۱- سیکولر حلقوں کا موقف
ایک طبقہ ان لوگوں کا ہے جو سرے سے توہین رسالت کو جرم ہی نہیں سمجھتے اور اس پر کسی سزا کو آزادیٔ رائے، آزادیٔ ضمیر اور آزادیٔ مذہب کے منافی تصور کرتے ہوئے اسے انسانی حقوق کے مغربی معیار کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں، بلکہ اس پر ظالمانہ قانون اور کالا قانون ہونے کی پھبتی بھی کستے رہتے ہیں۔ اس طرزِ فکر کے نمائندہ دانشور اس کے ساتھ ساتھ سیکولر جمہوریت کو عدل و انصاف کا واحد معیار تصور کرتے ہوئے سوسائٹی کے اجتماعی معاملات اور ریاست و حکومت کی پالیسیوں میں مذہب کا کوئی حوالہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اور حکومتی و ریاستی امور میں دینی تعلیمات کا ہر حوالہ ختم کر دینے کی مہم چلائے ہوئے ہیں۔
گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے تناظر میں اس نقطۂ نظر کے علمبرداروں سے یہ گزارش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تک سیکولر نقطۂ نظر کی ترجمانی کا تعلق ہے تو سیکولر ذہن اور سیکولر جمہوریت کا پرچار کرنے والے دانشور اور سیاسی راہنما اس ملک میں ہمیشہ رہے ہیں۔ آبادی میں ان کا تناسب کتنا ہی کم کیوں نہ ہو، انہیں اپنی بات کہنے اور اپنے موقف کے لیے مہم چلانے کا حق بھی ہمیشہ حاصل رہا ہے۔ قومی سیاسی منظر اور قومی پریس اس بات کا گواہ ہے کہ یہاں سیکولر جمہوریت کا پرچار اور سوسائٹی کے اجتماعی معاملات میں مذہب کے کردار کی نفی کرنے والے ہر دور میں اپنے موقف کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سوسائٹی نے ان کی اس بات کو کبھی قبول نہیں کیا اور جب بھی سیکولر جمہوریت اور قومی و معاشرتی معاملات میں اسلام کے کردار کی ضرورت پر بات ہوئی ہے، قوم کی غالب اکثریت نے فیصلہ اسلام کے معاشرتی کردار کی حمایت میں ہی کیا ہے۔ لیکن ذوق و سلیقہ اور احترام و آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے سیکولر جمہوریت کی بات کرنے والوں کا راستہ کبھی نہیں روکا گیا اور انہیں ہر فورم پر اپنی بات کہنے کا حق دیا گیا ہے۔
تاہم توہین رسالت کو آزادیٔ رائے اور آزادیٔ اظہار کے دائرے کی چیز شمار کرنا اور اس پر سزا کے قانون کو ’’کالا قانون‘‘ کہنا ایک بالکل مختلف معاملہ ہے۔ اور یہ پہلو سب لوگوں کے سامنے رہنا چاہیے کہ مسلمانوں کا اسلام کے ساتھ تعلق صرف رسمی نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی تمام تر عملی کمزوریوں کے باوجود اسلام کے معاشرتی کردار پر ایمان رکھتے ہیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ ان کی ذاتی عقیدت و محبت ہر دور میں شک و شبہ سے بالاتر رہی ہے۔ اس لیے سیکولر حلقے اپنے موقف کا اظہار ضرور کریں مگر مسلمانوں کے جذبات کو بار بار آزمانے سے بہرحال گریز کریں کہ اس کا نتیجہ ہمیشہ ایک جیسا ہی رہے گا۔
۲- مسیحی برادری کا موقف
دوسرا حلقہ وہ ہے جو کہتا ہے کہ ہمیں نفسِ قانون پر کوئی اعتراض نہیں اور ہم بھی توہینِ رسالت کو حرام سمجھتے ہوئے اس پر موت کی سزا کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن چونکہ اس قانون کا استعمال ان کے بقول زیادہ تر غلط ہو رہا ہے اور اس کا استعمال ذاتی انتقام، خاندانی دشمنیوں اور علاقائی و طبقاتی مخاصمتوں کے لیے کیا جا رہا ہے، اس لیے ہم اس قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔ یہ طبقہ دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک طبقے کا کہنا ہے کہ سرے سے اس قانون کا ہی خاتمہ ہونا چاہیے، جبکہ دوسرے طبقے کا موقف یہ ہے کہ قانون باقی رہے لیکن اس کے ممکنہ غلط استعمال کو روکنے کے لیے اس قانون کے نفاذ کے طریق کار کو بدل دیا جائے۔
اس تناظر میں گزشتہ جنوری کے دوران مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے جامعۃ الخیر لاہور میں مسیحی علماء اور مسلمانوں کے تمام مکاتبِ فکر کے اکابر علماء کرام کے درمیان اس مسئلے پر مکالمہ کا اہتمام کیا جس میں بشپ الیگزینڈر جان ملک اور بشپ منور سمیت نصف درجن کے لگ بھگ مسیحی راہنماؤں نے شرکت کی۔ جبکہ دوسری طرف سے مولانا مفتی محمد خان قادری، مولانا عبد المالک خان، رانا شفیق پسروری، مولانا یاسین ظفر، مولانا رشید احمد لدھیانوی، مولانا قاری روح اللہ، جناب لیاقت بلوچ، مولانا محمد امجد خان، علامہ حسین اکبر نجفی، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری اور راقم الحروف سمیت دیگر علماء شریک ہوئے۔ اس موقع پر اس مسئلے پر تفصیلی بحث ہوئی جس میں دونوں فریق اس بات پر پوری طرح متفق تھے کہ توہین رسالت جرم ہے اور اس کی سنگین سزا پر کسی کو اعتراض نہیں ہے۔ البتہ دونوں فریقوں کے اپنے اپنے تحفظات تھے جن کا ذکر کیا گیا اور باہمی وعدہ ہوا کہ دونوں فریق ان پر سنجیدگی کے ساتھ غور کر کے اگلی کسی ملاقات میں ان تحفظات کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔
مسیحی راہنماؤں نے اس تحفظ کا اظہار کیا کہ ان کے بقول اس قانون کا سب سے زیادہ استعمال مسیحی کمیونٹی کے خلاف ہو رہا ہے اور ان کے خیال میں اسے مسیحی لوگوں کو مختلف حوالوں سے انتقام اور تذلیل کا نشانہ بنانے کے لیے بطور خاص استعمال کیا جاتا ہے۔ پھر جب کسی واقعہ پر عوامی اشتعال کے اظہار کے موقع پر مسیحی آبادی اور بستیاں عمومی سطح پر قتل و غارت اور آتش زنی کا نشانہ بنتی ہیں تو مسلمان علماء مظلوموں کو بچانے کی بجائے خاموش تماشائی بن جاتے ہیں، بلکہ کچھ علماء کرام اس عوامی اشتعال کو بڑھانے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔
ایک مسیحی راہنما نے اس موقع پر کہا کہ ہم توہین رسالت پر موت کی سزا کے خلاف نہیں ہیں، لیکن جب ہم عوامی اشتعال کی زد میں ہوتے ہیں اور اس وقت ہماری دادرسی نہیں ہوتی اور کوئی بھی ہماری بات سننے کو تیار نہیں ہوتا تو پھر ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارۂ کار باقی نہیں رہتا کہ ہم سرے سے اس قانون کو ہی ختم کرنے کا مطالبہ کریں جو اس صورت حال کا ذریعہ بن رہا ہے۔
۳- دینی حلقوں کا موقف
ہماری طرف سے اس تحفظ کا اظہار کیا گیا کہ وہ سیکولر لابی جو پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کے درپے ہے اور ناموس رسالت کے تحفظ کے قانون سمیت ہر اس قانون کو ختم کرانے کے لیے کوشاں ہے جس میں دینی تعلیمات کا کوئی حوالہ موجود ہے، مسیحی مذہبی راہنماؤں کی طرف سے تحفظِ ناموسِ رسالت کے قانون کو ختم کرنے کا مسلسل مطالبہ اس سیکولر لابی کی تقویت کا باعث بن رہا ہے، جبکہ یہ بات خود مسیحی تعلیمات اور بائبل کی تصریحات کے بھی منافی ہے۔
جہاں تک اس قانون کے غلط استعمال کا تعلق ہے تو ملک میں دیگر بہت سے قوانین کا بھی غلط استعمال ہو رہا ہے اور اس بات کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ ہمارے کلچر سے ہے جس کی جڑیں نوآبادیاتی دور میں پیوستہ ہیں کہ اس کلچر کو کرپشن اور بددیانتی کا خوگر بنا دیا گیا ہے۔ اس کا علاج ہمارے قومی راہنماؤں نے مذہبی اقدار کی بحالی اور اسلامی معاشرے کی تشکیل میں تلاش کیا، مگر گزشتہ ساٹھ برس سے معاشرتی معاملات میں مذہب کو کردار ادا کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جا رہا۔ یہ کہنا خلاف حقیقت بات ہے کہ قانون کا استعمال مذہب کے حوالے سے اور مذہبی راہنماؤں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ کیونکہ ۳۰۲ اور ۳۰۷ کی دفعات بھی ذاتی انتقام، خاندانی دشمنیوں اور گروہی رقابتوں کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس میں کون سا مذہب کردار ادا کرتا ہے اور مذہبی راہنماؤں کا کون سا طبقہ اس کی ترغیب دیتا ہے؟ یہ ایک معاشرتی رویہ ہے جس کا مذہب یا مذہبی حلقوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے اگر ’’۲۹۵سی‘‘ کا بھی کسی جگہ غلط استعمال ہو جاتا ہے تو اسے مذہب یا مذہبی راہنماؤں کے کھاتے میں ڈال دینا کہاں کا انصاف ہے؟
پھر اس قانون کا استعمال صرف اقلیتوں کے خلاف نہیں ہوتا بلکہ مسلمان کہلانے والوں کے خلاف بھی ہوتا ہے۔ اور اگر اس قانون کے غلط استعمال کی صورت فی الواقع ہے تو وہ یہ ہے کہ بعض مسلمان محض فرقہ وارانہ اختلافات اور تعصب کے باعث اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف اس قسم کے مقدمات درج کرا دیتے ہیں۔ جیسا کہ حال ہی میں ایک مقدمہ میں ایک فرقہ کے مولوی صاحب کو اس جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے کہ انہوں نے مسجد کی دیوار سے دوسرے فرقے کے ایک پروگرام کا پوسٹر پھاڑ دیا تھا۔ اکا دکا واقعات میں اس قسم کی صورتحال سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن اس کی بنیاد پر یہ کہنا کہ توہین رسالت کے قانون کا بالکل ہی غلط استعمال ہو رہا ہے یا صرف اقلیتوں کے خلاف استعمال ہو رہا ہے، یہ قطعی طور پر غیر واقعی اور غیر منطقی بات ہے۔
بہرحال اس قانون کے غلط استعمال کا الزام درست ہو یا غلط، دونوں صورتوں میں ہم نے اس پر باہمی گفتگو اور مکالمے کی ضرورت سے کبھی انکار نہیں کیا۔ اور مبینہ طور پر غلط استعمال کی روک تھام کے لیے طریق کار میں کسی ایسی تبدیلی کو مسترد نہیں کیا جس سے نفس قانون متاثر نہ ہوتا ہو۔ لیکن سرے سے اس قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ ہمارے نزدیک ان لادین سیکولر حلقوں کے موقف کی حمایت کے مترادف ہے جو سرے سے مذہب کے معاشرتی کردار کو ختم کرنے کے درپے ہیں اور ریاست و حکومت کے تمام معاملات سے مذہب کا حوالہ ختم کر دینے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
یہاں بشپ آف پاکستان ڈاکٹر اعجاز عنایت کے ایک تفصیلی انٹرویو کے چند اقتباسات نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جسے کراچی کے روزنامہ ’’امت‘‘ نے ۱۱ جنوری ۲۰۱۱ء کو شائع کیا ہے۔ بشپ چرچ آف پاکستان ڈاکٹر اعجاز عنایت نے کہا ہے کہ:
- موجودہ صورتحال کی ذمہ دار وفاقی حکومت ہے جس نے معاملے کو یہاں تک پہنچایا ہے۔ اگر حکومت معاملے کو ابتدا میں ہی سمجھداری سے حل کر لیتی تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ سلمان تاثیر سمیت دیگر حکومتی عہدیداروں نے طاقت کے زعم میں ایسی باتیں کیں جو ان کو نہیں کرنی چاہیے تھیں۔ درحقیقت انہوں نے لاپروائی کا مظاہرہ کر کے اقلیتوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیا۔ سلمان تاثیر نے آسیہ کے معاملے میں جو مداخلت کی ہے ہم اس کے طریق کار کو مناسب نہیں سمجھتے، اس لیے کہ اگر قانون میں کوئی سقم تھا تو انہیں عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔
- سلمان تاثیر کی جہاں تک بات ہے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ بے وقوف دوست سے عقل مند دشمن زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ ان کے بیان کی وجہ سے ملک میں لبرل اور انتہا پسند طبقوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے جو غیر ضروری اور غیر اہم ہے۔
- میںِ توہین رسالت کے قانون کو ختم کرنے کے حق میں بالکل بھی نہیں ہوں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسے اکثریت کی حمایت حاصل ہے اور اسے موجود رہنا چاہیے، تاہم جو شخص الزام عائد کرتا ہے، اس کا سب سے پہلے پولوگرافک ٹیسٹ ہونا چاہیے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ وہ جھوٹ کہہ رہا ہے یا سچ۔ اس کے علاوہ الزام عائد کرنے والے کے الزام کا جائزہ لینے کے لیے علمائے کرام کی ایک ہائی پروفائل کمیٹی ہونی چاہیے جو یہ دیکھے کہ الزام کسی دشمنی یا رنجش کی بنا پر تو عائد نہیں کیا جا رہا؟
- مسلمانوں کو چاہیے تھا کہ وہ روزِ اول سے ہی ۲۹۵سی کے غلط استعمال کو روکنے کی کوشش کرتے تاکہ آسیہ مسیح اور سلمان تاثیر کے اس مقام تک پہنچنے کی نوبت نہ آتی۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے اہلِ اسلام کو معلوم ہوگا کہ ۲۹۵سی کے نفاذ میں اقلیتوں کے تمام ووٹ اس قانون کے حق میں تھے۔ اس وقت بھی ہمیں اس قانون سے کوئی خطرہ نہیں تھا اور آج بھی ہم اس قانون کی عزت کرتے ہیں۔
- عام تاثر یہی ہے کہ سلمان تاثیر بیرونی دنیا کے دباؤ اور صدر مملکت آصف علی زرداری کی ہدایات پر عملدرآمد کر رہے تھے، تاہم میں اس سوچ کی سختی سے مذمت کرتا ہوں۔ صدرِ پاکستان اور حکمرانوں کو میرٹ کی بنیاد پر ملک کے عوام کو انصاف فراہم کرنا چاہیے تاکہ عدل و انصاف کے پیچیدہ نظام کی وجہ سے بے گناہ افراد کو سزا نہ مل سکے۔ میں اپیل کروں گا کہ ہم سب مل کر پاکستان میں عادلانہ نظام قائم کرنے کی کوشش کریں۔
بشپ چرچ آف پاکستان جناب ڈاکٹر اعجاز عنایت کے یہ متوازن اور حقیقت پسندانہ خیالات اس حوالے سے حوصلہ افزا ہیں کہ انہوں نے معروضی صورتحال کا بہتر تجزیہ کیا ہے اور اس سازش کو بروقت بھانپ لیا ہے جو پاکستان میں مسلم اکثریت اور مسیحی اقلیت کے درمیان غلط فہمیوں کو فروغ دینے اور اس کے ذریعے لادینیت کے سیکولر ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے مفاد پرست عناصر کی طرف سے مسلسل جاری ہے۔
۴- پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے تمام تر اختلافات کے باوجود ان کا یہ کریڈٹ ہمیشہ غیر متنازعہ رہا ہے کہ انہوں نے ۱۹۷۳ء کے دستور میں پاکستان کی اسلامی نظریاتی شناخت کو قائم رکھا، قوم سے نفاذِ اسلام کا دستوری عہد کیا، عقیدۂ ختمِ نبوت کے تحفظ کا دیرینہ مسئلہ حل کیا، اسلامی سربراہ کانفرنس کا اہتمام کر کے عالمِ اسلام کو وحدت اور یکجہتی کا پیغام دیا اور ایٹمی توانائی کے مسئلے پر عالمی دباؤ کی پروا نہ کرتے ہوئے قومی خود مختاری اور ملی حمیت کا مظاہرہ کیا۔ تحفظ ناموس رسالت کے مسئلے پر پاکستان پیپلز پارٹی کے بعض رہنماؤں کے بیانات اور اس کے خلاف ان کی مہم دیکھ کر ڈر لگ رہا تھا کہ شاید پی پی پی اپنے مرحوم بانی اور قائد جناب ذوالفقار علی بھٹو کے کردار سے منحرف ہونے جا رہی ہے ، لیکن ریمنڈ ڈیوس کے مسئلے پر شاہ محمود قریشی اور تحفظ ناموس رسالت کے قانون کے بارے میں وزیر قانون بابر اعوان کے دوٹوک موقف نے ہمارے خوف اور خدشے کو دور کر دیا ہے اور دل کو تسلی ہونے لگی ہے کہ پی پی پی میں ابھی ایسے راہنما موجود ہیں جو ملی جذبات کو محسوس کرتے ہیں اور نہ صرف ان سے ہم آہنگ ہیں بلکہ ان کی ترجمانی کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔
تحفظِ ناموسِ رسالت کے قانون کے بارے میں مختلف ریفرنسز اور محترمہ شیری رحمان کی طرف سے قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں جمع کرائے جانے والے بل کے حوالے سے وزارتِ قانون نے اپنا موقف واضح کرنے کا تقاضا کیا گیا تھا جس پر وزارتِ قانون کی طرف سے جوابی طور پر پیش کیے جانے والے ریفرنس میں تحفظِ ناموسِ رسالت کے قانون کا مختلف حوالوں سے جائزہ لیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرامؓ کا فیصلہ یہی رہا ہے کہ گستاخِ رسالت کی سزا موت ہے اور مختلف مواقع پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے یہ سزا دی گئی ہے۔ پھر مختلف ممالک کے قوانین کا حوالہ دیا گیا ہے جن میں توہین مذہب اور مذہبی شخصیات کی بے حرمتی کو جرم قرار دیتے ہوئے اس پر سزا مقرر کی گئی ہے۔ ان ممالک میں افغانستان، آسٹریلیا، بنگلہ دیش، برازیل، کینیڈا، مصر، کویت، ملائشیا، مالٹا، ہالینڈ، نیوزی لینڈ، نائیجیریا، سعودی عرب، سوڈان، متحدہ عرب امارات، برطانیہ، یمن اور امریکہ کی بعض ریاستیں شامل ہیں۔ ان تمام ممالک میں مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین جرم ہے اور اس جرم پر مختلف نوعیت کی سزائیں تجویز کی گئی ہیں، اس لیے پاکستان میں ناموسِ رسالت کی توہین کو جرم قرار دینے اور اس پر سزا مقرر کرنے کا قانون عالمی روایات کے خلاف نہیں ہے۔
سمری کا اختتام اس پیراگراف پر ہوتا ہے کہ
’’ان تمام حقائق کی روشنی میں توہینِ رسالت کی سزا موت آئین کے آرٹیکل ۲۹۵سی، پاکستان پینل کوڈ ۱۸۶۰ اور قرآن و سنت کے عین مطابق ہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی یا ترمیم کی ہرگز ضرورت نہیں ہے، اس لیے ایسے تمام پیراگراف جو مختلف ریفرنسز میں بیان کیے گئے ہیں، وہ تمام قانون کی غلط تشریح پر مبنی ہیں، جبکہ اس قانون پر عملدرآمد کے لیے پاکستان میں مؤثر عدالتی انصاف بھی موجود ہے جو آئینِ پاکستان، قرآن و سنت اور انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔‘‘
اس تفصیلی جائزے کے ساتھ وزارتِ قانون نے وزارت اقلیتی امور کے ریفرنس اور محترمہ شیری رحمان کے پرائیویٹ بل سے اختلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ تحفظِ ناموسِ رسالت کے قانون میں کسی قسم کی تبدیلی یا ترمیم کی سرے سے کوئی ضرورت نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وزارتِ قانون نے اس ریفرنس کی صورت میں پاکستان کے کروڑوں مسلمانوں کے عقائد و جذبات کا تحفظ و ترجمانی کی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی سابق وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی نے بھی ریمنڈ ڈیوس کیس کے بارے میں زمینی حقائق کے خلاف موقف اختیار کرنے سے انکار کر کے کسی قسم کے ملکی و غیر ملکی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے پاکستانی عوام کے جذبات اور قومی حمیت کی ترجمانی کی ہے۔