کیا مساجد و مدارس رعایت کے مستحق نہیں؟

   
۱۴ دسمبر ۲۰۱۲ء

”اوگرا“ نے مساجد و مدارس کو کمرشلائزڈ کرتے ہوئے انہیں فیکٹریوں کے زمرے میں شامل کر لیا ہے اور ان کے گیس کے کنکشن کی فیس اور استعمال کے نرخ دس گنا بڑھا دیے ہیں، جس پر مختلف دینی حلقوں کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کے ایک اخباری بیان کے مطابق اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ عام صارفین کے لیے گیس کے کنکشن کی فیس تین ہزار روپے ہے، جبکہ مساجد و مدارس کے لیے اسے اکتیس ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح گیس کے استعمال کے نرخ عام گھریلو صارفین کے لیے سو روپے فی یونٹ، دو سو روپے فی یونٹ اور پانچ سو روپے فی یونٹ مختلف مراحل کے حوالہ سے ہیں، مگر مساجد و مدارس کے لیے اس کی اعلیٰ سطح یعنی پانچ سو روپے فی یونٹ متعین کر دی گئی ہے اور کم از کم فکسڈ بل کی مقدار دو سو روپے سے بڑھا کر مساجد و مدارس کے لیے چھتیس سو روپے کر دی گئی ہے، جو پورا مہینہ گیس استعمال نہ ہونے کی صورت میں بھی لازماً ادا کرنے ہوں گے۔

قاری صاحب کا کہنا ہے کہ مساجد میں عام طور پر گیس سردیوں کے موسم میں تین یا چار ماہ استعمال ہوتی ہے اور باقی آٹھ نو ماہ مساجد میں گیس کا کوئی مصرف نہیں ہوتا، لیکن مساجد کو گیس کے استعمال نہ کرنے کی صورت میں بھی آٹھ نو ماہ تک ماہانہ ساڑھے تین ہزار بلاوجہ ادا کرنا پڑیں گے جو سراسر زیادتی اور ناانصافی کی بات ہے۔

گزشتہ روز گوجرانوالہ کے چند علماء کرام نے کمشنر گوجرانوالہ سے ملاقات کے دوران اس بات کا تذکرہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ صرف مساجد کے لیے نہیں، بلکہ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کے لیے بھی ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے گزارش کی کہ اس طرح تو دوہرا ظلم ہے کہ ”عبادت گاہ“ کو ہی اس زیادتی کا ہدف قرار دے دیا گیا ہے، جو ظاہر ہے کہ نفسِ مذہب کے ساتھ امتیازی سلوک کی علامت ہے۔

اس صورت حال میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ضلعی مسئولین مولانا مفتی محمد نعیم اللہ اور مولانا قاری گلزار احمد قاسمی کی دعوت پر گوجرانوالہ کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام اور راہ نماؤں کا ایک مشترکہ ”احتجاجی کنونشن“ ۱۲ دسمبر کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں منعقد ہوا، جو ظہر سے عصر تک جاری رہا۔ کنونشن کی صدارت راقم الحروف نے کی اور اس میں دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث مکاتب فکر کے دو سو کے لگ بھگ علماء کرام اور راہ نماؤں نے شرکت کی، جن میں مولانا نعیم اللہ، مولانا قاری گلزار احمد قاسمی، مولانا محمد ریاض خان سواتی، مولانا پروفیسر حافظ سعید احمد کلیروی، مولانا حافظ محمد عمران عریف، مولانا مشتاق احمد چیمہ، مولانا حجاج اللہ صمدانی، مولانا خالد حسن مجددی، مولانا صاحبزادہ نصیر احمد اویسی، مولانا قاری محمد زاہد سلیم، مولانا حافظ محمد صدیق نقشبندی، مولانا حبیب اللہ خان، مولانا عبد الواحد رسول نگری، حاجی عثمان عمر ہاشمی، مولانا محمد اشرف مجددی، مولانا محمد رفیق عابد علوی، حافظ محمد ثاقب، مولانا سید غلام کبریا شاہ، میاں فضل الرحمٰن چغتائی اور ملک عبد الرشید بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔

  • مقررین نے ”اوگرا“ کے اس اقدام پر شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے اسے مذہب اور عبادت سے نفرت کی علامت قرار دیا اور کہا کہ یہ مساجد و مدارس کے خلاف عالمی سیکولر لابیوں کے ایجنڈے کا ایک حصہ ہے، جس کا مقصد مساجد و مدارس پر دباؤ بڑھانا اور ان کے معاشرتی کردار کو متاثر کرنا ہے۔
  • مقررین نے کہا کہ بہت سے ممالک اپنے ملکوں میں عبادت گاہوں اور مذہبی تعلیم کے اداروں کو سہولتیں اور بجلی و گیس کے نرخوں میں سبسٹڈی دے رہے ہیں، حتیٰ کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی مساجد و مدارس سمیت تمام مذہبی عبادت گاہوں کو سرکاری سطح پر یہ سہولت دی گئی ہے۔ لیکن اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مذہبی عبادت گاہوں اور دینی تعلیم گاہوں کی کردار کشی اور اس قسم کے ظالمانہ اقدامات کے ذریعہ ان کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے، جو اسلام دشمنی کی غمازی کرتی ہے۔
  • مقررین نے کہا ہے کہ یہ بیورو کریسی میں چھپے ہوئے ایسے افراد کی کارروائی محسوس ہوتی ہے، جو مذہب دشمنی کے ساتھ ساتھ محلہ گلی کی عام مساجد کی سطح پر حکومت کے خلاف نفرت کے جذبات پھیلانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔
  • مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ ”اوگرا“ کے اس اقدام کو قبول کرنے کی بجائے مسترد کر دیا جائے اور ظلم پر مبنی بل ادا نہ کیے جائیں۔
  • مقررین نے سارے مکاتب فکر کے دینی مدارس کے وفاقوں سے کہا ہے کہ وہ قومی سطح پر اس سلسلہ میں اجتماعی پالیسی اختیار کریں اور اس کے لیے عدالت عظمیٰ سے بھی رجوع کیا جائے۔

گزشتہ دنوں گوجرانوالہ میں فلائی اوور کی تعمیر کے سلسلہ میں شہریوں کی طرف سے کچھ تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔ مرکزی جامع مسجد میں ایک مشترکہ کنونشن بھی منعقد ہوا تھا اور اس موقع پر علماء اور تاجروں کی متحدہ رابطہ کمیٹی تشکیل پائی تھی، جس کے کنوینر مولانا مشتاق احمد چیمہ نے اب تک کی پیشرفت کے سلسلہ میں شرکاء کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ:

  • دو مساجد فلائی اوور کی زد میں آ رہی تھیں، ان کے لیے فلائی اوور کے سابقہ ڈیزائن میں تبدیلی کر کے القائی نوری مسجد کو شہید ہونے سے بچا لیا گیا ہے، جبکہ اکبری مسجد کے لیے اس کے قریب ہی یونس پہلوان کے اڈے کے ساتھ متبادل جگہ اور اس کی تعمیر کے لیے فنڈ دے دیے گئے ہیں اور جگہ کی سرکاری طور پر نشاندہی بھی کر دی گئی ہے۔
  • فلائی اوور کے سائز میں اضافہ کر کے اسے سوا کلومیٹر کی بجائے پونے دو کلومیٹر کر دیا گیا ہے۔
  • فلائی اوور سے متاثر ہونے والے تاجران کو مناسب معاوضہ دے دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ ہمارے سارے مطالبات پورے نہیں ہوئے، لیکن ضلعی انتظامیہ نے ہمارے مطالبے پر فلائی اوور کے ڈیزائن میں رد و بدل کر کے جتنا بھی تعاون کیا ہے اس پر ہم انتظامیہ کے شکر گزار ہیں۔

کنونشن میں مساجد و مدارس کے لیے سوئی گیس کے بلوں کے مسئلہ پر مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام اور تاجر راہ نماؤں پر مشتمل اکیس رکنی رابطہ کمیٹی قائم کی گئی ہے، جو ۱۴ دسمبر جمعہ کو اجلاس منعقد کرے گی اور آئندہ عملی پروگرام کا فیصلہ کرے گی۔

کنونشن میں ایک متفقہ قرارداد کی صورت میں ”اوگرا“ کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف ہر سطح پر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ مساجد و مدارس اور دیگر عبادت گاہوں کے گیس کے بلوں میں دس گنا اضافہ واپس لیا جائے۔ بلکہ دینی مدارس، مساجد بلکہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کو اس سلسلہ میں سبسڈی کی سہولت دی جائے۔

تازہ اطلاعات کے مطابق حکومت نے وفاق المدارس کے رہنماؤں کو یقین دہانی کروائی ہے کہ گیس کے نرخوں میں اضافہ واپس لیا جائے گا۔ اللہ کرے کہ حکومت اپنی اس یقین دہانی پر عملدرآمد بھی کروائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter