(عالمی مجلس مفتیان کرام لاہور کے زیر اہتمام جامعہ دارالعلوم کالا شاہ کاکو میں انگلش لینگویج کورس کے ایک مرحلے کے اختتام کے موقع پر خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں سب سے پہلے تو اِس کورس کے اِس مرحلے کے اختتام پر مفتی خالد محمود صاحب کو، مفتی شمس الدین صاحب کو، اور تمام اساتذہ اور تمام طلبہ کو مبارکباد دینا چاہوں گا۔ میں یہاں اپنا ادارہ سمجھ کے آتا ہوں، میرا ادارہ ہے، آتا رہتا ہوں اور آتا رہوں گا ان شاء اللہ۔ آج بہت باتیں کرنے کو جی چاہ رہا تھا لیکن میں سمیٹ رہا ہوں، وقت نہیں ہے، پھر کبھی سہی ان شاء اللہ، لیکن ایک دو باتیں صرف۔
انگریزی کی بات ہو رہی ہے۔ میں تو لطیفہ گو آدمی ہوں، لطیفے سنایا کرتا ہوں۔ میں انگریزی نہیں جانتا، بالکل نہیں جانتا۔ آپ اے بی سی کہیں، وہ بھی نہیں سنا سکتا آپ کو۔ مجھے اس کا احساس کہاں ہوا؟ میں گفتگو میں انگریزی کے الفاظ استعمال کرتا ہوں اور ٹھیک جگہ پہ استعمال کرتا ہوں۔ ایک نوجوان نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے انگریزی میں پی ایچ ڈی کہاں کی ہے؟ میں نے کہا، یار میں چوتھی جماعت سے بھاگا تھا پھر پڑھنے نہیں گیا سکول۔ میں پرائمری بھی نہیں ہوں۔ اس لیے یہ بات کہ انگریزی؛ انگریزی کے لطیفے بڑے آتے ہیں مجھے، لیکن انگریزی نہیں آتی۔
مجھے احساس کہاں ہوا؟ آوارہ گرد آدمی ہوں، دنیا گھومتا رہتا ہوں۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ مجھے ’’دابۃ الارض‘‘ کہا کرتے تھے۔ امریکہ بھی دیکھا ہے، یورپ بھی دیکھا ہے، افریقہ بھی دیکھا ہے، ہانگ کانگ بھی دیکھا ہے، ساؤتھ ایشیا بھی دیکھا ہے، سب بہت کچھ دیکھا ہے۔ لیکن یہ مجھے احساس کب ہوا کہ مجھے انگریزی آنی چاہیے تھی۔ سن ۸۷ء کی بات ہے۔ آپ کون کون تھے، ۸۷ء میں کون کون تھے؟ ۸۷ء کی بات ہے، میں نیویارک گیا۔ اس زمانے میں قادیانیوں کا مسئلہ؛ میرے دو ہی موضوع ہیں: قادیانیوں کا اور ہمارا جھگڑا کیا ہے، اور ہیومن رائٹس کا ہمارا تنازعہ کیا ہے، یہی؛ میں نے امریکہ کی پوری تاریخ میں قادیانیت پر دس دن کا کورس میں نے سب سے پہلے کروایا، نیویارک میں، بروکلین کی مکی مسجد میں۔ شرکاء پاکستانی، انڈین، بنگلہ دیشی تھے۔ پھر یہ مشہور ہو گیا کہ یہ قادیانی کے مسئلے پہ بڑا کوئی ماہر مولوی ہے، آیا ہوا ہے، تو مجھ سے بہت سے لوگوں نے ملاقاتیں کیں۔
ایک یہودی جرنلسٹ نے مجھ سے باقاعدہ انٹرویو کیا۔ وہ چھپا ہے۔ میں نے جس انداز سے بات کی، میرا اپنا گپ شپ کا انداز ہے، میں تقریر نہیں کیا کرتا، میں کمنٹری کیا کرتا ہوں۔ میں مقرر نہیں ہوں، کمنٹیٹر ہوں، رننگ کمنٹری کیا کرتا ہوں۔ اس سے میری گفتگو ہوئی، تو گفتگو کے دوران یہی: ہیومن رائٹس کیا ہے؟ مغرب کا فلسفہ کیا ہے؟ ہمارا موقف کیا ہے؟ تضاد کیا ہے؟ اس پہ میں نے ذرا تفصیل سے بات کی۔ قادیانیوں کا مسئلہ کیا ہے؟ تو اس یہودی نے مجھے احساس دلایا کہ آپ یہ باتیں جو مجھ سے کر رہے ہیں ترجمان کے ذریعے، ترجمان تھا درمیان میں، اگر آپ یہ باتیں انگریزی میں کر سکیں تو آپ آدھا کام اپنا یہاں کر کے جائیں۔ سب سے پہلے مجھے اس بات کا احساس یہودی نے دلایا، کہ جو باتیں آپ مجھ سے ترجمان کے ذریعے کر رہے ہیں، اگر ہم اپنی زبان میں کر سکیں تو آپ یہاں کے ماحول پہ صحیح بات کر سکیں گے اور لوگوں کو سمجھا سکیں گے۔ یہ تو مجھے احساس ہوا۔
ایک بات اور ہوئی۔ برطانیہ میں، شیفیلڈ میں کانفرنس تھی ہیومن رائٹس پہ۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم مہمان خصوصی تھے۔ تو میں بھی تھا وہاں، مجھے بھی انہوں نے کوئی بات کرنے کا موقع دیا تو بیس منٹ میں نے بھی بات کی۔ حضرت شیخ الاسلام دامت برکاتہم نے بعد میں کھانے کی میز پہ بلایا، مولوی زاہد الراشدی صاحب! یہ باتیں اگر آپ انگریزی میں کر سکتے نا، تو اس کا دس گنا زیادہ اثر ہوتا۔
میں نے کہا یار، اب میں تو پڑھ نہیں سکتا، بوڑھا طوطا کیا پڑھے گا۔ تو میں نے دوستوں سے کہا یار اتنی انگریزی ضرور پڑھو کہ بین الاقوامی ماحول میں ربط قائم رکھ سکو۔ یہ سنتِ رسولؐ بھی ہے۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تھے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تو پہلے جو کام کیے تھے نا چار پانچ، ان میں ایک یہ تھا، زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ یہودیوں کے ساتھ ہمارا واسطہ ہے، ان کی زبان ہیبرو ہے، عبرانی، تم عبرانی سیکھو۔ زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر زبان سیکھی۔ آپ نے کورس کتنا کیا ہے، کتنے دن کا تھا یہ؟ — (استاذ جی، یہ پہلا لیول ہے تین ماہ کا) — تین ماہ کا، انہوں نے سترہ دن میں سیکھی۔ زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ہیبرو سیکھی، عبرانی سیکھی، سترہ دن میں سیکھی، اور اس لیول پر، فرماتے ہیں میں لکھ بھی لیتا تھا، بول بھی لیتا تھا، ترجمہ بھی کر لیتا تھا۔ اور پھر یہود اور حضورؐ کے درمیان مذہبی معاملات میں یہی ترجمان رہے ہیں۔ یہ سنتِ رسولؐ بھی ہے کہ دوسری قوموں سے رابطے کے لیے دوسری قوموں کی زبانیں سیکھنی چاہئیں۔
تو یہ مجھے احساس گھومنے پھرنے سے کہ یار، اے کاش میں نے انگریزی پڑھی ہوتی، تو میں اب جو کام تھوڑا بہت کرتا ہوں، اس کی افادیت میں، اس کے اثرات میں اضافہ ہو سکتا تھا۔ لیکن اپنی میری انگریزی کیا ہے، بس ایک لطیفہ سنا کر بات ختم کرتا ہوں۔ بڑے لطیفے ہیں میرے انگریزی کے۔ لندن جاتے ہوئے استنبول رکا میں، ٹرانزٹ ویزے پر، اگلے دن کی سیٹ تھی۔ اب استنبول ایئرپورٹ پہ ایک کاؤنٹر پہ گیا۔ ٹرکش ایئرلائن کی سیٹ تھی۔ مجھے کل کی سیٹ کینسل کروا کے پرسوں کی کروانی تھی۔ اب کل کا مجھے پتہ ہے ٹومارو کہتے ہیں، پرسوں کو کیا کہتے ہیں، مجھے نہیں پتہ۔ آگے لڑکی کھڑی تھی۔ اب میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں نے صرف یہ کہ کل کی کینسل کر دیں، پرسوں کی دے دیں مجھے سیٹ۔ اب کل تو مجھے پتہ ہے، ٹومارو۔ پرسوں کا کیا ہے، یہ مجھے نہیں پتہ۔ اب میں کھڑا ہوں۔ میں نے کہا، پلیز۔ پاسپورٹ سامنے کیا۔ پلیز، ٹومارو کینسل، ٹوٹومارو اوکے۔ اب وہ میرے منہ کی طرف دیکھتی ہے۔ اور تھی بھی لڑکی، میں زیادہ اشارے کر بھی نہیں سکتا تھا۔ اب وہ بات نہیں سمجھ پا رہی۔ میں نے پھر کہا: پلیز، ٹومارو کینسل، ٹوٹومارو اوکے۔ اب نہیں بات بن رہی۔ میں نے؛ [انگلیوں پر گنوایا] میں نے کہا: ٹوڈے، ٹومارو، ٹوٹومارو۔ [کہنے لگی] انڈرسٹینڈ، انڈرسٹینڈ۔ تو بس ایک لطیفہ میں نے سنایا ہے۔
یہ دوسری قوموں کے ساتھ رابطے کے لیے ان کی زبانوں کو سیکھنا، یہ سنتِ رسولؐ بھی ہے، ہماری ضرورت بھی ہے، اور تقاضا بھی ہے، کہ ہم دوسری قوموں سے ان کی زبان میں بات کریں گے تو بات کا لطف اور ہو گا۔ اور ترجمان کے ذریعے بات کریں گے تو بات کا مزا اور ہوتا ہے۔
تو بہرحال یہ اچھی بات ہے، میں آپ کو اِس کورس پہ مبارکباد دیتا ہوں۔ ایک تجویز اور رکھ دوں ساتھ؟ علماء کرام کے لیے ایک اور کورس بھی ضروری ہے، انگریزی کا بھی ضروری تھا، ایک کورس ٹائم مینیجمنٹ کا بھی ضروری ہے کہ کتنے وقت میں کتنا کام کرنا چاہیے، یہ بھی ایک کورس کریں، ان شاء اللہ اس میں میں بھی حصہ ڈالوں گا۔

