۱۰ جنوری ۲۰۰۱ء کو دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں جمعیت علماء اسلام کے راہنما مولانا سمیع الحق کی دعوت پر ’’متحدہ اسلامی کانفرنس‘‘ کے عنوان سے ملک کی دینی جماعتوں کے قائدین کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں افغانستان کی طالبان حکومت کے خلاف اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کی مذمت کرتے ہوئے امارتِ اسلامی افغانستان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ اور حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ان پابندیوں کو قبول کرنے کی بجائے انہیں مسترد کرنے کا اعلان کرے، اور اسلامی سربراہ کانفرنس کا ہنگامی اجلاس طلب کر کے طالبان حکومت کو باقاعدہ تسلیم کرنے اور مذکورہ پابندیوں کے خلاف ان کی حمایت و تعاون کا اہتمام کیا جائے۔
اس کانفرنس میں مولانا شاہ احمد نورانی، قاضی حسین احمد، مولانا معین الدین لکھوی، مولانا امان اللہ خان، مولانا محمد اکرم اعوان، مولانا محمد اعظم طارق، اور ڈاکٹر اسرار احمد سمیت مختلف مکاتبِ فکر کی اہم جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی۔ اور سب نے بیک زبان طالبان حکومت کے خلاف سلامتی کونسل کی پابندیوں کو امریکہ کے اسلام دشمن عزائم کی آئینہ دار، اور افغانستان میں نافذ ہونے والے اسلامی نظام کے خلاف معاندانہ کاروائی قرار دے کر طالبان حکومت کو ان ناروا اور ظالمانہ پابندیوں کے خلاف مکمل حمایت و تعاون کا یقین دلایا، اور اس کی عملی حمایت و معاونت کے لیے ’’دفاعِ افغانستان کونسل‘‘ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔
ادھر مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں جمعیت علماء اسلام پاکستان نے بیت المقدس اور افغانستان کے بارے میں امریکہ کے معاندانہ کردار اور مسلم بیزار طرزِ عمل کی مذمت کرتے ہوئے ملک بھر میں امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے جسے ملک کی بہت سی دیگر جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دونوں اقدامات بروقت اور ضروری ہیں جن سے افغانستان کی اسلامی حکومت اور بیت المقدس کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے فلسطینی مجاہدین کے ساتھ پاکستانی عوام کی ہم آہنگی اور یکجہتی کا اظہار ہوتا ہے۔ اور امریکہ اور اس کے کیمپ کی طرف سے اسلام اور دیندار مسلمانوں کے خلاف کیے جانے والے مسلسل اقدامات کے پس منظر میں یہ دینی حمیت اور قومی غیرت کا تقاضہ بھی ہے۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ اس مہم میں باہمی اشتراک و تعاون کی اہمیت کو پوری طرح محسوس کیا جائے، اور مشترکہ جدوجہد کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیتے ہوئے ملک بھر میں رائے عامہ کو اس جدوجہد کے لیے منظم و بیدار کرنے کے لیے مربوط محنت کی جائے۔
ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کے دینی حلقے اگر اپنے مذکورہ اعلانات کے مطابق منظم اور مسلسل جدوجہد کا بھی اہتمام کر لیں تو طالبان کی اسلامی حکومت کے خلاف سلامتی کونسل کی یہ پابندیاں بھی اسی طرح بے اثر ثابت ہوں گی جس طرح امارتِ اسلامی افغانستان کو اسلامی قوانین سے روکنے کے لیے اس سے قبل ڈالا جانے والا بین الاقوامی دباؤ ناکام ثابت ہوا ہے۔