انتخابی امیدواروں کی سکروٹنی کا سلسلہ مکمل ہو گیا ہے اور اب نااہل قرار دیے جانے والے امیدواروں کے انتخاب میں حصہ لینے کا معاملہ اپیلوں کے دائرے میں داخل ہو چکا ہے۔ اس دوران کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے امیدواروں پر جو کچھ گزری ہے، اس کی کچھ جھلکیاں میڈیا اور قومی پریس کے ذریعے عوام کے سامنے بھی آ چکی ہیں۔ خاص طور پر دینی معلومات اور دیانت و امانت کے حوالے سے جو مناظر دیکھنے میں آئے ہیں، اس نے بہت سے لوگوں کے لیے اگرچہ ہنسی کا سامان فراہم کیا ہے، لیکن دراصل یہ رونے کا مقام ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں عوام کی اعلیٰ سطح پر نمائندگی کرنے والوں کی اپنے مذہب کے بارے میں معلومات اور دلچسپی کا یہ حال ہے کہ کسی کو کلمے نہیں آ رہے، کوئی نماز جنازہ کی دعائیں نہیں جانتا، کسی کی زبان پر سورۂ اخلاص نہیں چڑھ رہی اور کسی کو یہ تک معلوم نہیں کہ دعائے قنوت کیا ہوتی ہے؟ وغیر ذلک۔ حالانکہ یہ دینی معلومات کا وہ ابتدائی لیول کا نصاب ہے، جو مسلمان بچے کو تعلیم کے آغاز میں ہی سال چھ مہینے میں پڑھا دیا جاتا ہے اور دین کے ساتھ تھوڑا بہت تعلق رکھنے والا شخص بھی اس سے واقف ہوتا ہے۔
بعض دوستوں کو اشکال ہے کہ ان باتوں کا عوامی نمائندگی کے ساتھ کیا تعلق ہے اور ریٹرنگ افسران کو امیدواروں سے قرآن کریم کی آیات، سورتوں، دعاؤں، نماز کے ضروری مسائل اور دیگر دینی معلومات کے بارے میں سوال کرنے کی کیا سوجھی ہے؟ مگر ہمارے خیال میں یہ اشکال خود محلِ اشکال ہے، اس لیے کہ دستورِ پاکستان کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان نے صرف عوامی مسائل میں اپنے حلقے کے لوگوں کی نمائندگی ہی نہیں کرنی، بلکہ انہیں بنیادی طور پر ”قانون سازی“ کی ذمہ داری سے بھی عہدہ برآ ہونا ہے، جس کے لیے دستور نے پابندی لگا رکھی ہے کہ یہ قانون سازی قرآن و سنت کی ہدایات و تعلیمات کے دائرے میں ہو گی۔ اب جس شخص کو اپنے مذہب کی بالکل ابتدائی اور بنیادی معلومات تک رسائی حاصل نہیں ہے، اس نے قرآن و سنت کی روشنی میں قانون سازی میں آخر کیا کردار ادا کرنا ہے؟
اب سے ربع صدی قبل جب سینٹ آف پاکستان میں مولانا سمیع الحق اور مولانا قاضی عبد اللطیف کے پیش کردہ ”شریعت بل“ پر بحث جاری تھی اور اس کے بارے میں قومی پریس اور مختلف سطح کی مجالس میں عوامی بحث و مباحثے کا سلسلہ عروج پر تھا تو اس موقع پر یہ سوال بھی مختلف حلقوں میں زیر بحث آیا تھا کہ اگر مذکورہ شریعت بل کے ذریعے قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لاء قرار دیا جانا مطلوب ہے تو قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کی فائنل اتھارٹی کا تعین بھی ہو جانا چاہیے۔ اس کے لیے بعض ممتاز دانشوروں کی رائے یہ تھی کہ پارلیمنٹ کو اجتہاد کا حق دے کر قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح میں فائنل اتھارٹی قرار دے دیا جائے۔
ہم نے اس موقع پر عرض کیا تھا کہ ہمیں اس سے کوئی اختلاف نہیں ہے، اگر قرآن و سنت سے استدلال اور اجتہاد و استنباط کی اہلیت کی شرائط سپریم کورٹ کے ذریعے طے کر لی جائیں اور الیکشن رولز میں ترمیم کر کے پارلیمنٹ کا رکن بننے والوں کے لیے ان شرائط کو لازمی قرار دیا جائے تو ہمیں پارلیمنٹ کے اجتہاد کا حق تسلیم کرنے سے کوئی انکار نہیں ہو گا۔ لیکن جس ایوان کی رکنیت کے لیے سورۂ فاتحہ کا ترجمہ جاننا بھی شرط نہیں ہے، اسے قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح اور اجتہاد و استنباط کا حق دینے کی بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے اور نہ ہی عقل سلیم اسے قبول کرتی ہے۔ مگر لطف کی بات یہ ہے کہ بہت سے دانش ور جو اس وقت پارلیمنٹ کو اجتہاد کا غیر مشروط حق دینے کی بات کر رہے تھے، انہی کو اب یہ اعتراض ہے کہ قومی اسمبلی کے امیدواروں سے سورۂ فاتحہ، سورۂ اخلاص اور دعائے قنوت کے بارے میں سوالات کیوں کیے جا رہے ہیں اور اسمبلی میں جانے کے لیے دین کا علم ضروری کیوں سمجھا جا رہا ہے؟
ہماری گزارش ہے کہ جس دستور کے تحت انتخابات میں حصہ لیا جا رہا ہے، اس دستور نے قانون سازی کے لیے ”قرآن و سنت“ کو بنیاد قرار دے رکھا ہے اور حکومت اور پارلیمنٹ دونوں کو پابند کیا ہوا ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کی حدود میں رہیں گے اور قرآن و سنت کے دائرے میں قوانین و ضوابط اور حکومتی پالیسیوں کا تعین ان کی دستوری ذمہ داری ہو گی۔ اس لیے ریٹرننگ افسران کے سوالات پر اعتراض کرنے کی بجائے ہمیں اس المیہ کے اسباب کا جائزہ لینا چاہیے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں امیدوار کے طور پر پیش ہونے والے نمائندوں کی اکثریت قرآن و سنت کی بنیادی اور ابتدائی معلومات سے کیوں بے بہرہ ہے اور سوسائٹی کی اس ”کریم“ کو ریاست کے سرکاری مذہب اور دین سے اس قدر بے گانہ رکھنے کی ذمہ داری آخر کس پر عائد ہوتی ہے؟