(دارالمؤلفین جامعہ فتحیہ کے زیراہتمام حضرت مولانا محمد تقی امینیؒ کی تصنیف ’’احکامِ شرعیہ میں حالات و زمانہ کی رعایت‘‘ کی تقریبِ رونمائی سے خطاب)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں محترم میاں محمد نعمان صاحب کا اور مولانا سعید عاطف صاحب کا شکرگزار ہوں کہ آپ حضرات کے ساتھ ملاقات کا، بہت سے ارشادات سننے کا، کچھ باتیں کہنے کا موقع عنایت فرمایا۔ میں صرف یہ حضرت مولانا محمد تقی امینی رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے بارے میں دو تین باتیں عرض کروں گا سرسری طور پر۔
پہلی بات یہ ہے کہ خود میری زندگی کا فکری رخ متعین کرنے میں جن تین چار کتابوں کا دخل ہے ان میں مولانا کی یہ کتاب بھی ہے۔ آج سے کوئی چالیس سال پہلے پڑھی تھی۔ یہ کتاب اور ایک ان کا ’’لامذہبی دور کا تاریخی پس منظر‘‘۔ مغرب کو سمجھنے میں اور اجتہاد کے سفر کو سمجھنے میں ان کتابوں سے میرا رخ متعین ہوا اور میں نے ان سے بہت استفادہ کیا۔ اس لیے مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ مولانا تقی امینی کی یہ کتاب دوبارہ چھپ رہی ہے۔ اور جامعہ فتحیہ کی طرف سے چھپ رہی ہے، یہ ڈبل خوشی تھی کہ میں بھی جامعہ فتحیہ کے عملے کا ایک آدمی ہوں، میں بھی ان کی ٹیم کا حصہ ہوں، تو مجھے اس لیے زیادہ خوشی ہوئی، میں ہفتے میں ایک دن آتا ہوں، ایک سبق پڑھاتا ہوں، کافی سالوں سے یہ معمول ہے، اور کچھ یہ خطبات بھی ہوتے ہیں، تو بہرحال میں چونکہ اس ادارے کے عملے کا حصہ ہوں اس لیے میری یہ خوشی ڈبل ہو گئی کہ ہماری طرف سے یہ کتاب چھپ رہی ہے۔
میں اس کتاب کو ایک علمی اور فکری تحقیق کے ایجنڈے کا حصہ سمجھتا ہوں۔ میں ساری باتیں نظرانداز کر کے؛ اقبال مرحوم نے پاکستان؛ پاکستان بننے سے پہلے ہی تھے وہ؛ تصور انہوں نے پیش کیا لیکن پاکستان دیکھ نہیں سکے۔ انہوں نے ایک فکر پیش کی تھی کہ جس طرح فقہ حنفی؛ چونکہ یہاں کی اکثریتی فقہ حنفی ہے، اسی نے رول کرنا ہے؛ تو جس طرح پہلے کئی ادوار میں فقہ حنفی کی تدوینِ نو ہوئی تھی، ایک دفعہ پھر ہونی چاہیے۔ وقت گزر گیا ہے، ماحول بدل گیا ہے۔ اس لحاظ سے بھی کہ عرف و تعامل فقہ حنفی کی بڑی بنیادی اساس ہے۔ عرف و تعامل بدلتا رہتا ہے، زمانے کے اعتبار سے بھی اور مکان کے اعتبار سے بھی بدلتا رہتا ہے۔ جس طرح؛ میں چار دائروں میں تھوڑا سا تقسیم کروں گا۔ فقہ حنفی رولنگ فقہ ہے۔ دو فقہوں نے رول کیا ہے۔ فقہ حنفی نے اِس سارے خطے میں۔ اور فقہ مالکی نے مغرب میں، مراکش، اندلس وغیرہ سارا، فقہ مالکی ایک قانون کی کتاب رہی ہے۔
فقہ حنفی کا ایک دائرہ وہ تھا جسے ہم ظاہرِ روایت کہتے ہیں۔ پھر وہاں سے ہم منتقل ہوئے ماوراء النہر۔ پھر ماوراء النہر کا جو دائرہ تھا وہ ہماری اساس بنا۔ وہاں سے برصغیر میں آئے تو فتاویٰ ہندیہ، فتاویٰ عالمگیری۔ یہ ہمارے مختلف دائرے رہے ہیں۔ تو علامہ اقبال کی ایک تجویز تھی کہ فتاویٰ ہندیہ کی طرح فتاویٰ عالمگیری کی طرح، جس طرح وہ تدوینِ نو ہوئی تھی، فقہ حنفی کی تدوینِ نو ہو تاکہ نئی ریاست جو بنے اس کو ایک بنیاد فراہم ہو جائے۔ بلکہ میری معلومات کے مطابق علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے انتخاب بھی کیا تھا علامہ انور شاہ کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ان کی ملاقات اور ان کے روابط، اور پھر یہ علامہ اقبال نے پیشکش کی تھی کہ آپ لاہور آجائیں، آسٹریلیا مسجد علامہ اقبال کی تحریک پہ بنی تھی اور پیچھے مرکز بنا تھا۔ علامہ انور شاہ کاشمیریؒ یہاں آئے بھی تھے، ایک مہینہ آسٹریلیا مسجد میں خطابت کی بھی ہے اور سارے اس نظم کو؛ لیکن پھر کوئی وجہ بن گئی، انہوں نے؛ ڈابھیل چلے گئے۔ تو اصل میں تجویز تھی علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالیٰ کی کہ فقہ حنفی کی فتاویٰ ہندیہ کی طرز پر تجدیدِ نو کی جائے تاکہ آنے والے دور میں ایک قانون کے طور پر کام آ سکے۔ وہ نہیں ہو سکی۔
پاکستان بننے کے بعد۔ یہ تو میں اُس کی بات کر رہا ہوں۔ میں اِس کو اُسی کا ایجنڈا سمجھتا ہوں، اِس کو اُس کا حصہ سمجھتا ہوں۔ پاکستان بننے کے بعد دو کام ہم نے کیے ہیں علمی فقہی دنیا میں۔ تیسرا کام اب تک نہیں کر سکے۔ ہمیں؛ ریاست کی ہیئتِ ترکیبی کیا ہو گی، اس پر ہم نے ایک اجتہادی کام کیا تھا، اجتماعی۔
- حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی،
- حقِ حکومت عوام کے منتخب نمائندوں کو،
- اور حکومت اور پارلیمنٹ قرآن و سنت کی پابند۔
یہ تین اصول قائم کر کے ہم نے اسلامی ریاست کا دائرہ متعین کیا تھا اور اجماعی طور پر کیا تھا تمام مکاتبِ فکر نے، جس کا سب سے بڑا مظہر ’’قراردادِ مقاصد‘‘ ہے۔ تین اساسیں: حاکمیتِ اعلیٰ اللہ کی ہے، حقِ حکمرانی عوام کے منتخب نمائندوں کو ہے، اور پارلیمنٹ اور حکومت دونوں قرآن و سنت کی پابند ہیں۔ یہ ہم نے تین اصول قائم کیے تھے۔ یہ اجتہاد تھا۔ اجتماعی اجتہاد تھا۔ ایک نیا مسئلہ پیش آیا تھا کہ اسلام کی ریاست کی تشکیل کیسی ہو گی اور اس کا ڈھانچہ کیسا ہو گا؟ تو ایک تو ہم نے یہ کیا تھا۔ علماء نے کیا ہے۔ بائیس نکات سامنے موجود ہے۔ قراردادِ مقاصد سامنے موجود ہے۔
ایک کام ہم نے اور کیا تھا اجتماعی طور پر کہ پاکستان بننے کے بعد مسئلہ پیش آگیا تھا کہ جو ختمِ نبوت کے منکر ہیں قادیانی، ان کے ساتھ کیا معاملہ کرنا ہے؟ اس پر بھی ہم نے اقبال کی تجویز کو منظور کر کے غیر مسلم اقلیت کے طور پر قبول کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ بھی اجتہادی فیصلہ تھا اور اجماعی تھا۔ پرائیویٹ تھا، اجماعی تھا، اجتہادی تھا۔
ان دو فیصلوں پہ تو ہم آج تک قائم ہیں پورے اہلِ دین۔ اس کے بعد ہم کوئی تیسرا فیصلہ پرائیویٹ سطح پر اُس پیمانے پر اُس معیار پر اُس دائرے میں نہیں کر سکے۔ ہمیں بہت سے مسائل پہ بات کرنے کی ضرورت ہے، لیکن ہم گروہی سیاست میں بٹ گئے، طبقاتی سیاست میں بٹ گئے۔ میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ ہم نے دو فیصلے جو کیے ہیں اور پرائیویٹ کیے ہیں اور علماء نے آپس میں بیٹھ کر کیے ہیں، سرکاری مداخلت کے بغیر کیے ہیں: (۱) قراردادِ مقاصد اور بائیس نکات (۲) اور قادیانیوں کو بطور غیر مسلم اقلیت کے قبول کرنے کا فیصلہ، دونوں آج تک چلے آ رہے ہیں۔
اس کے بعد ہمیں ایک بڑا چیلنج تھا جس چیلنج میں یہ سارے مسائل سمٹے ہوئے ہیں کہ یو این کے ہیومن رائٹس چارٹر پر ہم کوئی اجتماعی رائے آج تک قائم نہیں کر سکے۔ یو این کا ہیومن رائٹس چارٹر دنیا پہ حکمرانی کر رہا ہے، ہم پر بھی کر رہا ہے۔ دنیا پر بھی حکمرانی کر رہا ہے، ہم پر بھی کر رہا ہے۔ ہمارے تحفظات بھی ہیں، اشکالات بھی ہیں، اختلافات بھی ہیں، لیکن بائیس نکات کی طرز پر اور ختمِ نبوت کے فیصلے کی طرز پر یہاں ہم پرائیویٹ سطح پر کوئی موقف ابھی تک طے نہیں کر پائے۔ میں سمجھتا ہوں اس سے زیادہ جمود کی اور کوئی کیفیت نہیں ہو سکتی۔ عالمی سطح پر اس پہ آواز اٹھائی تھی مہاتیر محمد نے، جب وہ او آئی سی کے صدر تھے۔ اور اب تھوڑی تھوڑی بات یہ ترکی والے کر رہے ہیں، طیب اردگان آہستہ آہستہ کر رہے ہیں، ڈھیلی ڈھیلی لیکن کر رہے ہیں۔
یہ میں سمجھتا ہوں کہ اس کی علمی فکری کاوشوں میں سے ایک کاوش کہ کرنا کیسے ہے؟ یہ بنیاد تو ہماری طے ہے کہ ہم عرف اور تعامل کے ساتھ چلیں گے۔ اور یہ بھی طے ہے کہ عرف اور تعامل بدلتا رہے گا، زمانے کے اعتبار سے بھی، مکان کے اعتبار سے بھی۔ امریکہ کا عرف اور ہے اور ہمارا عرف اور ہے۔ افریقہ کا عرف اور ہے اور ایشیا کا عرف اور ہے۔ ہم ایک دوسرے کے عرف کا فرق بھی رکھیں گے۔ جیسے ہمارے ظاہرِ روایت میں، ماوراء النہر کے علماء کے فتاویٰ میں، فتاویٰ ہندیہ میں، اور ہمارے آج کے فتاویٰ میں واضح فرق موجود ہے۔ یہ تنوع کہہ لیں، ورائٹی کہہ لیں، ارتقا کہہ لیں، کچھ بھی کہہ لیں، یہ موجود ہے۔ اس کا نیٹ ورک کیا ہو گا، اس پہ ہم طے نہیں کر پا رہے۔ میں سمجھتا ہوں؛
یہ میں نے اپنا ایک دکھ عرض کیا ہے۔ اِس کتاب کو اُس کا ایک حصہ سمجھتا ہوں کہ مولانا محمد تقی امینی نے یہ بتایا ہے ہمیں کہ وقت کے تقاضوں کو؛ اب یہ ہے کہ ایک وقت کا تقاضا ہے، معاشرتی تقاضا ہے۔ یا آپ اس کی نفی کریں گے، یا من و عن قبول کریں گے، یا ایڈجسٹ کریں گے۔ کون سی بات قبول کرنی ہے، کس حد تک قبول کرنی ہے۔ اس کتاب کا بنیادی موضوع یہ ہے کہ زمانہ، عرف، تعامل، اس میں تغیرات جو ہیں، ان کو قبول کرنا ہے، نہیں کرنا، کس حد تک کرنا ہے، اور کس حد تک سے آگے نفی کرنی ہے، کیا کرنا ہے۔ کتاب کا موضوع یہ ہے بنیادی اصولی طور پر۔
آج بھی ہماری سب سے بڑی نفاذِ اسلام کی ضرورت بھی یہی ہے کہ ہم ان مسائل کو خود فیس کریں۔ ہم نے یہ کیا کہ سارے کام حکومت پہ چھوڑ دیے ہیں۔ ہم مطالبے کرتے ہیں، یہ کرو بھئی، یہ کرو بھئی۔ ہم کیوں نہیں کرتے؟ ہم نے دو بنیادی کام کیے ہیں۔ تو میں بہرحال لمبی بات نہیں کرتا۔ میں اس کتاب کو بنیادی طور پر اسلامی شریعت اور احکام کی موجودہ زمانے میں تطبیق اور عملداری کے راستے میں جو ہمیں ضروریات ہیں، تقاضے ہیں، ان تقاضوں پر ایک مفید کتاب سمجھتا ہوں۔ میں نے بھی اس سے استفادہ کیا ہے، اور دوستوں کو بھی مشورہ دیا کرتا ہوں، مجھ سے کوئی پوچھتا ہے نا کیا پڑھیں بھئی؟ وہ پڑھ لو۔ اور مغرب کو سمجھنے کے لیے ’’لامذہبی دور کا تاریخی پس منظر‘‘ پڑھ لو، تمہیں سمجھ آجائے گا کہ ہمارا ان کا اختلاف کیا ہے، جھگڑا کیا ہے۔ تو میں انہی مختصر باتوں پر اپنی حاضری لگوا کر اجازت چاہتا ہوں۔

