جلوس ترتیب دیا جا رہا تھا اور دو تین ٹولیاں تیار ہوئی تھیں کہ پولیس نے جلوس کو گھیرے میں لے لیا اور منتشر ہونے کا حکم دیا۔ جلوس نے منتشر ہونے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ہم قانون کی پابندی کرتے ہوئے جلوس ضرور نکالیں گے۔ اس پر پولیس کی طرف سے آنسو گیس کے شیل پھینکے گئے، جب اس پر بھی ہجوم منتشر نہ ہوا تو فائرنگ کا آغاز ہو گیا۔ محتاط اندازے کے مطابق پونے دو گھنٹے تک مسلسل اور پھر ایک گھنٹہ تک وقفہ سے فائرنگ ہوتی رہی۔ جواب میں ہجوم کے شرکاء نے بھی پتھروں سے کام لیا۔ نتیجۃً کم از کم چھ افراد ہلاک اور ۱۰۰ سے زائد زخمی ہو گئے۔ فوج آئی اور اس نے اس ہنگامہ پر قابو پایا اور اس طرح کوئٹہ کے حکام نے رنج و الم کا مظاہرہ کرنے والوں کے لیے مزید رنج و الم کا سامان فراہم کر دیا۔

قائدین کی آمد

امیر مرکزیہ حضرت درخواستی دامت برکاتہم اور قائد جمعیۃ حضرت مولانا مفتی محمود صاحب کو جمعہ کے روز کوئٹہ کے لیے طیارے کی سیٹیں ملیں۔ دونوں رہنما جب کوئٹہ پہنچے تو خان محمد زمان خان اچکزئی نے جماعتی کارکنوں کے ہمراہ انتہائی سوگوار فضا میں قائدین کا خیر مقدم کیا۔ ہوائی اڈہ سے فورٹ سنڈیمن کے لیے روانگی ہوئی۔ عشاء سے قبل وہاں پہنچ گئے۔ حضرت مولانا سید محمد زاہد صاحب مدظلہ اور دیگر افراد خاندان سے قائدین نے اظہارِ تعزیت کیا۔

ہفتہ کے دن صبح دس بجے جمعیۃ علماء اسلام فورٹ سنڈیمن کے زیر اہتمام جلسہ عام مولانا سید میرک شاہ صاحب سرپرست جمعیۃ علماء اسلام فورٹ سنڈیمن کی صدارت میں منعقد ہوا۔ عوام کا بے پناہ ہجوم قائدین کے ارشادات سے مستفید ہونے اور محبوب رہنما کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سے قبل فورٹ سنڈیمن میں اتنا بڑا اجتماع نہیں دیکھا گیا۔ تلاوت کلام پاک کے بعد پشتو شاعر حاجی سید فریادی رسول نے پشتو میں دلگداز نظم پڑھی۔ پھر امیر مرکزیہ حضرت درخواستی مدظلہ، حضرت مولانا عبد الغفور صاحب کوئٹہ اور قائدین جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب نے عوام سے خطاب فرمایا۔

جلسہ کے اختتام پر قائدین جمعیۃ اور کارکن ایک جلوس کی شکل میں مولانا سید شمس الدین کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے پہنچے، وہاں حضرت الامیر مدظلہ نے اپنے مخصوص انداز میں مرحوم کے درجات کی بلندی کے لیے دعا فرمائی۔

   
2016ء سے
Flag Counter