جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالٰی کے اخری رسول کی حیثیت سے انسانی معاشرہ کو جن تبدیلیوں اور اصلاحات سے نوازا ان کا دائرہ زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہے اور ان سماجی تغیرات و اصلاحات کی سطح صرف دعوت و تلقین کی نہیں تھی بلکہ ان کے مطابق معاشرہ کی ازسرنو تشکیل بھی جناب نبی اکرمؐ نے خود فرما دی۔ چنانچہ جب اللہ تعالٰی کے آخری رسول یہ مشن مکمل کر کے ’’فزت و رب الکعبۃ‘‘ فرماتے ہوئے اپنے رب کے حضور پیش ہوئے تو آپؐ کی تعلیمات صرف اقوال و ارشادات پر مبنی نہیں تھیں بلکہ ان ہدایات و فرمودات کے مطابق ایک نوتشکیل شدہ مکمل سماجی ڈھانچہ دنیا کے سامنے موجود تھا جسے آپؐ کی تربیت یافتہ جماعت حضرات صحابہ کرامؓ نے ایک صدی کے عرصہ میں دنیا کے تین بر اعظموں تک پھیلا دیا۔ اور وہ ’’ریاست مدینہ‘‘ جو نبی کریمؐ کے جانشین حضرت ابوبکر صدیقؓ نے سنبھالی تھی اس کا دائرہ اگلی صدی کے آغاز تک ایشیا اور افریقہ کے بہت سے علاقوں کا احاطہ کرتے ہوئے یورپ کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔ اور ’’خلافت‘‘ کے عنوان سے دنیا ایک نئے عالمی نظام سے متعارف ہو چکی تھی جس کا تسلسل مختلف اتار چڑھاؤ کے کئی مراحل کے باوجود اب سے ایک صدی قبل تک دنیا کے نقشے پر موجود رہا۔
اس نظام کی بنیاد قرآن کریم کے ارشادات اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث و سنن پر چلی آرہی ہے جسے عملی شکل میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایک آئیڈیل سیاسی، معاشرتی، معاشی اور سماجی ڈھانچہ کے رنگ میں پیش کیا اور فقہاء عظام رحمہم اللہ تعالٰی ہر دور کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی علمی و فقہی توجیہات اور عملی تطبیقات کی صورتیں واضح کرتے رہے۔ جیسا کہ عباسی خلیفہ ہارون الرشیدؒ کے کہنے پر قاضی القضاۃ حضرت امام ابو یوسفؒ نے ’’کتاب الخراج‘‘ کے عنوان سے اسلام کے معاشی احکام و قوانین کو مرتب و مدون کر کے قانون و دستور کے طور پر ان کے حوالہ کیا جو ایک عرصہ تک قانون کے طور پر نافذ العمل رہا۔ جبکہ خلافت عثمانیہ کے زمانے میں ’’مجلۃ الاحکام العدلیۃ‘‘ اور مغل دور حکومت میں ’’الفتاوٰی الہندیۃ‘‘ کے نام سے انتہائی قابل قدر قانونی مجموعے مرتب و مدون ہو کر بطور دستور و قانون نافذ ہوئے اور وہ آج بھی ہمارے علمی و فقہی ذخیرہ کا قابل قدر حصہ ہیں۔
مگر گزشتہ دو تین صدیوں کے دوران جب عالم اسلام کے بہت سے ممالک استعماری قوتوں کی غلامی کا شکار ہوگئے حتٰی کہ ’’خلافت عثمانیہ‘‘ بھی اب سے ایک صدی قبل ختم ہوگئی تو اسلامی قوانین و احکام کی عصری تقاضوں کے مطابق توجیہ و تعبیر اور تطبیق و تنفیذ میں ریاستی کردار باقی نہ رہا۔ البتہ نجی طور پر اس حوالہ سے جس علمی و فقہی جدوجہد کا آغاز امام اعظم حضرت ابوحنیفہؒ نے آزادانہ اجتہادات و تعبیرات اور مشاورتی اجتہاد کی صورت میں کیا تھا وہ بحمد اللہ تعالٰی اب تک جاری ہے۔ چنانچہ عالم اسلام میں بیسیوں علمی و فقہی حلقے اور شخصیات اس دور میں اس کارخیر میں مصروف عمل رہے ہیں اور آج بھی اس کا تسلسل قائم ہے۔
نوآبادیاتی دور کے ظاہری خاتمہ کے بعد مختلف اسلامی ممالک میں نفاذ شریعت کے عنوان سے اسلام کے سیاسی، معاشرتی، عدالتی اور معاشی احکام و قوانین کی معاشرہ میں دوبارہ عملداری کے لیے بیسیوں تحریکات کا آغاز ہوا جو مدروجزر کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے، مگر عصر حاضر کے سماجی تغیرات اور معاشرتی تبدیلیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی احکام و قوانین کی تطبیق و تنفیذ کی عملی صورتوں کو ازسرنو واضح کرنے اور اس دوران مختلف علمی و فقہی حلقوں میں کی جانے والی علمی، فکری اور فقہی محنت کے نتائج کو اجتماعی شکل دینے کا کام ابھی تشنہ ہے، حالانکہ اس کی ضرورت مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔
اس تناظر میں ہمارے فاضل دوست مولانا عبد الباقی حقانی کی ایک علمی کاوش ’’اسلام کا نظام سیاست و حکومت‘‘ کے عنوان سے چند سال قبل اردو اور عربی زبانوں میں سترہ سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل دو ضخیم جلدوں میں سامنے آئی، جسے ’’موتمر المصنفین دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک‘‘ نے شائع کیا ہے،تو نفاذ شریعت کی جدوجہد کے کارکن اور تاریخ و سماجیات کے ایک طالب علم کے طور پر مجھے اس سے بے حد خوشی ہوئی اور ایک مضمون میں اس کا اظہار بھی کیا۔ اب اسی کتاب پر نظرثانی کر کے بہت سے اضافوں کے ساتھ مولانا موصوف نے اسے ازسرنو مرتب کیا ہے اور اسے ایک ہزار کے لگ بھگ صفحات کی دو جلدوں میں شائع کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں ایک ملاقات کے دوران مولانا عبد الباقی حقانی نے اس کتاب کا نئے سرے سے مرتب شدہ مسودہ دکھایا تو میری خوشی دوچند ہوگئی۔ مولانا موصوف کا تعلق چونکہ افغانستان سے ہے اس لیے میں اس خوشی کی معنویت کو الفاظ میں بیان نہیں کر پا رہا کہ انہوں نے آنے والے دور بالخصوص افغانستان میں ’’امارت اسلامیہ افغانستان‘‘ کی مسلسل پیشرفت کو سامنے رکھتے ہوئے مستقبل کی ناگزیر ضروریات کے لیے کس قدر وقیع، جامع اور متنوع علمی و فقہی ذخیرہ پیش کر دیا ہے۔ اللہ تعالٰی ان کی اس محنت کو قبولیت و ثمرات اور رضا سے بہرہ ور فرمائیں، اور نہ صرف افغانستان بلکہ پورے عالم اسلام کو اس سے استفادہ کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
البتہ اس بات کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے کہ قدیم و جدید فقہی و قانونی ذخیرہ اور عصری نظاموں پر گہری نظر رکھنے والے کچھ اصحاب علم و دانش آگے بڑھیں اور اس سلسلہ میں گزشتہ نصف صدی کے دوران مختلف علمی و فقہی دائروں میں جو وقیع کام ہوا ہے اس پر نظر ڈال کر حضرت امام ابو یوسفؒ اور سلطان اورنگزیب عالمگیرؒ کی سنت کا احیا کرتے ہوئے آنے والے حالات و ادوار کے لیے اسے ایک مرتب دستوری اور قانونی ڈھانچے کی شکل دے دیں تاکہ اسے کسی بھی جگہ موقع میسر آنے پر عملی نظام کے طور پر بروئے کار لایا جا سکے۔ اللہ تعالٰی اس کی کوئی صورت پیدا فرما دیں، آمین یا رب العالمین۔