۱۰ اکتوبر کے ’’الاہرام‘‘ پر ایک نظر

   
۲۵ اکتوبر ۲۰۰۰ء

اس دفعہ لندن آنے کے لیے مصری ایئرلائن کا انتخاب کیا جو سستی ایئرلائنوں میں اچھی سروس کی شہرت رکھتی ہے۔ کراچی سے مولانا فداء الرحمن درخواستی کے فرزند مولانا رشید الرحمان درخواستی نے لندن آنا تھا۔ انہوں نے بھی میرے ساتھ ہی پروگرام بنا لیا اور ہم دونوں ۹ اکتوبر کو دو بجے دن کراچی ایئرپورٹ سے مصری ایئرلائن کے ذریعہ قاہرہ کے لیے پرواز کر گئے جہاں ایک رات قیام کے بعد اگلے روز صبح ساڑھے نو بجے لندن کے لیے روانہ ہونا تھا۔

مغرب کے قریب قاہرہ پہنچے جہاں ایئرپورٹ پر ہی مصری ایئرلائن کے ہوٹل میں قیام کیا اور ۱۰ اکتوبر کو دو بجے کے لگ بھگ لندن پہنچ گئے۔ گزشتہ پندرہ سال سے میرا معمول موسم گرما میں دو تین ماہ کے لیے لندن آنے کا رہا ہے مگر اس سال مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں دورۂ حدیث کے باقاعدہ اسباق کی وجہ سے شیڈول بدلنا پڑا۔ اور اب بشرط زندگی و صحت و مشیت الٰہی رجب اور شعبان میں ہی دیڑھ دو ماہ کے لیے برطانیہ آنے کا معمول رہے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

قاہرہ سے لندن کی فلائٹ پانچ گھنٹے کی تھی اور گزشتہ رات نیند کے لیے خاصی فرصت مل گئی تھی۔ اس لیے میں نے وقت گزارنے کے لیے ’’الاہرام‘‘ اٹھا لیا جو عرب دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے پرانا اخبار ہے۔ یہ مصر کا قومی روزنامہ ہے جو قاہرہ سے شائع ہوتا ہے۔ اس کی اشاعت کا آغاز ۵ اگست ۱۸۷۶ء کو سلیم و بشارۃ تقلا کی ادارت میں ہوا تھا اور آج کل اس کے ایگزیکٹو چیف الاستاذ ابراہیم نافع اور چیف ایڈیٹر اسامہ الغزالی الحرب ہیں۔ جہازی سائز کے ۳۲ صفحات پر مشتمل اس اخبار میں تازہ عالمی خبروں کے علاوہ تجارت، بینک، کھیل و ثقافت، مذہب، تاریخ، بین الاقوامی تجزیے، علاقائی صورت حال، عدالتی فیصلے، جرائم، اور دیگر اہم عنوانات پر مشتمل صفحات اور کالم موجود ہیں۔ اخبار پر ایک مجموعی نظر ڈالنے کے بعد قاری کو حالات حاضرہ کے حوالہ سے اہم اور ضروری معلومات حاصل ہو جاتی ہیں۔ آئیے ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۰ء کے ’’الاہرام‘‘ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

مرکزی سرخی مصر کے صدر حسنی مبارک اور فلسطینی لیڈر یاسر عرفات کی ملاقات کے بارے میں ہے جس میں اسرائیل کی تازہ صورتحال، نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلیوں کے حالیہ وحشیانہ تشدد، اور چند روز میں ہونے والی عرب سربراہ کانفرنس کے ایجنڈے کے اہم نکات زیر بحث آئے۔ اس کے ساتھ ہی صفحۂ اول پر خبر ہے کہ عرب سربراہ کانفرنس میں کم و بیش ستر بادشاہوں اور حکومتی سربراہوں کی شرکت متوقع ہے۔ اور مصری صدر کی اہلیہ سوزان مبارک کی سربراہی میں فلسطینی شہداء کے خاندانوں کی امداد کے لیے فنڈ کے قیام کا اعلان ہے۔ اس کے علاوہ الاستاذ ابراہیم نافع کا خصوصی کالم بھی صفحۂ اول پر تھا جس میں عرب اسرائیل قضیہ کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔عرب اسرائیل تنازعہ کے سلسلہ میں مختلف اہل قلم کے خیالات متعدد کالموں اور مضامین کی صورت میں شامل ہیں جن میں سے دو کالموں کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

ایک کالم ڈاکٹر عبد العاطی محمد کا تحریر کردہ ہے جس کا عنوان ہے ’’یوگوسلاویہ سے اسرائیل تک‘‘۔ اس میں انہوں نے میلاسووچ کی یوگوسلاویہ کی صدارت سے علیحدگی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میلاسووچ نسل پرستی کا علمبردار تھا، اس نے بوسنیا اور کوسووو میں دہشت و بربریت کی انتہا کر دی تھی اور عالمی رائے عامہ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی دھجیاں بکھیر دی تھیں۔ لیکن چونکہ امریکہ کا وہاں مفاد وابستہ تھا اور وہ مشرقی یورپ میں روس کے باقی ماندہ اثرات سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تھا اس لیے اس نے یوگوسلاویہ میں جمہوریت کی بحالی کے نام پر میلاسووچ کو اقتدار سے الگ کرنے کے لیے اپنے تمام ذرائع استعمال کیے اور اسے صدارت سے محروم کر دیا۔ لیکن دوسری طرف اسرائیلی حکومت بھی نسل پرست ہے اور اسی بنیاد پر فلسطینیوں پر وحشت و بربریت کی اس نے انتہا کر دی ہے لیکن امریکہ اس ظلم و جور سے اسرائیل کو باز رکھنے کی بجائے اس کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ کالم نگار کا کہنا ہے کہ نسل پرستی، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی، عالمی رائے عامہ کو مسترد کرنے، اور انسانی حقوق کی پامالی کے جرائم میں میلاسووچ اور اسرائیلی حکمران ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں لیکن امریکہ کا طرز عمل دونوں کے بارے میں مختلف اور متضاد ہے اور کھلم کھلا دوغلاپن کا شکار ہے۔

ایک اور مضمون اسی تناظر میں سلامنہ احمد سلامنہ نے لکھا ہے جس کا عنوان ’’بلغراد اور فلسطین کے درمیان‘‘ ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ میلاسووچ کی یوگوسلاویہ کی صدارت سے معزولی مشرقی یورپ میں روس کے آخری حمایتی کی معزولی ہے۔ اور اس طرح امریکہ اور مغربی یورپ نے بلقان یعنی مشرقی یورپ میں اپنا اثر و نفوذ مکمل کر لیا ہے۔ مضمون نویس کا کہنا ہے کہ میلاسووچ نے یوگوسلاویہ پر ۱۳ سال تک اپنی ڈکٹیٹرشپ برقرار رکھی ہے اور جرائم کی انتہا کر دی ہے۔ اس نے ابتداء میں امریکہ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ مشرقی یورپ کو روسی اثرات سے پاک کرنے میں تعاون کرے گا۔ لیکن مغربی یورپ کی بالادستی قبول کرنے کے لیے وہ تیار نہ ہوا جس کی وجہ سے اس کی یقین دہانی کو قبول نہ کیا گیا اور امریکہ نے اس سے نجات حاصل کر لی۔ مضمون نویس نے اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ یوگوسلاویہ کے نئے صدر سے مسلمانوں کو کسی قسم کی توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں۔ کیونکہ سرب قومیت اور کوسوو کو آزادی نہ دینے کے بارے میں ان صاحب کے خیالات اور رجحانات بھی میلاسووچ سے مختلف نہیں ہیں۔

معروف عرب کالم نویس فہمی ھویدی کا کالم مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی اور فلسطینیوں پر تشدد کے حالیہ واقعات کے بارے میں ہے جس میں انہوں نے ایک کاریگر کے جذبات کی ترجمانی کی ہے جو ان کے مکان پر رنگ و روغن کے لیے کئی روز سے آرہا تھا۔ لیکن گزشتہ روز وہ دو گھنٹے لیٹ آیا، اس کے چہرے پر مایوسی اور اضطراب کی کیفیت تھی اور آنکھوں کا رنگ سرخ تھا۔ وہ خلاف معمول خاموشی سے آیا اور کسی سے کچھ کہے بغیر اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ فہمی ھویدی کا کہنا ہے کہ وہ اس کی یہ کیفیت دیکھ کر اس کی وجہ معلوم کرنے کے لیے اس کے قریب گئے تو وہ زیر لب بڑبڑا رہا تھا۔ اس کے الفاظ جو سب سے پہلے کان میں پڑے یہ تھے: ’’مسجد اقصٰی۔ اے ظالمو مسجد اقصیٰ۔ اے کتے کے بچو۔ کیا یہ نہیں کہتے تھے کہ امن ہی مسئلے کا حل ہے اور کیا ان کا کہنا یہ نہیں تھا کہ مشکلات کا دور ختم ہو چکا ہے۔‘‘

کالم نویس موصوف لکھتے ہیں کہ اس سے دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ وہ سیاست سے دلچسپی نہیں رکھتا لیکن گزشتہ رات کافی دیر تک ٹی وی کے سامنے بیٹھا رہا ہے۔ اس نے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی اور اسرائیلی فوجیوں کے جوتوں سمیت مسجد میں گھس کر فلسطینیوں پر ظلم و تشدد کے واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ وہ اپنی بیوی اور بچوں سمیت ان مناظر پر بے بسی کے آنسو بہاتا رہا، اور اگر بچوں کی روٹی کا مسئلہ نہ ہوتا تو اس کا آج کام پر آنے کو بالکل جی نہیں چاہ رہا تھا۔فہمی ھویدی کا کہنا ہے کہ یہ صرف اس ایک کاریگر کی بات نہیں بلکہ عام لوگوں کے جذبات یہی ہیں اور اسرائیلی لیڈرشپ نے پوری عرب قوم کو بے چینی اور اضطراب کی آگ میں دھکیل دیا ہے۔ فہمی ھویدی نے لکھا ہے کہ کسی دور میں اسرائیلی لیڈر موشے دایان نے کہا تھا کہ عربوں میں پڑھنے کی عادت نہیں۔ یہ بات ممکن ہے کسی زمانے میں درست ہو مگر اب تو زمانے نے یہ بات دکھا دی ہے کہ اسرائیلی لیڈر شپ بھی سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت سے عاری ہو چکی ہے۔ کیونکہ اگر اسرائیلیوں میں ذرا بھی عقل ہوتی تو وہ اس حماقت کا ارتکاب نہ کرتے جس کے ذریعے انہوں نے عرب دنیا کو ایک بار پھر اپنے خلاف مشتعل کر دیا ہے۔

’’الاہرام‘‘ میں کھیلوں کے صفحے پر بھی سرسری نظر ڈالی۔ کھیلوں سے مجھے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں ہے لیکن ایک خبر نے نظر کو روک لیا کہ فٹ بال کے مصری کھلاڑی احمد فاروق کو قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی بنیاد پر پچاس ہزار پونڈ جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔ یہ خبر پڑھ کر پاکستان میں کرکٹ کے بعض کھلاڑیوں کے خلاف تادیبی کاروائی کی یاد تازہ ہوگئی اور یوں محسوس ہوا کہ اسی خبر کا دوسرا حصہ پڑھ رہا ہوں۔

مصر میں ان دنوں انتخابات کی فضا گرم ہے اور ۱۸ اکتوبر کو انتخابات ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے اخبار میں کئی خبریں، مراسلے اور فیچر اس حوالہ سے موجود ہیں۔ ان میں سے ایک مراسلہ کچھ مانوس سا لگا جس میں ’’قانون کا احترام کیا ہے؟‘‘ کے عنوان سے سعید عبد الرحمن نے دیواروں پر انتخابی پوسٹروں کی بہتات کا رونا رویا ہے اور کہا ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ مکانات، دفاتر اور تعلیمی اداروں کے دروازوں پر انتخابی پوسٹروں کی کثرت نے عمارتوں کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک تعلیمی ادارے کے صدر دروازے کا فوٹو لگا ہے جس پر مختلف انتخابی امیدواروں کے باتصویر پوسٹر چسپاں ہیں۔

’’الاہرام‘‘ کے مطالعہ کے دوران میری نظریں مسلسل تلاش میں رہیں کہ کہیں پاکستان کے بارے میں کوئی خبر یا مضمون ہو مگر صرف ایک خبر آخری کونے میں دکھائی دی کہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے انسانی حقوق اور عورتوں کے مسائل کے بارے میں پاکستان کی فوجی حکومت کی پالیسی پر تنقید کی ہے۔ اور آزادئ صحافت کے بارے میں سرکاری طرز عمل کو بھی قابل اعتراض قرار دیا ہے اور اس کے ساتھ ہی جمہوریت کی فوری بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے بارے میں کوئی خبر بتیس صفحات کے اس ضخیم عرب اخبار میں نظر سے نہیں گزری۔ ’’الاہرام‘‘ میں مسجد اقصیٰ پر ایک صفحہ کا فیچر شائع کیا گیا ہے جس میں مسجد اقصیٰ کی تاریخ بیان کی گئی ہے، اس کا خلاصہ اگلے کالم میں قارئین کی خدمت میں پیش کروں گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter