عزتِ نفس اور حیثیتِ عُرفی کا قانونی تحفظ

   
جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ، گوجرانوالہ
۲۶ جون ۲۰۲۵ء

(۲۶ جون ۲۰۲۵ء کو جمعیت اہلسنت والجماعت حنفی دیوبندی گوجرانوالہ کے مشاورتی اجلاس سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ باتیں بہت سی کہنے کی ہیں لیکن وقت مختصر ہے اس لیے دو باتیں جو بہت زیادہ ضروری سمجھتا ہوں وہ میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔

پہلی بات یہ کہ آپ حضرات اہلِ علم ہیں، علماء کرام ہیں، دنیا کے ہر ملک میں دو قانون موجود ہیں، کوئی دنیا کا ملک ایسا نہیں ہے جہاں یہ دو قانون نافذ نہ ہوں، ہمارے ہاں بھی ہیں۔ ایک کو کہتے ہیں ہتکِ عزت سے تحفظ کا قانون۔ ملک کا ہر شہری، اس کی عزت ہے، کسی بھی شہری کی عزت پر کوئی بھی ہاتھ ڈالے، ملک کا قانون اس پہ حرکت میں آتا ہے اور شہری کی عزت کا تحفظ کرتا ہے۔ اور دوسرا قانون جس کو ازالۂ حیثیتِ عرفی کا قانون کہتے ہیں، جو اس کے معاشرتی سٹیٹس کا تحفظ کرتا ہے۔

میں نے ہمیشہ مختلف فورموں پر یہ سوال کیا ہے کہ ایک عام شہری کی توہین دنیا کے ہر ملک میں جرم ہے، صرف شخصی توہین نہیں، ازالۂ حیثیتِ عرفی، اس کے معاشرتی مقام کو کم کرنا بھی دنیا کے ہر ملک میں جرم ہے، اگر عام شہری کی توہین جرم ہے، اس کی حیثیتِ عرفی کو کم کرنا جرم ہے، تو حضرات صحابہ کرامؓ اور حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی توہین کیوں جرم نہیں ہے؟ یہ میرا سوال ہوتا ہے ہمیشہ۔ اور بین الاقوامی قانون بھی یہی ہے۔ اقوام متحدہ اپنے چارٹر کی بنیاد ہی انسانی عزتِ نفس کی بحالی کو قرار دیتی ہے۔ بین الاقوامی قانون اور ہر ملک کا قانون ان دو باتوں کی گارنٹی دیتا ہے کہ (۱) جو شخص کسی بھی شہری کی توہین کرے گا، مجرم ہے (۲) کسی بھی شہری کی حیثیتِ عرفی کو کم کرے گا، مجرم ہے۔ اس لیے میں ایک بات اپنے اداروں سے، حکمرانوں سے، اور سب سے کہنا چاہتا ہوں کہ توہین بین الاقوامی قانون میں بھی جرم ہے اور ملک کے قانون میں بھی جرم ہے۔

ہم توہین پر احتجاج کرتے ہیں تو ان کا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ یہ عقیدے کی بات ہے، آزادئ رائے کی بات ہے، انسانی حقوق کی بات ہے۔ میں دوٹوک عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم توہین کو نہ عقیدہ مانتے ہیں، نہ آزادئ رائے مانتے ہیں، نہ انسانی حق مانتے ہیں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ میری توہین جرم ہے، اور حضرات انبیاء کرامؑ اور صحابہ کرامؓ کی توہین جرم نہیں ہے۔ ایک عام شہری کی حیثیتِ عرفی کا مجروح کرنا جرم ہے، اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی توہین جرم نہیں ہے، یہ کیا بات ہے؟ ایک بات تو میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں بطور اصول کے کہ ہم توہین کو نہ انسانی حق مانتے ہیں، نہ قانون مانتے ہیں، نہ عقیدہ مانتے ہیں، نہ آزادئ رائے مانتے ہیں۔ توہین جرم ہے، توہین کسی کا حق نہیں ہے۔ یہ میں بطور پالیسی کے عرض کر رہا ہوں کہ ہمیں اس پہ سٹینڈ لینا ہو گا اور میں تو ہر جگہ یہی عرض کرتا ہوں۔

دوسری بات، مسائل جو آپ نے پیش کیے، الحمد للہ آپ کی ٹیم ہے، میں ان کے پیچھے کھڑا ہوں ان شاء اللہ۔ مسائل پیدا ہوتے رہیں گے، حل ہوتے رہیں گے، لیکن ایک بات اور میں اپنے ذمہ دار اداروں سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قانون موجود ہے، باہمی معاہدات موجود ہیں، ضابطۂ اخلاق موجود ہے۔ قانون موجود ہے یا نہیں؟ اور معاہدات آپس کے موجود ہیں یا نہیں ہیں؟ اور ضابطۂ اخلاق بھی موجود ہے یا نہیں ہے؟ اس کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو بداَمنی ہوتی ہے۔ قانون کی خلاف ورزی ہو گی، معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی، ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی ہو گی، تو کیا ہو گا؟ بد اَمنی ہو گی۔

میرا سوال یہ ہے کہ میں اگر خلاف ورزی کروں تو وہ تو بداَمنی ہے، اور ہمارے ادارے اور ہمارے ضلعی حُکام اگر اپنی مصلحت کے تحت relax of rules کہہ کر کسی ضابطے کو نظر انداز کر دیں تو اس سے بداَمنی نہیں ہو گی؟ یہ ریلیکس آف رولز کی بات، میں اس پر عرض کروں گا، نہیں۔ اگر معاہدات کی اور ضابطۂ اخلاق کی اور قانون کی پابندی مجھ پر ضروری ہے تو ڈپٹی کمشنر پر بھی ضروری ہے۔ اگر میرے خلاف ورزی کرنے سے بداَمنی ہوتی ہے تو ایس ایس پی کے خلاف ورزی کرنے سے بداَمنی نہیں ہوتی؟ ہمیں تو آپ کہتے ہیں کہ ہر ایک پابندی کرے، اور آپ میز پہ فیصلہ کرتے ہیں ریلیکس آف رولز کہ مصلحت کا تقاضہ ہے جی۔ نہیں جناب! اس معاہدے کی پابندی میں نے بھی کرنی ہے، ڈی سی نے بھی کرنی ہے، سی پی او نے بھی کرنی ہے، کوئی بھی خلاف ورزی کرے گا، ضابطے کے خلاف کام کرے گا، کسی بھی ٹائٹل سے کرے، بد اَمنی ہو گی۔

اس لیے میری دو درخواستیں ہیں:

  • ایک درخواست یہ کہ توہین دنیا میں کہیں بھی حق تسلیم نہیں کی جاتی، جرم تسلیم ہوتا ہے، توہین کسی کی بھی ہو، عام شہری کی توہین بھی جرم ہے، اور میں ایک چھوٹی سی بات اور کرنا چاہتا ہوں۔ ایک ہے کہ توہین جرم ہے، جس کی توہین کی گئی ہے اس کی حیثیت کے مطابق۔ پاکستان ملک میں عام شہری کی توہین جرم ہے اور قائد اعظم مرحوم کی توہین بھی جرم ہے۔ کیا برابر کا جرم ہے؟ میری توہین اور قائد اعظم مرحوم کی توہین برابر کا جرم ہے؟ یہ فرق بھی ملحوظ رکھنا ہو گا۔ جس سطح کی شخصیت کی توہین ہے، جرم بھی اسی درجہ کا ہے۔
  • اور دوسری بات میں نے عرض کی ہے کہ معاہدہ، قانون، ضابطۂ اخلاق، اس کی پابندی ہم پر بھی بالکل ضروری ہے، لیکن قانون نافذ کرنے والی شخصیات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھی اتنی ہی ذمہ داری ہے کہ ان معاہدات کے دائرے میں رہ کر کام کریں، وہ اگر مصلحت کے تحت یا ریلیکس آف رولز کہہ کر اِدھر اُدھر کریں گے تو پھر آپ دوسروں کو روک نہیں سکیں گے۔ یہ میں دو میسج دینا چاہتا ہوں آج، آپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، ان شاء اللہ العزیز اس پر ہم سٹینڈ لیں گے اور اس کے مطابق کام کریں گے۔
2016ء سے
Flag Counter