دینی مدارس کی خود مختاری کے تحفظ کو اولیت دی جائے

   
۱۲ نومبر ۲۰۱۰ء

اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ اور وفاقی حکومت کے درمیان مبینہ طور پر ہونے والے معاہدے اور اس کے تحت ”وفاقی مدرسہ بورڈ“ کے قیام کے حوالے سے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کا مضمون اور جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد کے مولانا مفتی محمد زاہد کا تجزیہ و تبصرہ قارئین کی نظر سے گزر چکا ہے۔ اس سلسلے میں چھ نومبر کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں مختلف دینی مدارس کے اساتذہ اور ذمہ دار حضرات کو تشریف آوری کی زحمت دے کر ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا اور مبینہ معاہدہ اور وفاقی مدرسہ بورڈ کے بارے میں اب تک کی معلومات کی بنیاد پر کچھ آراء اور تجاویز پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مذاکرہ کی ایک نشست کی صدارت مولانا سید عبد المالک شاہ نے اور دوسری نشست کی صدارت مولانا عبد الرؤف فاروقی نے کی اور دیگر حضرات کے علاوہ مولانا عبد الحق خان بشیر، مولانا حافظ محمد یوسف، حافظ محمد عمار خان ناصر، پروفیسر محمد اکرم ورک، مولانا داؤد احمد میواتی، مولانا ظفر فیاض، پروفیسر حافظ منیر احمد اور پروفیسر غلام حیدر نے بھی مباحثے میں حصہ لیا۔

مذاکرہ میں مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کے مضمون کے ساتھ ساتھ وفاقی مدرسہ بورڈ کے چیئرمین جناب وکیل احمد خان کا ”روزنامہ پاکستان“ میں ۲۳ اکتوبر کو شائع ہونے والا تفصیلی انٹرویو اور مولانا مفتی محمد زاہد آف فیصل آباد کا تجزیاتی مضمون پڑھ کر سنایا گیا اور مجموعی طور پر مولانا محمد زاہد صاحب کے تجزیے سے اتفاق کرتے ہوئے شرکاءِ مذاکرہ نے مختلف پہلوؤں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

اس بات کا بطورِ خاص نوٹس لیا گیا کہ اگر وفاقی مدرسہ بورڈ کے چیئرمین جناب وکیل احمد خان کے بقول ”مدارس دینیہ کا معاملہ صرف حکومت اور دینی مدارس کا معاملہ ہے اور اس میں کسی غیر ملکی طاقت اور بیرونی ایجنڈے کا کوئی دخل نہیں ہے“ تو یہ معاملات وزارتِ تعلیم کے ساتھ طے پانے کی بجائے وزارتِ داخلہ کے ذریعہ کیوں طے کیے جا رہے ہیں؟ کیونکہ اگر یہ صرف تعلیمی مسئلہ ہے اور حکومت اپنے نقطہ نظر سے دینی مدارس کے اس نصاب و نظام میں بہتری پیدا کرنا چاہتی ہے تو اس مسئلہ کو وزارتِ تعلیم کے ذریعہ ڈیل کیا جانا چاہیے، وزارتِ داخلہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ وزارت داخلہ کے ذریعے دینی مدارس کے ساتھ معاملات طے کرنے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اصل مسئلہ تعلیم کا نہیں ہے اور اس کے پیچھے یقیناً بعض بین الاقوامی حلقوں کی یہ خواہش کارفرما ہے کہ دینی مدارس کی آزادی اور خود مختاری کو محدود کیا جائے اور انہیں کسی نہ کسی انداز میں سرکاری کنٹرول کے دائرہ میں لایا جائے، ورنہ وزارت داخلہ کے لیے اس میں دخل اندازی کی کوئی تک نہیں بنتی۔

دوسری بات جس کا مذاکرہ میں بطور خاص تذکرہ کیا گیا ہے کہ اتنا بڑا فیصلہ اعلیٰ ترین سطح پر ہو گیا ہے، مگر مدارس دینیہ کے عمومی ماحول میں اس سلسلے میں باخبری کی کوئی فضا موجود نہیں ہے اور نہ ہی اکثر مدارس کے ذمہ دار حضرات کو بحث و مباحثہ اور اظہار خیال کا موقع دیا گیا ہے۔ اتنا اہم فیصلہ جس کے ساتھ دینی مدارس کا مستقبل وابستہ ہے، اس میں ان کی آزادی اور خود مختاری کے حوالے سے سراسر ابہامات کی فضا نظر آ رہی ہے۔ چونکہ اس کے لیے بڑی جامعات اور دینی جماعتوں میں باہمی تبادلہ خیالات اور متعلقہ امور پر اظہار خیال کا ماحول فیصلے سے قبل ضروری تھا جو دکھائی نہیں دے رہا، بلکہ ایک بڑی اکثریت کو سرے سے معاملات کی نوعیت اور تفصیلات کا علم تک نہیں ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس اہم فیصلے کے بارے میں دینی مدارس کے عمومی ماحول کو اعتماد میں لیا جائے اور صرف اعلیٰ سطحی مذاکرات پر اکتفا نہ کیا جائے۔

شرکاءِ مذاکرہ کا خیال تھا کہ دینی مدارس کے وفاقوں کو سرکاری سطح پر بورڈ کے طور پر تسلیم کیا جانا ایک اچھی پیشرفت دکھائی دیتی ہے، کیونکہ اس میں خود وفاقوں کے اپنے مطالبے کی تکمیل ہوتی ہے۔ لیکن ان وفاقوں کے اپنے اپنے بورڈز کے اوپر ”وفاقی مدرسہ بورڈ“ کی تلوار لٹکائی جا رہی ہے اور معاہدہ یا اس سلسلے میں بیان کی جانے والی تفصیلات میں وفاقی مدرسہ بورڈ کے دائرہ کار، اختیارات اور علمی کردار کے بارے میں کوئی وضاحت موجود نہیں ہے، یہ بات محل نظر ہے اور وفاقوں کو بورڈ کا درجہ دیے جانے کی یہ قیمت کہ وہ وفاقی مدرسہ تعلیمی بورڈ کے دائرہ اختیار میں شامل ہو جائیں، اسے بہت مہنگا بنا رہی ہے۔ شاید دینی مدارس اپنے اہداف و مقاصد اور ڈیڑھ سو سالہ ماضی کے تسلسل پر قائم رہتے ہوئے اتنی بڑی قیمت ادا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں۔

بہرحال شرکاءِ مذاکرہ نے مجموعی طور پر اس مبینہ معاہدے پر اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کم و بیش سب حضرات نے مولانا مفتی محمد زاہد کے تجزیہ کو بروقت اور صحیح قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ دینی مدارس کے ذمہ دار حضرات کو اس تجزیاتی مضمون کے مطالعے کے بعد اس سلسلے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنی چاہیے۔ راقم الحروف نے مذاکرہ میں جن خیالات کا اظہار کیا وہ ”ماہنامہ نصرۃ العلوم“ گوجرانوالہ کے نومبر کے شمارے میں ادارتی معروضات کے طور پر پیش کیے جا چکے ہیں، انہیں قارئین کی دلچسپی کے لیے یہاں پیش کیا جا رہا ہے:

”مغربی دنیا کے تھنک ٹینکس کا یہ تجزیہ نیا نہیں ہے کہ جنوبی ایشیا یعنی پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت میں مسلمانوں کی دین کے ساتھ گہری وابستگی اور دفاعِ اسلام کے والہانہ جذبہ کا سب سے بڑا سبب عالم اسباب میں دینی مدارس ہیں۔ اور ان میں بھی سب سے نمایاں دیوبندی مکتب فکر ہے جو دینی روایات و اقدار کے ساتھ عام مسلمانوں کی کمٹمنٹ کا مسلسل پہرہ دے رہا ہے اور مغرب کی ثقافت و فلسفہ کے ساتھ ساتھ اس کی سیاسی بالادستی اور تسلط کے خلاف بھی اس نے ہر دور میں عَلمِ بغاوت بلند کیے رکھا ہے۔

اس خطہ پر برطانوی استعمار کے تسلسل کے دور میں یہی صورتحال تھی اور اب امریکی استعمار کو بھی جنوبی ایشیا میں قدم جمانے کی راہ میں وہی رکاوٹیں دکھائی دے رہی ہیں بلکہ عملاً بھگتنا پڑ رہی ہیں۔ سابق صدر پاکستان صدر محمد ایوب خان مرحوم نے ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ نامی اپنی خودنوشت سوانح میں اس طبقہ کی سخت جانی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ مولویوں کا یہ گروہ اس قدر سخت جان ہے کہ قیام پاکستان کے موقع پر تقسیم ہند کی مخالفت کے موقف میں علماء کے اس گروہ کو جس خوفناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اس کے پیش نظر توقع یہ تھی کہ یہ طبقہ شاید اب کئی عشروں تک سر اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہو گا، مگر پاکستان بننے کے صرف پانچ برس بعد یہ طبقہ تحریک ختم نبوت کے عنوان سے حکومت کے سامنے کھڑا تھا اور اس نے دوسرے طبقات کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔

مغرب کے ارباب دانش اس حقیقت کا پوری طرح ادراک رکھتے ہیں اور عالمی پریس میں اس کا وقتاً فوقتاً اظہار بھی ہوتا رہتا ہے، حتٰی کہ مغربی ممالک جانے والے پاکستانی مسلمانوں میں سے جس شخص کا تعلق دین کے ساتھ زیادہ نمایاں نظر آتا ہے، بسا اوقات ائیرپورٹس پر انکوائری کے دوران اسے اس سوال کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے کہ کیا وہ دیوبندی مسلمان تو نہیں ہے؟

اسی وجہ سے پاکستان میں دینی مدارس کو کسی نہ کسی طرح سرکاری کنٹرول میں لانے اور مختلف حوالوں سے ان کی آزادی اور تعلیمی تشخص کو ریاستی تعلیمی نظام میں تحلیل کر دینے کی پالیسیاں سامنے آتی رہتی ہیں۔ چنانچہ ہمارے خیال میں پاکستان میں دینی مدارس کے تمام وفاقوں کے مشترکہ وفاقی تعلیمی بورڈ کے قیام کے مبینہ پروگرام کو بھی اس پس منظر سے الگ نہیں کیا جا سکتا، اس لیے دینی مدارس کے وفاقی تعلیمی بورڈ کے قیام کے تمام تر فوائد و منافع کے باوجود موجودہ معروضی صورتحال میں ہمارے تحفظات کم ہونے کی بجائے ان میں کچھ اضافہ ہی ہوا ہے۔

دینی مدارس اس خطہ کے مسلمانوں میں دینی شعور کو بیدار رکھنے، نئی نسل کے ایک بڑے حصے کو دینی تعلیمات کے ساتھ وابستہ رکھنے اور ان کے دلوں میں دینی اقدار و روایات کے تحفظ اور دفاع کا جذبہ اجاگر کرنے کی جو جدوجہد گزشتہ ڈیڑھ سو برس سے جاری رکھے ہوئے ہیں اس کی اساس ہی ان کے جداگانہ تعلیمی تشخص، آزادانہ تعلیمی نظام و نصاب اور ان کی انتظامی و مالیاتی خود مختاری پر ہے۔ ان میں سے کوئی ایک ستون بھی خدانخواستہ کمزور ہوا تو دینی مدارس اپنا موجودہ کردار باقی نہیں رکھ سکیں گے۔ اس لیے دینی مدارس کے تمام وفاقوں بالخصوص وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی قیادت سے ہم یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس نازک مرحلہ پر پھونک پھونک قدم رکھا جائے اور باہمی ربط و مشاورت کا ماحول قائم رکھتے ہوئے دینی مدارس کی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کو دوسری ہر بات پر اولیت دیتے ہوئے اس کے لیے ٹھوس حکمت عملی اختیار کی جائے۔“

   
2016ء سے
Flag Counter