- اس بحث کا پس منظر
- قطعی اور ظنی اصولوں میں فرق
- اعلان جہاد کے لیے حکومت کی شرط
- زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکسیشن
- فتویٰ کا آزادانہ حق
۱- اس بحث کا پس منظر
غالباً عید الفطر کے ایام کی بات ہے کہ محترم جاوید احمد غامدی نے پشاور پریس کلب میں جہاد، فتویٰ، زکوٰۃ، ٹیکس اور علماء کے سیاسی کردار کے حوالہ سے اپنے خیالات کا اظہار کیا جو ملک کے جمہور علماء کے موقف اور طرز عمل سے مختلف تھے۔ اس لیے میں نے روزنامہ اوصاف اسلام آباد میں مسلسل شائع ہونے والے اپنے کالم ’’نوائے قلم‘‘ میں ان کا ناقدانہ جائزہ لیا۔ اس پر غامدی صاحب محترم کے شاگرد رشید جناب خورشید احمد ندیم نے روزنامہ جنگ میں غامدی صاحب کے موقف کی مزید وضاحت کی جن پر میں نے ان کی چند باتوں پر روزنامہ اوصاف میں دوبارہ تبصرہ کر دیا۔
اس کے بعد غامدی صاحب کے ایک اور شاگرد معز امجد نے روزنامہ پاکستان میں انہی امور پر تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کیا اور اسے جاوید احمد غامدی کی زیرادارت شائع ہونے والے ماہنامہ اشراق لاہور میں بھی میرے مذکورہ بالا مضمون کے ساتھ شائع کر دیا گیا۔ زیر نظر مضمون میں معز امجد کے اس مضمون کی بعض باتوں پر اظہار خیال کرنا چاہتا ہوں لیکن چونکہ سابقہ مضامین مختلف اخبارات میں شائع ہونے کی وجہ سے بیشتر قارئین کے سامنے پوری بحث نہیں ہوگی اس لیے اس کا مختصر خلاصہ ساتھ پیش کر رہا ہوں تاکہ بحث کا کوئی پہلو قارئین کے سامنے تشنہ نہ رہے۔
غامدی صاحب نے فرمایا تھا کہ علماء کو سیاست میں فریق بننے کی بجائے اپنا کردار علمی و فکری راہنمائی تک محدود رکھنا چاہیے اور بہتر ہے کہ مولوی کو سیاستدان بنانے کی بجائے سیاستدان کو مولوی بنانے کی کوشش کی جائے۔ راقم الحروف نے اس پر عرض کیا کہ یہ موقع محل کی مناسبت کی بات ہے کہ علماء کرام علمی و فکری راہنمائی اور قیادت کریں یا ضرورت ہو تو حالات کی اصلاح کے لیے خود سیاست میں فریق بننے کا راستہ اختیار کریں۔ دونوں طرف امت کے اہل علم کا اسوہ موجود ہے اور ضرورت کے مطابق کوئی سا راستہ اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔ خورشید احمد ندیم نے جواب میں اس سے اتفاق کیا کہ یہ حلال و حرام کا مسئلہ نہیں بلکہ حکمت و تدبیر کی بات ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ پاکستان میں علماء کرام کے قومی سیاست میں خود فریق بننے سے دین اور علماء کو فائدہ کی بجائے نقصان ہوا ہے۔ راقم الحروف نے ان کی اس بات سے اختلاف کیا اور عرض کیا کہ ملک کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد کی منظوری صرف اس لیے ہو سکی کہ اسمبلی میں علامہ شبیر احمد عثمانیؒ بطور رکن موجود تھے۔ اور ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسلام کو سرکاری مذہب قرار دینے، قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کی دستوری ضمانت اور دیگر اسلامی دفعات کی شمولیت کی واحد وجہ یہ تھی کہ دستور ساز اسمبلی میں مولانا مفتی محمودؒ ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ ، مولانا عبد الحقؒ ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، مولانا ظفر احمد انصاریؒ ، اور مولانا عبد المصطفیٰ ازہریؒ جیسے سرکردہ علماء نے اس کے لیے مشترکہ طور پر جنگ لڑی۔ اس لیے اگر آج کے شدید بین الاقوامی دباؤ اور عالمی سطح کی مسلسل مخالفت کے باوجود پاکستان دستوری طور پر ایک اسلامی ریاست کے طور پر قائم ہے اور کفر و استعمار کی آنکھوں میں مسلسل کھٹک رہا ہے تو یہ قومی سیاست میں علماء کرام کے فریق بننے کی وجہ سے ہے۔ لہٰذا اس ایک بنیادی اور اصولی فائدہ کے لیے ان نقصانات کو برداشت کیا جا سکتا ہے جو اس سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے سامنے آرہے ہیں۔ اور ہمارے خیال میں یہ فائدہ نقصانات پر بھاری ہے۔
غامدی صاحب نے فرمایا تھا کہ جہاد کا حق صرف اسلامی حکومت کو ہے، اس کی طرف سے اعلان کے بغیر کوئی جنگ جہاد نہیں کہلا سکتی، اس لیے مختلف جہادی گروپوں کی طرف سے کی جانے والی جنگ شرعاً جہاد نہیں ہے۔ راقم الحروف نے اس پر عرض کیا کہ بلاشبہ کسی ملک یا قوم کے خلاف اعلان جنگ مسلمان حکومت ہی کا حق ہے لیکن جب کسی مسلمان آبادی پر کافروں کا جابرانہ تسلط قائم ہو جائے اور مسلمانوں کی حکومت اس تسلط کے خلاف مزاحمت کے لیے تیار نہ ہو یا اس میں مزاحمت کی سکت نہ رہے تو پھر آزادی کے حصول کے لیے جہاد کا آغاز کسی حکومت کے اعلان یا اجازت پر موقوف نہیں رہے گا۔ اور ایسے موقع پر اگر علماء مسلمان معاشرہ کی قیادت کرتے ہوئے کافر قوت کے تسلط کے خلاف مزاحمت کا اعلان کریں گے تو وہ شرعاً جہاد کہلائے گا۔ اس سلسلہ میں راقم الحروف نے برصغیر پاک و ہند کے جہاد آزادی، الجزائر کے جہاد آزادی، اور افغانستان کے جہاد کے ساتھ ساتھ تاتاریوں کی یورش کے خلاف شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کے اعلان جہاد کا بھی حوالہ دیا کہ ماضی میں علماء کرام نے ایسے مراحل میں جہاد کا اعلان کیا ہے اور ان کی جدوجہد کو شرعی جہاد ہی کی حیثیت حاصل رہی ہے۔
۲- قطعی اور ظنی اصولوں میں فرق
اس کے جواب میں معز امجد نے طویل بحث کی ہے اور میں اس کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت محسوس کر رہا ہوں۔ انہوں نے اصولی طور پر میرے طرز استدلال سے اختلاف کیا ہے کہ میں نے امت کے اہل علم کے تعامل سے استدلال کر کے غلطی کی ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ
’’عام انسانوں کی بات بے شک مختلف ہوگی مگر مولانا محترم جیسے اہل علم سے ہماری توقع یہی ہے کہ وہ اہل علم کے عمل سے شریعت اخذ کرنے کی بجائے شریعت کی روشنی میں اس عمل کا جائزہ لیں۔ اگر شریعت اسلامی کے بنیادی ماخذوں یعنی قرآن و سنت میں اس عمل کی بنیاد موجود ہے تو اسے شریعت کے مطابق اور اگر ایسی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے تو بغیر کسی تردد کے اسے شریعت سے ہٹا ہوا قرار دیں۔‘‘
میرے نزدیک ہمارے درمیان نقطۂ نظر کے اختلاف کا بنیادی نکتہ اور اصل موڑ یہی ہے۔ اگر یہ واضح ہو جائے تو باقی معاملات کا سمجھنا زیادہ مشکل نہیں رہے گا۔ اس لیے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ شریعت کے اصول دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو قرآن کریم اور سنت نبویؐ سے دلالت صریحہ اور قطعی ثبوت کے ساتھ ہمارے پاس موجود ہیں۔ یعنی ان کے مفہوم کے تعین کے لیے کسی استدلال اور استنباط کی ضرورت نہیں اور ثبوت میں بھی کوئی ابہام نہیں ہے۔ اور جو فقہاء کی اصطلاح میں صریح الدلالہ اور قطعی الثبوت کہلاتے ہیں ان کے بارے میں تو کسی درجہ میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ انہیں ہر بات پر فوقیت حاصل ہے اور کسی بھی شخصیت کے موقف یا طرز عمل کو اس پر ترجیح حاصل نہیں ہے۔ حتیٰ کہ قرآن کریم کی سورۃ التحریم کے مطابق خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حلال و حرام کی واضح اشیا میں اپنی رائے اور مرضی اختیار کرنے کا حق حاصل نہیں دیا گیا۔ لیکن شریعت کے جن اصول و احکام کے ثبوت اور استدلال و استنباط کا مدار شخصیات پر ہے اور وہ شخصیات کے استدلال و استنباط ہی کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں ان کے بارے میں بنیادی حیثیت اور ترجیح شخصیات کو حاصل ہے۔ اور شخصیات کے علم و فضل اور درجات میں تفاوت کا اثر ان کے استنباط کردہ اصول و احکام پر لازماً پڑے گا۔ یہ ایک بدیہی بات ہے جس سے محترم غامدی اور ان کے لائق احترام شاگردانِ گرامی کو بھی شاید اختلاف نہیں ہوگا۔
سادہ سی بات ہے کہ اگر اصول نے شخصیات کو جنم دیا ہے تو اصول کو ان پر بالادستی ہوگی، اور اگر شخصیات نے اصول قائم کیے ہیں اور اصول کا اپنا وجود ان شخصیات کے استدلال و استنباط کا رہینِ منت ہے تو ان اصول کو شخصیات پر بالاتر قرار دینے اور ان کے مقابلہ میں شخصیات کی قطعی طور پر نفی کر دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ بلکہ خود قرآن کریم کی منشا کو سامنے رکھا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نے اصول بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اتباع کے بارے میں شخصیات کی پیروی کی ترغیب دی ہے۔ سورۃ الفاتحہ قرآن کریم کی سب سے پہلی اور سب سے زیادہ تلاوت کی جانے والی سورت ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں صراط مستقیم پر چلتے رہنے کی توفیق مانگنے کا سلیقہ سکھایا ہے اور ’’صراط مستقیم‘‘ کی وضاحت میں ’’صراط الذین انعمت علیہم‘‘ فرما کر شخصیات ہی کو آئیڈیل بنانے کا راستہ دکھایا ہے۔ اسی طرح سورۃ البقرہ کی ایک آیت میں صحابہ کرامؓ کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ اگر باقی لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جیسا ایمان تم لائے ہو تو وہ ہدایت پائیں گے۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ ایمان کے معاملہ میں صحابہ کرامؓ کی شخصیات کو معیار اور آئیڈیل قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے اہل علم اور شخصیات سے شریعت اخذ کرنے کی بات نہ تو قرآن کریم کی منشا کے خلاف ہے اور نہ ہی عقل و منطق اس کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
اس سلسلہ میں دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ شریعت کے جو احکام و اصول اہل علم اور شخصیات کے استدلال و استنباط کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں، ان احکام و اصول کی ترجیحات بھی اہل علم اور شخصیات کے درمیان موجود ترجیحات کے ساتھ ساتھ اپنی ترتیب قائم کریں گی۔ اور اسی ترتیب و ترجیح کے فہم و ادراک اور تشکیل و اطلاق کا نام فقہی تدبر ہے جس نے فقہائے امت کو اہل علم کے دیگر تمام طبقات پر فوقیت اور امتیاز عطا کیا ہے۔ شریعت کے ہر حکم کو اس کی صحیح جگہ پر رکھنے اور اس سے صحیح طور پر استفادہ کے لیے ان ترجیحات کا لحاظ ناگزیر ہے ورنہ شریعت پر عمل کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔
اسی ضمن میں یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ ہر دور میں اس دور کی ضروریات کے مطابق اصول وضع کیے گئے ہیں اور انہی ضروریات کے تحت ان کا اطلاق بھی ہوا ہے۔ اس لیے قطعی اور صریح اصولوں کو بالاتر رکھتے ہوئے ظنی اور استدلالی اصولوں کو ان کی ضروریات کے دائرہ تک محدود رکھنا اور انہیں وضع کرنے والے اہل علم اور شخصیات کی ترجیحات کے معیار پر ان کی ترتیب قائم کرنا بھی شریعت کا تقاضا ہے۔ اور یہی وہ جگہ ہے جہاں بعض اصولی حضرات ٹھوکر کھاتے ہیں کیونکہ جب وہ خود اپنے وضع کردہ اصولوں کا اطلاق پوری امت پر کرنے لگتے ہیں تو ظاہر بات ہے کہ امت کا بیشتر حصہ انہیں اپنے اصولوں پر عمل کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ اور ان کی اصول پرستی انہیں اس بات پر ابھارنے لگتی ہے کہ وہ اپنے قائم کردہ اصولوں کی لاٹھی اٹھا کر اس کے ساتھ پوری امت کے اہل علم کو ہانکنے لگ جائیں۔
اس بات کو مزید واضح کرنے کے لیے ایک عملی مثال دینا چاہوں گا۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک دوست میرے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہؒ نے حضرت امام بخاریؒ کی طرح احادیث نبویؐ کے جمع کرنے اور ان کی صحت کے اصول قائم کرنے پر کوئی کام کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں اور انہیں اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ میرا یہ جواب ان کے لیے حیرت کا باعث بنا اور انہوں نے قدرے غصے سے فرمایا کہ کیا امام ابوحنیفہؒ کو احادیث کی ضرورت نہیں تھی؟ میں نے جواب دیا کہ احادیث کی ضرورت تھی لیکن ان پر امام بخاریؒ کی طرز کے کام کی انہیں کوئی ضرورت نہیں تھی۔ پھر میں نے اس کی وضاحت کی کہ امام ابوحنیفہؒ ۸۰ھ میں کوفہ میں پیدا ہوئے۔ یہ صحابہ کرامؓ کا آخری دور تھا اور کوفہ صحابہ کرامؓ کا مرکز تھا۔ اس لیے امام صاحبؒ کا شمار تابعین میں ہوتا ہے۔ انہوں نے صغار صحابہؓ اور کبار تابعینؒ کو دیکھا اور ان سے استفادہ کیا ہے۔ ان کی وفات ۱۵۶ھ میں ہوئی اور ان کے دور میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث و سنن کی روایت میں اتنے واسطے نہیں ہوتے تھے کہ ان کی چھان بین کی زیادہ ضرورت پڑتی۔ اس لیے انہوں نے ایک دو قابل اعتماد واسطوں سے جو روایات ملیں انہی کی بنیاد پر اپنی فقہ کی عمارت کھڑی کر دی۔ جبکہ امام بخاریؒ کی ولادت ۱۹۴ھ اور وفات ۲۵۶ھ میں ہوئی۔ اس وقت احادیث کی روایت میں چار پانچ واسطے آچکے تھے اور ان کی صحت و ضعف کے لیے سخت اصول قائم کرنے کی ضرورت پیش آگئی تھی۔ اس لیے امام بخاریؒ نے اس ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے اصول قائم کیے اور ان کی بنیاد پر صحیح احادیث کا ایک منتخب ذخیرہ امت کے سامنے پیش کر دیا۔ اس لیے امام بخاریؒ کے وضع کردہ اصول کی اہمیت اپنی جگہ پوری طرح مسلم ہے لیکن ان اصولوں کا پون صدی پہلے پر موثربہ ماضی اطلاق کر کے امام ابوحنیفہؒ کو ان کا پابند بنانا نہ شریعت کا تقاضا ہے اور نہ عقل و دانش اس کی متحمل ہے۔
اس پس منظر میں محترم جاوید غامدی صاحب اور ان کے رفقاء سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ حضرت مولانا حمید الدین فراہیؒ کے استدلال و استنباط اور ان کے قائم کردہ اصولوں کی اہمیت سے انکار نہیں اور اہل علم کے درمیان مسلمہ حدود کے دائرہ میں ان سے استفادہ کی ضرورت سے بھی ہم صرف نظر نہیں کر رہے۔ مگر ان اصولوں کا اطلاق ماضی کے ہر دور کے اہل علم پر کر کے پوری امت کے اہل علم کے تعامل اور مسلسل طرز عمل کی نفی کر دینا بھی دانش مندی کا تقاضا نہیں۔
اس سلسلہ میں تیسری گزارش ہے کہ جس کی طرف ہم اپنے سابقہ مضامین میں اصولی فقہاء اور عملی فقہاء کی اصطلاح کے ساتھ اشارہ کر چکے ہیں کہ اصول وضع کرنا ایک مختلف عمل ہے اور سوسائٹی کے عملی مسائل پر ان کا اطلاق کر کے قواعد و احکام مستنبط کرنا اس سے مختلف عمل کا نام ہے۔ آج کی اصطلاح میں اسے دستور سازی اور قانون سازی کے اصولی کام اور سوسائٹی میں عملی طور پر اس کے نفاذ کے عدالتی عمل کے درمیان فرق سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اس فرق کو ملحوظ نہ رکھنے سے بسا اوقات مشکلات پیدا ہوتی ہیں اور عملی مشکلات کا لحاظ نہ کر کے صرف اصول کی بنیاد پر فیصلے کرتے چلے جانے سے ایسی الجھنیں جنم لیتی ہیں جن کا حل بظاہر مشکل نظر آنے لگتا ہے۔ اس اصولیت محضہ کا اظہار سب سے پہلے خوارج نے کیا تھا جنہوں نے اپنے ذوق کے مطابق کچھ اصول وضع کیے اور ان اصولوں پر اس قدر سختی دکھائی کہ بعض حضرات نے صحابہ کرامؓ تک کی تکفیر کر ڈالی۔ مثلاً انہوں نے حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان بپا ہونے والی صفین کی جنگ مین حضرت علیؓ کی طرف سے تحکیم پر راضی ہونے سے اختلاف کرتے ہوئے ان کے لشکر سے علیحدگی اختیار کی۔ ان کی بغاوت اور علیحدگی کے بعد حضرت عبد اللہ بن عباسؓ ان کے پاس حضرت علیؓ کے نمائندہ کے طور پر گفتگو کے لیے گئے تو امام نسائی کی ’’سنن کبریٰ‘‘ کی روایت کے مطابق ان خوارج نے حضرت علیؓ پر جو اعتراضات کیے ان میں ایک یہ تھا کہ اگر حضرت معاویہؓ اور ان کے رفقاء مسلمان ہیں تو ان کے خلاف جنگ لڑنا جائز نہیں ہے۔ اور اگر وہ مسلمان نہیں ہیں تو جنگ میں ان کے قیدیوں کو غلام کیوں نہیں بنایا گیا؟ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ جنگ تو ام المومنین حضرت عائشہؓ کے ساتھ بھی ہوئی تھی، کیا تم (نعوذ باللہ) انہیں لونڈی بنانا پسند کرو گے؟ اس کا جواب خوارج کے پاس کوئی نہیں تھا چنانچہ چھ ہزار خوارج میں سے دو ہزار افراد اس بات پر ان کا ساتھ چھوڑ کر حضرت علیؓ کے کیمپ میں واپس آگئے تھے۔
اس لیے اصول، اہل علم اور شخصیات میں توازن کے حوالہ سے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ
- قرآن و سنت کے بیان کردہ قطعی اور صریح اصولوں کو ہر چیز پر فوقیت اور بالاتری حاصل ہے۔
- جو اصول اہل علم نے قرآن و سنت کی روشنی میں خود مستنبط کیے ہیں ان میں اصل مدار شخصیات پر ہے اور شخصیات کی باہمی ترجیحات ان کے وضع کردہ اصولوں میں بھی کارفرما ہوں گی۔
- ظنی اور استنباطی اصولوں اور سوسائٹی میں ان کے اطلاق و تطبیق کی عملی مشکلات دونوں کو سامنے رکھ کر احکام و ضوابط طے کیے جائیں گے۔
- بعد میں پیش آنے والی ضروریات کے لیے وضع کیے جانے والے اصولوں کا موثر بہ ماضی اطلاق ضروری نہیں ہوگا اور نہ ہی ماضی کے معاملات کا ان کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا۔
- صحابہ کرامؓ کا دور چونکہ ان سب استنباطات، استدلالات اور اجتہادات سے مقدم ہے اور وہ چشمہ نبوت سے براہ راست فیض یاب ہوئے ہیں، اس لیے قرآن و سنت کے مفہوم و مصداق کے تعین اور بعد میں آنے والے اصولوں کے تعارض و تضاد کے حل کے لیے ان کا تعامل حتمی حجت ہے۔
۳- اعلان جہاد کے لیے حکومت کی شرط
اس اصولی بحث کے بعد میں جہاد کے مسئلہ کی طرف آتا ہوں جس میں ہمارے درمیان اختلاف کا نکتہ یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے ملک یا آبادی پر کفار کا تسلط قائم ہو جائے تو کیا مسلمان آبادی یا ان کے علماء کسی باضابطہ حکومت کے قیام کے بغیر اس تسلط کے خلاف جہاد کر سکتے ہیں؟ میں نے عرض کیا تھا کہ ایسی صورت میں علماء کرام کو جہاد کے اعلان کا حق حاصل ہے اور ان کے اعلان کی بنیاد پر لڑی جانے والی جنگ شرعاً جہاد کہلائے گی۔ جیسے جنوبی ایشیا میں برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف، الجزائر میں فرانسیسی استعمار کے تسلط کے خلاف، اور افغانستان میں روسی استعمار کے تسلط کے خلاف آزادی کی جنگ علماء کے فتویٰ پر جہاد کے عنوان سے لڑی گئی ہے۔ مگر معز امجد ان میں سے کسی جنگ کو جہاد قرار دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور انہوں نے جواب میں فرمایا ہے کہ قرآن کریم نے ان کے بقول مسلمانوں کی آبادی پر کافروں کے تسلط کی صورت میں دو ہی راستے بتائے ہیں۔ پہلا راستہ یہ کہ اگر ہجرت کا راستہ اور مقام موجود ہو تو وہ وہاں سے ہجرت کر جائیں۔ اور دوسرا یہ کہ اگر ہجرت قابل عمل نہ ہو تو صبر و شکر کر کے بیٹھے رہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے حالات کی تبدیلی کا انتظار کریں۔ انہوں نے اس سلسلہ میں سورۃ النساء، سورۃ الانفال اور سورۃ الاعراف کی بعض آیات کریمہ کا حوالہ بھی دیا ہے۔
مگر افسوس ہے کہ وہ مسئلہ کی نوعیت ہی کو سرے سے نہیں سمجھ سکے۔ کیونکہ ان آیات کریمہ میں ان مسلمانوں کے لیے احکام بیان کیے گئے ہیں جو کافروں کی سوسائٹی میں مسلمان ہوگئے ہیں اور ان کے زیر اثر رہ رہے ہیں۔ ان کے لیے حکم یہ ہے کہ اگر وہ وہاں سے ہجرت کر سکتے ہیں تو نکل جائیں ورنہ صبر و حوصلہ کے کے ساتھ حالات کی تبدیلی کا انتظار کریں۔ جبکہ ہم جس صورت پر بحث کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی پر باہر سے آکر کافروں نے تسلط جما لیا ہے اور مسلمان اکثریت پر کافر اقلیت کا جبر و اقتدار قائم ہوگیا ہے اس صورت میں محترم غامدی اور ان کے تلامذہ ہی مسلم اکثریت کو یہ مشورہ دے سکتے ہیں کہ وہ اپنا علاقہ کافر غالبین کے حوالہ کر کے وہاں سے چلے جائیں یا ان کے جبر و ظلم کو خاموشی کے ساتھ برداشت کرتے جائیں۔ ورنہ ہمیں تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اس سے برعکس رہنمائی ملتی ہے۔
یمن کا علاقہ جناب نبی اکرمؐ کے دور میں مسلم مملکت میں شامل ہوگیا تھا اور شہر بن باذانؓ کو رسول اللہؐ نے اپنی طرف سے وہاں کا گورنر مقرر کر دیا تھا۔ ان کے علاوہ یمن کے مختلف علاقوں میں حضرت علیؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ، اور دوسرے عمّال کا تقرر کیا تھا۔ مگر اسود عنسی نے نبوت کا دعویٰ کر کے صنعا پر چڑھائی کی اور شہر بن باذانؓ کو قتل کر کے یمن کے دارالحکومت پر قبضہ کر لیا۔ مقتول گورنر کی بیوی کو زبردست اپنے حرم میں داخل کیا، یمن کے مختلف علاقوں سے جناب نبی اکرمؐ کے مقرر کردہ عاملوں کو نکال دیا، اور اس طرح یمن کا صوبہ اسلامی حکومت سے نکل کر کافروں کے قبضے میں چلا گیا۔ اس پر تین حضرات حضرت فیروز دیلمیؓ، حضرت قیس بن مکشوحؓ، اور حضرت دادویہؓ نے باہمی مشورہ کر کے گوریلا طرز جنگ پر شبخون مارنے کا پروگرام بنایا۔ مقتول مسلمان گورنر شہر بن باذانؓ کی بیوی سے جو اسود عنسی نے زبردستی اپنے حرم میں داخل کر رکھی تھی، ان تینوں حضرات نے رابطہ کر کے ساز باز کی جس کے تحت اس نے رات کو اسود عنسی کو بہت زیادہ شراب پلا دی، ان حضرات نے محل کی دیوار میں نقب لگا کر اندر داخل ہونے کا راستہ نکالا اور رات کی تاریکی میں اسود عنسی اور اس کے پہرہ داروں کو قتل کر کے اس کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔ یہ گوریلا کاروائی تھی اور مسلح کاروائی تھی۔ اس میں معز امجد صاحب کو یقیناًً کچھ اخلاقی خرابیاں نظر آرہی ہوں گی اور بلا ضرورت قتل و غارت بھی دکھائی دیتی ہوگی۔ لیکن عملاً یہ سب کچھ ہوا جس کے نتیجہ میں یمن پر مسلمانوں کا اقتدار دوبارہ بحال ہوا ۔ اور جناب نبی اکرمؐ کو جب ان کے وصال سے صرف دو روز قبل وحی کے ذریعہ اس کارروائی کی خبر ملی تو آپؐ نے اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے صحابہ کرامؓ کو یہ خوشخبری سنائی فاز فیروز کہ فیروز اپنے مشن میں کامیاب ہوگیا ہے۔ اس کے بعد حضرت فیروز دیلمیؓ جب اس کامیابی کی خبر لے کر یمن سے مدینہ منورہ پہنچے تو جناب نبی اکرمؐ کا انتقال ہو چکا تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی رپورٹ خلیفۂ اول حضرت صدیق اکبرؓ کو پیش کی اور انہوں نے اس پر اطمینان اور مسرت کا اظہار فرمایا۔
اس لیے محترم معز امجد صاحب سے عرض ہے کہ جن آیات کریمہ سے انہوں نے استدلال کیا ہے ان کا مصداق یہ نہیں ہے بلکہ اس کی عملی شکل وہی یمن والی ہے کہ جب کسی مسلمان ملک پر کافروں کا تسلط قائم ہو تو مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس تسلط سے نجات حاصل کرنے کے لیے جو صورت بھی اس وقت کے حالات کی روشنی میں اختیار کر سکیں اس سے گریز نہ کریں۔ اور وہ کافر و ظالم قوت کے جابرانہ تسلط کے خلاف مزاحمت کی جو صورت بھی اختیار کریں گے وہ حضرت فیروز دیلمیؓ کی اس گوریلا کاروائی اور شبخون کی طرح جہاد ہی کہلائے گی۔
۴- زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکسیشن
زکوٰۃ کے بارے میں جناب جاوید غامدی نے فرمایا تھا کہ اسلامی مملکت میں اجتماعی معیشت کے نظام کو چلانے کے لیے زکوٰۃ ہی کا نظام کافی ہے اس کے علاوہ اسلام نے حکومت کو اور کوئی ٹیکس لگانے کی اجازت نہیں دی۔ اس پر میں نے عرض کیا تھا کہ یہ درست ہے کہ اگر زکوٰۃ اور دیگر شرعی واجبات کا نظام صحیح طور پر قائم ہو جائے تو معاشرہ کی اجتماعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اور کوئی ٹیکس لگانے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ اور یہ بھی درست ہے کہ ٹیکسوں کا مروجہ نظام سراسر ظالمانہ ہے جس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی وقت قومی ضروریات زکوٰۃ اور بیت المال کی دیگر شرعی مدات سے پوری نہ ہوں تو کیا حکومت وقتی ضرورت کے لیے کوئی اور ٹیکس جائز حد تک لگانے کی مجاز ہے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں ممانعت کی کوئی دلیل ہمارے سامنے نہیں ہے۔ اگر کوئی دلیل غامدی صاحب کے پاس موجود ہو تو وہ رہنمائی فرمائیں۔
اس کے جواب میں معز امجد صاحب نے قرآن کریم کی بعض آیات اور جناب نبی اکرمؐ کے بعض ارشادات سے استدلال کیا ہے مگر یہ استدلال ان کے موقف کی تائید نہیں کرتا۔ مثلاً انہوں نے سورۃ التوبہ کی آیت ۵ کا حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر وہ توبہ کر لیں، نماز کا اہتمام کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں تو ’’فخلوا سبیلہم‘‘ ان کی راہ چھوڑ دو۔ یہاں ان کی راہ چھوڑ دو سے انہوں نے استدلال کیا ہے کہ ان سے اور کوئی مالی تقاضہ کرنا درست نہیں ہوگا۔ مگر اس کی وضاحت میں مسلم شریف کی جو روایت انہوں نے پیش کی ہے اس میں جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور میری رسالت کی شہادت دے دیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ اور جب وہ ایسا کریں تو ان کی جانیں اور ان کے اموال مجھ سے محفوظ ہو جائیں گے۔ یہاں اموال کے محفوظ ہو جانے کا مفہوم معز امجد صاحب نے یہ بیان کیا ہے کہ ان سے مزید کوئی مالی تقاضہ نہیں ہو سکے گا۔ اگر ان کے بیان کردہ مفہوم کو صحیح سمجھ لیا جائے تو بھی اس روایت میں ’’الا بحقھا‘‘ کی استثنا موجود ہے جو خود انہوں نے بھی نقل کی ہے۔ جس سے یہ بات متعین ہو جاتی ہے کہ اسلام کے حقوق کے حوالہ سے زکوٰۃ کے علاوہ بھی مال کا تقاضہ مسلمانوں سے کیا جا سکتا ہے۔ پھر انہوں نے ابن ماجہ کی یہ روایت پیش کی ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ مال میں زکوٰۃ کے سوا کوئی حق نہیں ہے۔ لیکن ساتھ ہی ترمذی کے حوالہ سے جناب نبی اکرمؐ کا یہ ارشاد بھی نقل کر دیا ہے کہ مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق موجود ہے۔
اس لیے میرے خیال میں یہ آیات اور روایات غامدی صاحب کے موقف کی بجائے ہمارے موقف کی تائید کرتی ہیں کہ ضرورت پڑنے پر زکوٰۃ کے علاوہ مزید ٹیکس بھی اسلامی حکومت کی طرف سے عائد کیا جا سکتا ہے۔
اس سلسلہ میں مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کی ’’اسلامی معاشیات‘‘ اور مولانا حفظ الرحمان کی ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ کا حوالہ دوں گا جس میں انہوں نے ’’ضرائب‘‘ اور ’’نوائب‘‘ کے عنوان سے اس مسئلہ پر بحث کی ہے اور حضرت علیؓ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ، ۔۔۔۔۔۔ امام ابن حزم اندلسیؒ اور فقہائے احناف میں سے صاحب ہدایہؒ اور علامہ ابن حاثمؒ صاحب فتح القدیر کے ارشادات و تصریحات کے ساتھ یہ بات واضح کی ہے کہ اجتماعی ضروریات مثلاً نہر کھودنے، دفاعی تیاریوں، فوج کی تنخواہ، اور قیدیوں کی رہائی وغیرہ کے لیے زکوٰۃ کے علاوہ مزید ٹیکس لگائے جا سکتے ہیں۔ البتہ ہنر مندوں اور کاروباری لوگوں پر ان کے ہنر یا کاروبار کے حوالہ سے جو ٹیکس لگائے جاتے ہیں وہ ظالمانہ ہیں اور شریعت میں ان کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی علامہ ابن ہمام حنفیؒ لکھتے ہیں کہ
’’ہمارے زمانے میں یہ عموماً جو محصول وصول کیے جاتے ہیں چونکہ یہ ظلماً وصول کیے جاتے ہیں اس لیے ظلم کے ازالہ کا جتنا کسی کو موقع مل سکے اس کے لیے بہتر ہے۔‘‘
چنانچہ ٹیکسوں کے باب میں یہ بحث تو موجود ہے کہ کون سا ٹیکس جائز ہے اور کونسا ناجائز۔ اور یہ مسئلہ بھی بحث طلب ہے کہ وصولی کا کون سا طریقہ صحیح ہے اور کون سا غلط ہے۔ لیکن اصولی طور پر قومی ضروریات کے لیے زکوٰۃ کے علاوہ اسلامی حکومت جائز حد تک دیگر ٹیکس بھی لگا سکتی ہے اور اس کی کوئی واضح شرعی ممانعت موجود نہیں ہے۔
۵- فتویٰ کا آزادانہ حق
فتویٰ کے بارے میں غامدی صاحب نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ علماء کرام کے آزادانہ فتوے خرابیاں پیدا کر رہے ہیں اس لیے فتویٰ دینے کے حق کو ریاستی قوانین کے تابع ہونا چاہیے۔ اسی پس منظر میں انہوں نے بنگلہ دیش ہائی کورٹ کے اس حالیہ فیصلے کو صدی کا بہترین فیصلہ قرار دیا ہے جس میں علماء کرام کے آزادانہ طور پر فتویٰ دینے کے حق کو سلب کر لینے کی بات کی گئی ہے۔ اس پر میں نے عرض کیا تھا کہ غامدی صاحب کا یہ ارشاد فتویٰ کے مفہوم اور اس حوالہ سے امت کے اجتماعی تعامل کے منافی ہے جس پر ہر دور میں جمہور علماء کا عمل رہا ہے۔ میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ بعض غیر ذمہ دار حضرات کے فتوے خرابیوں کا باعث ضرور بن رہے ہین جس طرح عدالتوں میں ہر سطح پر رشوت اور بدعنوانی عام ہو جانے پر سب ججوں سے فیصلہ کرنے کا حق واپس لینے کی بات قرین انصاف نہیں ہے اسی طرح فتوؤں میں غیر ذمہ دارانہ رجحان بڑھنے پر تمام علماء کرام سے فتویٰ کا حق سلب کر لینا بھی قرین قیاس نہیں ہے۔
اس کے جواب میں معز امجد صاحب نے طویل بحث کی ہے جس کا خلاصہ ہمارے خیال میں یہ ہے کہ علماء کرام کے جو فتاویٰ پارلیمان اور عدالت کے معاملات میں رخنہ ڈالتے ہیں وہ اجتماعی نظم میں خرابی پیدا کرتے ہیں ان پر ضرور پابندی عائد ہونی چاہیے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات فتویٰ کے مفہوم اور اس کے دائرہ کار دونوں کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ اس لیے کہ فتویٰ کہتے ہی کسی مسئلہ پر آزادانہ شرعی رائے کو ہیں۔ اگر کسی مسئلہ پر کوئی حاکم انتظامی فیصلہ دے گا تو وہ شرعی اصطلاح میں ’’امر‘‘ کہلائے گا۔ اور کوئی عدالت فیصلہ صادر کرے گی تو اسے ’’قضا‘‘ کہا جائے گا۔ جبکہ اگر کسی سوال پر کوئی عالم دین اپنے علم و تجربہ کی روشنی میں شرعی رائے دے گا تو وہ ’’فتویٰ‘‘ قرار پائے گا، اس میں سے اگر آزادانہ رائے کا عنصر نکال دیا جائے تو وہ سرے سے فتویٰ ہی نہیں رہتا۔ وہ یا تو حکم بن جائے گا یا قضا کے زمرہ میں شامل ہو جائے گا۔ اس لیے فتویٰ کے طور پر باقی رکھنے کا ناگزیر تقاضہ ہے کہ اس کی آزادی بھی قائم رہے۔
اسی طرح فتویٰ کا دائرہ کار صرف شرعی رائے کا اظہار ہے، کسی انتظامی حکم کو منسوخ کرنے یا کسی عدالت کے فیصلے کو نامعلوم قرار دینے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے وہ کسی صورت میں بھی انتظامیہ اور عدلیہ کے لیے چیلنج نہیں بن سکتا اور نہ ہی اس سے اجتماعی نظام میں کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے۔ اجتماعی نظم میں خرابی وہاں پیدا ہوگی جہاں انتظامیہ اور عدلیہ لوگوں کی شرعی ضروریات پوری کرنے میں ناکام رہیں گی اور لوگ ان سے مایوس ہو کر علماء کرام کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہوں گے جیسا کہ آج کل اکثر مسلم ممالک میں ہو رہا ہے۔ مگر اس کی ذمہ داری فتویٰ کے نظام پر نہیں بلکہ عدالتی اور انتظامی سسٹم پر عائد ہوتی ہے۔ اس لیے کہ کسی مسلم معاشرہ کا اجتماعی نظم اگر اپنے افراد کو شریعت کے مطابق عدالتی اور انتظامی احکامات فراہم نہیں کر رہا اور مسلمان اپنے دین پر عملدرآمد کے خواہش مند ہیں تو عام مسلمانوں کو شرعی مسئلہ پوچھنے اور علماء کو اس کا جواب دینے کے حق سے محروم کرنا اس سسٹم کو مستحکم کرنے کے مترادف ہوگا جو ایک مسلمان معاشرہ کو غیر اسلامی نظام کے تابع رکھنا چاہتا ہے۔ جس کی کم از کم جاوید احمد غامدی صاحب جیسے صاحب علم سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ مثلاً بنگلہ دیش کا معاملہ لے لیجیے جہاں دستوری طور پر سیکولر نظام نافذ ہے اور عدالتی سسٹم بھی اسی نظام کے تابع ہے۔ اس لیے اس سسٹم میں علماء کو پابند کرنا کہ وہ کسی معاملہ میں شرعی رائے کا اظہار بھی ریاستی قوانین کے دائرہ سے ہٹ کر نہ کریں، ایک سیکولر نظام کو تقویت دینے اور دینی اقدار کو مزید کمزور کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اکثر مسلم ممالک میں اس وقت عملاً سیکولر نظام نافذ ہے۔ خود ہمارے ہاں پاکستان میں بھی دستوری طور پر اسلامی ریاست ہونے کے باوجود عملی نظام کی بنیادی سیکولر ہیں۔ حتیٰ کہ ہماری عدالتوں میں بھی برطانوی دور کا نو آبادیاتی نظام بدستور چلا آرہا ہے۔ بلکہ ترکی کی مثال اس سے زیادہ واضح ہے کہ وہاں شرعی احکام پر عمل کرنے کی ہی سرے سے ممانعت ہے۔ ان ممالک میں اگر کوئی مسلمان شہری قرآن و سنت کے احکام اور شرعی ضوابط کے مطابق زندگی گزارنا چاہتا ہے تو اس کی واحد صورت یہ ہے کہ وہ علماء کرام سے دریافت کر کے اس کے مطابق عمل کرے۔ اور اکثر مسلم ممالک میں شرعی احکام و قوانین کی وضاحت اور کسی حد تک ان پر عملدرآمد کا یہی ایک آخری ادارہ باقی رہ گیا ہے۔ کیا محترم جاوید احمد غامدی صاحب اور ان کے شاگردانِ گرامی مولوی کی مخالفت اور اسے نیچا دکھانے کے شوق میں سیکولر سسٹم کے مقابل اس آخری مورچے کو بھی گرا دینا چاہتے ہیں؟