کرسمس اور آسمانی تعلیمات

   
۲۵ دسمبر ۲۰۰۰ء

۲۵ دسمبر کا دن پوری دنیا میں کرسمس کے نام سے منایا جاتا ہے جو ’’بڑا دن‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ اگرچہ سال کے ایام میں وقت کے لحاظ سے یہ سب سے چھوٹے ایام میں سے ہے مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کی نسبت سے اسے بڑا دن کہا جاتا ہے اور دنیا بھر میں عید کے طور پر منایا جاتا ہے۔

ممتاز مسیحی محقق اور ’’قاموس الکتاب‘‘ کے مصنف جناب ایف ایس خیر اللہ کی تحقیق کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا دن صحیح طور پر کسی کے علم میں نہیں ہے اور ۲۵ دسمبر کو ’’عید مسیح‘‘ کے طور پر منانے کا آغاز بھی ۳۲۵ء میں شاہ قسطنطین کے دور میں ہوا تھا جبکہ اس سے قبل اسکندریہ کے کلیمنٹ کی طرف سے ۲۰ مئی کو ولادت مسیح کا دن قرار دینے کی تجویز سامنے آچکی تھی۔ مگر شاہ قسطنطین نے ۲۵ دسمبر کو پہلے سے منائے جانے والے ایک غیر مسیحی تہوار ’’جشن الزحل‘‘ کا نام تبدیل کر کے اسے ولادت مسیح کی عید قرار دے دیا، اس وقت سے یہ دن جوش و خروش سے منایا جا رہا ہے۔ قاموس الکتاب کے مطابق ۲۵ دسمبر کو ’’عید ولادت مسیح‘‘ کا مقام صرف رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کے ہاں حاصل ہے۔ جبکہ مشرقی آرتھوڈکس فرقہ یہ عید ۶ جنوری کو اور آرمینیائی کلیسا ۱۹ جنوری کو مناتا ہے۔ مگر اس بحث سے قطع نظر چونکہ دنیا بھر میں مسیحی آبادی کی بہت بڑی اکثریت ۲۵ دسمبر کو کرسمس مناتی ہے اس لیے مسیحی دنیا کی سب سے بڑی علامتی عید اور جشن یہی ہے۔

ہم اس موقع پر دنیا بھر کے مسیحی دوستوں کو بالعموم اور پاکستانی مسیحیوں کو بڑے دن کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے اس مناسبت سے ان آسمانی تعلیمات کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں جو نسل انسانی کی راہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور دیگر حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعہ ہمیں عطا فرمائی ہیں۔ وہ آسمانی تعلیمات جنہیں پس پشت ڈال کر آج ہم دنیا بھر کے انسان افراتفری، خلفشار اور بے سکونی کا شکار ہوگئے ہیں اور جن آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی ہی انسانی معاشرہ کے لیے نجات و فلاح اور امن و خوشحالی کی طرف واحد راستہ باقی رہ گیا ہے۔

ہم اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ بنیادی تعلیمات و احکام کے حوالہ سے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی ہدایات و ارشادات میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے اور اہم معاملات میں سب نبیوں کی تعلیمات یکساں ہیں۔ اس لیے چند امور کا بائبل کے حوالہ سے تذکرہ کیا جا رہا ہے جس کے لیے ہمارے سامنے ’’کتاب مقدس‘‘ کا وہ اردو ترجمہ ہے جو برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انارکلی لاہور نے ۱۹۵۶ء میں شائع کیا تھا۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ ہمارے مسیحی دوست اور خاص طور پر ان کے مذہبی رہنما انسانی معاشرہ میں ان آسمانی تعلیمات کی عملداری قائم کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے عید ولادت مسیح کے موقع پر اس مقصد کے لیے نئے عزم اور ارادے کی طرف ضرور پیش رفت کریں گے۔

کتاب مقدس کے عہد نامہ قدیم کی کتاب ’’خروج‘‘ کے باب ۲۰ میں ان دس بنیادی احکام کی تفصیل درج ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرعون کی غلامی سے بنی اسرائیل کو نکالنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ انہیں عطا فرمائے تھے۔ یہ احکام عشرہ درج ذیل ہیں۔

  1. خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔
  2. بت تراش کر ان کی عبادت نہ کرنا۔
  3. خدا کا نام بے مقصد نہ لینا۔
  4. ہفتہ کے دن کو عبادت کا دن رکھنا اور چھٹی کرنا۔
  5. ماں باپ کی عزت کرنا۔
  6. خون نہ کرنا۔
  7. زنا نہ کرنا۔
  8. چوری نہ کرنا۔
  9. جھوٹی گواہی نہ دینا۔
  10. پڑوسیوں کو نقصان نہ پہنچانا۔

اسی کتاب ’’خروج‘‘ کے باب ۲۱ میں معاشرتی جرائم کی سزائیں بیان کی گئی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔

  1. جو کسی کو قتل کرے اسے قتل کر دیا جائے۔
  2. جو کسی آدمی کو اغوا کر کے بیچ ڈالے اسے مار ڈالا جائے۔
  3. جو کسی کو زخمی کرے وہ اس کا علاج کرائے اور ہرجانہ ادا کرے۔
  4. اگر جانی نقصان ہو جائے تو جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے دانت، ہاتھ کے بدلے ہاتھ، پاؤں کے بدلے پاؤں، جلانے کے بدلے جلانا، زخم کے بدلے زخم، اور چوٹ کے بدلے چوٹ کے قانون پر عمل کیا جائے۔

کتاب ’’احبار‘‘ باب ۲۰ آیت ۷ میں اللہ تعالیٰ تلقین فرماتے ہیں کہ:

’’میں خداوند تمہارا خدا ہوں، تم میرے آئین کو ماننا اور اس پر عمل کرنا۔‘‘

اور اس ہدایت کے ساتھ اگلی آیات میں احکام کی جو تفصیل ہے ان میں سے چند ارشادات یہ ہیں۔

  1. جو اپنے ماں باپ پر لعنت کرے اسے جان سے مار دیا جائے۔
  2. جو شخص ہمسایہ کی بیوی سے زنا کرے تو زانی مرد اور زانیہ عورت دونوں کو جان سے مار دیا جائے۔
  3. جو شخص اپنی سوتیلی ماں یا بہو سے صحبت کرے تو دونوں جان سے مار دیے جائیں۔
  4. ہم جنس پرستی کا ارتکاب کرنے والے دونوں مرد جان سے مار دیے جائیں۔
  5. جو مرد جانور سے صحبت کرے یا عورت کسی جانور سے اس فعل بد کی مرتکب ہو دونوں مار دیے جائیں۔
  6. جو شخص اپنی بہن کو بے پردہ دیکھے اسے لوگوں کے سامنے قتل کر دیا جائے۔
  7. جادوگر مرد ہو یا عورت انہیں سنگسار کر دیا جائے۔
  8. اگر کاہن کی بیٹی فاحشہ بن جائے تو اسے آگ میں جلا دیا جائے۔

جبکہ ان ہدایات کے ساتھ ساتھ کتاب ’’احبار‘‘ باب ۲۰ آیت ۲۲ میں ایک بار پھر یہ تلقین کی گئی ہے کہ

’’سو تم میرے سب آئین اور احکام ماننا اور ان پر عمل کرنا تاکہ وہ ملک جس میں میں تمہیں بسانے کو لیے جاتا ہوں تم کو اگل نہ دے۔‘‘

کتاب ’’خروج‘‘ باب ۲۵ آیت ۲۲ اور ’’احبار‘‘ باب ۲۵ آیت ۳۵ میں سود کے لین دین کی ممانعت کی گئی ہے۔ جبکہ ’’استثناء‘‘ باب ۲۳ آیت ۱۹ میں سود کے بارے میں کہا گیا ہے کہ

’’تو اپنے بھائی کو سود پر قرض نہ دینا خواہ وہ روپے کا سود ہو یا اناج کا سود یا کسی ایسی چیز کا سود ہو جو بیاج پر دی جاتی ہے۔‘‘

’’عہد نامہ قدیم‘‘ کی ان ہدایات کے بارے میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ ’’موسوی شریعت‘‘ کے احکام ہیں جبکہ یسوع مسیح علیہ السلام کی آمد کے بعد شریعت کی اہمیت ختم ہوگئی ہے۔ مگر ’’عہد نامہ جدید‘‘ میں مسیحیت کے شارح پولس رسول نے وضاحت کر دی ہے کہ مسیح کے آنے سے شریعت ختم نہیں ہوئی بلکہ ان رسومات کا خاتمہ کیا گیا ہے جو شریعت کے نام پر یہودیوں نے مذہب میں از خود شامل کر لی تھیں۔ چنانچہ پولس رسول رومیوں کے نام اپنے خط میں کہتے ہیں کہ

’’جنہوں نے شریعت کے ماتحت ہو کر گناہ کیا ان کی سزا شریعت کے موافق ہوگی۔ کیونکہ شریعت سننے والے خدا کے نزدیک راستباز نہیں ہوتے بلکہ شریعت پر عمل کرنے والے راستباز ٹھہرائے جائیں گے۔‘‘

اسی طرح کرنتھیوں کے نام اپنے پہلے خط میں احکام شریعت کی پاسداری کی اہلیت بیان کرتے ہوئے پولس رسول کہتے ہیں کہ

’’کیا تم نہیں جانتے کہ بدکار خدا کی بادشاہی کے وارث نہ ہوں گے؟ فریب نہ کھاؤ نہ حرامکار خدا کی بادشاہی کے وارث ہوں گے، نہ بت پرست، نہ زنا کار، نہ عیاش، نہ لونڈے باز، نہ چور، نہ لالچی، نہ شرابی، نہ گالیاں بکنے والے، نہ ظالم۔‘‘

لہٰذا ’’بڑے دن‘‘ کی مبارک باد کے ساتھ ہم دنیا بھر کے مسیحیوں سے گزارش کر رہے ہیں کہ دنیا پر ایک بار پھر خدا کی بادشاہی قائم کرنے اور انسانی معاشرہ کو بت پرستوں، بدکاروں، لونڈے بازوں، چوروں، شرابیوں، اور ظالموں کی حکمرانی سے نجات دلانے کی ضرورت ہے۔ لیکن کیا ہمارے مسیحی دوست اور ان کے مذہبی راہنما بائبل کی اس پکار کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوں گے؟

   
2016ء سے
Flag Counter