گوجرانوالہ شہر کی فریاد

   
۲۶ جنوری ۲۰۰۷ء

گزشتہ دنوں گوجرانوالہ کے سرکٹ ہاؤس میں ضلعی امن کمیٹی کا اجلاس تھا اور محرم الحرام کے سلسلہ میں انتظامات زیربحث تھے۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر اور ڈی سی او صاحب کے علاوہ مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کرام بھی شریک تھے۔ محرم الحرام سے قبل اس قسم کا اجلاس ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ عشرۂ محرم الحرام کے دوران اہلِ تشیع کے جو جلوس وغیرہ ہوتے ہیں ان کی حفاظت اور سہولت کے لیے مناسب انتظامات کیے جا سکیں۔ اجلاس میں یہ طے پایا کہ عزاداری کے جلوسوں کا جو روٹ ہے اس کے راستوں کی صفائی کرائی جائے اور اگر کوئی رکاوٹ وغیرہ موجود ہے تو اسے دور کیا جائے۔

میں بھی اجلاس میں شریک تھا، مجھے جب اظہارِ خیال کے لیے کہا گیا تو میں نے عرض کیا کہ عزاداری کے جلوسوں کے راستوں کی صفائی بہت اچھی بات ہے اور اس کے لیے انتظامیہ کے ساتھ بھرپور تعاون کی ضرورت ہے، لیکن کیا راستوں کی اس صفائی کا دائرہ شہر کے باقی حصوں تک وسیع نہیں کیا جا سکتا؟ کیونکہ شہر کی حالت بہت بری ہے اور شہر کی ہر سڑک اور بازار صفائی کے لیے مستقل انتظام کا متقاضی ہے۔ میرا خیال تھا کہ میری اس گزارش پر توجہ دی جائے گی، لیکن یہ بات ایسے سروں کے اوپر سے گزر گئی جیسے میں نے کسی اجنبی زبان میں بات کی ہو، یا فلسفہ کا کوئی پیچیدہ مسئلہ بیان کر دیا ہو۔ ڈی سی او صاحب اور ڈی پی او صاحب دونوں نے میرے بعد اظہارِ خیال کیا مگر اس حوالے سے وہ کچھ نہ فرما سکے۔

اس سے قبل گزشتہ سال کے اواخر میں اسلام آباد میں ’’تحفظِ حقوقِ نسواں بل‘‘ کے بارے میں حکومتی پارٹی کے رہنماؤں کے جو مذاکرات علماء کمیٹی کے ساتھ ہوئے، میں بھی اس میں شریک تھا۔ اس موقع پر چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی صاحب بھی موجود تھے۔ چودھری پرویز الٰہی صاحب نے ملاقات کے دوران مجھ سے دریافت کیا کہ گوجرانوالہ شہر کا کیا حال ہے؟ میں نے عرض کیا کہ بہت برا حال ہے، اور شہر کو چار حصوں میں تقسیم کر دینے کے بعد اور زیادہ برا حال ہو گیا ہے۔ چودھری صاحب نے فرمایا کہ میں آپ سے گوجرانوالہ شہر کے بارے میں بطور خاص بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ جب چاہیں حاضر ہوں۔ لیکن اس کے بعد سے اب تک نہ اس بات کی نوبت آئی ہے اور نہ ہی میری گزارش کی طرف کوئی توجہ کی گئی ہے۔

شہر کی صورتحال یہ ہے کہ کوئی سڑک سلامت نہیں رہی اور کوئی بازار گندگی کے ڈھیروں سے خالی نہیں۔ جی ٹی روڈ نیا بننے کی وجہ سے کچھ بہتر حالت میں ہے لیکن اس پر ٹریفک کا اتنا ہجوم ہے کہ پیدل چلنا اور کسی جگہ سڑک پار کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ خاص طور پر شیخوپورہ موڑ سے جنرل بس اسٹینڈ تک صورتحال یہ ہے کہ کسی بھی وقت ٹریفک بلاک ہو سکتی ہے، اور ایک بار ٹریفک بلاک ہو جائے تو اسے چلانا مستقل مسئلہ بن جاتا ہے۔ یقیناً اس میں شہریوں کی بدنظمی کا بھی دخل ہے لیکن ٹریفک میں روز افزوں اضافہ کے ساتھ ساتھ سڑک کو اس کے مطابق بنانا اور مستقبل کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کرنا بہرحال انتظامیہ کا کام ہے۔

کچھ عرصہ قبل ’’گوجرانوالہ سٹی ٹورز‘‘ کے نام سے شہر میں بڑی بسیں چلائی گئی ہیں جس کا شہریوں کو فائدہ بھی بہت ہوا، لیکن اس سے جو مسائل پیدا ہوئے ان کے حل کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔ ان بسوں کے چلنے کے ساتھ ہی جی ٹی روڈ پر اندرون شہر چھوٹی سواریاں، ویگنیں اور چاند گاڑیاں بند کر دی گئی ہیں، جس کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ چونکہ بڑی بسیں گوجرانوالہ ہی سے تعلق رکھنے والے ایک صوبائی وزیر صاحب کی قائم کردہ کمپنی کی ہیں، اس لیے چھوٹی ٹریفک کو پبلک ٹریفک کے طور پر جی ٹی روڈ پر چلنے سے جان بوجھ کر روک دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے رش کے اوقات میں یہ بسیں اتنی بھری ہوئی گزرتی ہیں کہ اس وقت کسی بس میں سوار ہونا کسی شریف آدمی کے بس میں نہیں رہتا۔ جبکہ اس کے متبادل کوئی پبلک ٹرانسپورٹ موجود نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ان لوگوں کو، جنہوں نے کام کاج کے لیے دفتر یا فیکٹری جانا ہے، یا وہاں سے گھر واپس آنا ہے، سخت مشکل پیش آتی ہے۔ مستقل رکشہ لے جانا روزمرہ آنے جانے والوں کے لیے ممکن نہیں ہوتا اور لوگ خاصی دیر تک سڑک پر کھڑے پریشان ہوتے رہتے ہیں۔

مجھے شیرانوالہ باغ سے کنگنی والا تک کم و بیش روزانہ آنا جانا ہوتا ہے جہاں الشریعہ اکادمی واقع ہے۔ کبھی حسنِ اتفاق سے بس میں جگہ مل جائے تو خوش قسمتی کی بات ہوتی ہے ورنہ چاند گاڑی ہی ذریعۂ سفر ہوتی ہے۔ لیکن پولیس کا کوئی سپاہی سٹاپ پر کھڑا ہو تو چاند گاڑیوں کی آمد و رفت بند ہو جاتی ہے اور میرے جیسے آدمی کے لیے سفر کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میں نے ایک روز ٹریفک کے ایک سپاہی سے پوچھ لیا کہ آپ یہاں کیوں کھڑے ہوتے ہیں؟ اس نے بتایا کہ ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے اور قانون کی پابندی کرانے کے لیے۔ میں نے کہا کہ آپ کے کھڑے ہونے سے جو گاڑیاں غائب ہو جاتی ہیں اور آنے جانے والوں کو مشکل پیش آتی ہے، اس کا کیا حل ہے؟ کہنے لگا کہ میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ گویا ٹریفک پولیس کی کسی جگہ موجودگی جو اصل میں شہریوں کے لیے سہولت کا باعث ہونی چاہیے، ہمارے شہر میں اس تھوڑی بہت سہولت کو بھی ختم کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے جو عام لوگوں کو کسی نہ کسی طرح میسر آجاتی ہے۔

پھر شہر کے اندر پیدل چلنے والوں کو مین روڈ کراس کرنے کی کوئی سہولت حاصل نہیں ہے، جس نے سڑک پار کرنی ہے اپنی جان کا رسک لے کر چلتی ٹریفک کے دوران ہی پار کرنی ہے۔

شہر کے اندر کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور گٹر ہر وقت پانی اور گندگی ابلتے رہتے ہیں۔ ان سڑکوں پر نئی گاڑیوں کا برا حال ہو جاتا ہے۔ دو روز قبل مولانا قاضی حمید اللہ خان (ایم این اے) کے ساتھ میں تلونڈی موسیٰ خان کے قریب پیروچک میں ایک دینی مدرسہ کے افتتاح کی تقریب میں شریک تھا، واپسی پر جو گاڑی ہم دونوں کو شہر چھوڑنے کے لیے آئی، اس کے مالک نے نہر کا پل پار کرنے سے پہلے یہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جس علاقے سے ہم گزر رہے ہیں، ٹاؤن ناظم یہیں رہتے ہیں، ایک صوبائی وزیر صاحب کی قیام گاہ بھی یہیں ہے، اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے ضلعی صدر بھی یہیں ہیں، بلکہ تینوں آپس میں باپ بیٹا ہیں، لیکن ان کے گھروں کے پاس سے گزرنے والی سڑک کا حال آپ دیکھ رہے ہیں کہ نئی گاڑیاں یہاں لاتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ خدا جانے کون سا پرزہ کہاں ٹوٹ جائے۔

مولانا قاضی حمید اللہ خان قومی اسمبلی کے ممبر ہیں، ان کی رہائشگاہ سیٹلائٹ ٹاؤن میں پسرور روڈ پر ہے، اس سڑک کا بھی برا حال ہے۔ اور سابق ایم این اے بلکہ سابق وفاقی وزیر خان غلام دستگیر خان صاحب اسی سیٹلائٹ ٹاؤن کے دوسرے حصے میں رہتے ہیں اور ان کے گھر کے سامنے کی سڑک کا حال یہ ہے کہ کار تو کار رکشہ والے بھی اس پر گزرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔

میں الشریعہ اکادمی میں کم و بیش روزانہ شام کے وقت آتا ہوں، یہ جی ٹی روڈ پر کنگنی والا بائی پاس چوک کے قریب ہاشمی کالونی میں واقع ہے۔ اس گلی میں دارالعلوم ختم نبوت ، الشریعہ اکادمی اور صفیہ اکیڈمی کے عنوان سے تین ادارے ہیں۔ اور خیر سے سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے نائب ناظم جناب جمال حسن منج کی رہائش بھی اسی گلی کے ایک کونے میں واقع ہے۔ لیکن اس گلی کا حال یہ ہے کہ گٹر کی مسلسل بندش کی وجہ سے گندا پانی مسلسل کھڑا رہتا ہے اور دن کے وقت بھی وہاں سے پیدل گزرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

میں روزانہ صبح نماز فجر کے بعد جامع مسجد شیرانوالہ باغ سے گھنٹہ گھر کے قریب مدرسہ نصرۃ العلوم تک جاتا ہوں۔ کل صبح جاتے ہوئے میں نے دیکھا کہ اتنے سے راستے میں تین چار جگہ گٹر بند تھے اور پانی اور گندگی بازار میں جمع تھے۔ یہ ان دنوں کی کیفیت ہے جبکہ بارش ہوئے کافی دن گزر گئے ہیں، اور اگر بارش ہو جائے تو گندگی، کیچڑ اور تعفن کی وجہ سے یہ پورا راستہ عذاب بن جاتا ہے۔

اندر کی بات تو اربابِ حل و عقد ہی جانتے ہوں گے مگر عام لوگوں کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ چودھری صاحبان نے شہر کو چار حصوں میں تقسیم کر کے نندی پور ٹاؤن، قلعہ دیدار سنگھ ٹاؤن، کھیالی ٹاؤن، اور اروپ ٹاؤن کے عنوان سے شہر کو اس کی اپنی قیادت سے محروم کر دیا ہے، اور چاروں ٹاؤنوں کی قیادت دیہات میں منتقل ہو گئی ہے جس کی وجہ سے شہر متعلقہ محکموں کی توجہات سے محروم ہو گیا ہے۔ بلکہ ایک منچلے نے تو یہ تک کہہ دیا کہ گوجرانوالہ شہر کو جان بوجھ کر اس بات کی سزا دی جا رہی ہے کہ اس نے گزشتہ انتخابات میں دو مولویوں قاضی حمید اللہ خان اور مولانا غلام فرید رضوی (مرحوم) کو ووٹ کیوں دیے ہیں؟

کچھ عرصہ قبل سابق ایم پی اے جناب ایس اے حمید ایڈووکیٹ کی کوشش سے ’’گوجرانوالہ بچاؤ تحریک‘‘ کے نام سے شہر کی حالت سدھارنے کے لیے ایک مہم کا آغاز ہوا تھا، جس میں چیمبر آف کامرس، انجمن تاجران، میڈیکل ایسوسی ایشن، ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن اور دیگر اداروں کے نمائندے بھی شریک تھے، میں بھی ان کے ساتھ تھا، حتیٰ کہ میں نے اس وقت شہر کی صورتحال کے بارے میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کو ایک کھلا خط بھی لکھا تھا جو زیر نظر کالم میں اور دیگر اخبارات میں بھی شائع ہوا تھا، مگر یہ مہم بوجوہ آگے نہ بڑھ سکی۔ میں نے اجلاس میں عرض کیا تھا کہ شہر کی مزید بگڑتی ہوئی صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ

  • سیاسی اور الیکشن دھڑے بندی سے بالاتر ہو کر خالصتاً شہری بنیادوں پر اس مسئلہ کو اٹھایا جائے،
  • تمام مکاتبِ فکر، سیاسی جماعتوں اور طبقات کی بھرپور نمائندگی کا اہتمام کیا جائے،
  • اور منظم طریقے سے رائے عامہ کو بیدار کرتے ہوئے حکامِ بالا کو شہریوں کے مسائل اور مشکلات کی طرف توجہ دلائی جائے۔

میں گورنر پنجاب اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ ان دونوں میں سے کوئی صاحب کسی وقت اچانک تشریف لا کر صرف دو گھنٹے شہر کی اندرونی سڑکوں اور بازاروں میں گزار لیں تو ان پر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ گوجرانوالہ کے شہری ایک عرصہ سے کس عذاب کا شکار ہیں اور اس حوالے سے کیا تاثرات رکھتے ہیں۔ گوجرانوالہ ایک کاروباری شہر ہے، ملک کی بڑی خدمت کرتا ہے، حکومت کو خاصے ٹیکس دیتا ہے، اور بعض حوالوں سے ملک میں اپنا ایک امتیاز رکھتا ہے، اس کے ساتھ حکمرانوں کو یہ سلوک بہرحال روا نہیں رکھنا چاہیے، جس کا گزشتہ کئی برسوں سے مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter