افغان قونصل جنرل ملا رحمت اللہ کاکازادہ نے یہ بتا کر کم از کم مجھے تو حیران کر دیا کہ دو سال قبل دوبئی میں مختلف ملکوں کی مصنوعات کی بین الاقوامی نمائش ہوئی تھی جس میں لیدر، قالین اور کشیدہ کاری کے شعبوں میں ۳۴ ممالک میں افغان مصنوعات سرفہرست رہی تھیں اور اس پر ایک پڑوسی ملک کے تاجر کف افسوس ملتے رہ گئے تھے۔ حیرانی اور تعجب کے ساتھ مجھے خوشی بھی ہوئی کہ مسلسل جنگ کی تباہ کاریوں اور مکمل بے سروسامانی کے ماحول میں اگر افغان صنعت کار اور ہنرمند بین الاقوامی نمائش میں اپنے لیے نمایاں جگہ بنا سکتے ہیں تو سازگار فضا اور اسباب و وسائل کی فراہمی کی صورت میں وہ یقیناً اس سے کہیں بہتر پوزیشن حاصل کر سکتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ افغان صرف لڑنے مرنے کے میدان کے لوگ نہیں بلکہ ہنر اور صنعت کے شعبوں میں بھی اپنی ذہانت اور بہادری کا سکہ منوا سکتے ہیں بشرطیکہ انہیں مناسب ماحول میسر ہو، ضروری اسباب و وسائل مہیا ہوں، اور حوصلہ افزائی و قدر دانی کی فضا فراہم ہو جائے۔ افغانوں کے بارے میں یہ بات تو عام مشاہدہ کی ہے کہ وہ محنت اور جفاکشی کے عادی ہیں اور محنت و مشقت کے کسی کام کو اپنے لیے عار کا باعث نہیں سمجھتے۔ خود ہمارے ہاں محنت و مشقت کے جن کاموں کو افغانوں نے سنبھال رکھا ہے وہ شاید کوئی دوسرا طبقہ اس طرح سنبھال سکے۔ جوتے پالش کرنے سے لے کر لکڑیاں کاٹنے تک، رات کو چوکیدارہ کرنے اور سڑکوں کی روڑی کوٹنے تک کے کام ان کے کھاتے میں ہیں۔ کبھی کبھی بعض دوست مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہمارے معاشرہ میں افغانوں نے ہر طرف ڈیرے ڈال رکھے ہیں یہ واپس کیوں نہیں جانتے؟ لیکن جب ان سے عرض کیا جاتا ہے کہ محنت و مشقت کے جو کام ان افغانوں نے اپنے حصہ میں لے رکھے ہیں ان کے جانے کے بعد یہ کام کون سنبھالے گا، اور اگر کوئی سنبھال بھی لے تو اس دل جمعی، دیانت داری، محنت اور یکسوئی کے ساتھ ان کاموں کو اور کون کر پائے گا؟
الغرض افغان قوم جہاں جنگجو ہے وہاں محنت و مشقت کی خوگر بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ صنعت و حرفت اور ہنرمندی کے میدان میں بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے لیکن ان کی زندگی کا یہ پہلو اکثر دنیا کی نگاہوں سے اوجھل ہے۔ اس لیے ہمارا خیال ہے کہ اگر اس سمت ان کی صحیح راہنمائی ہو اور انہیں حوصلہ افزائی اور وسائل فراہم ہو جائیں تو بہت جلد وہ ترقی یافتہ یا کم از کم ترقی پذیر ممالک میں نمایاں جگہ بنا سکتے ہیں۔
طالبان حکومت نے افغانستان کی تاریخ میں پہلی بار افغان عوام سے اسلحہ واپس لے کر اور شرعی حدود عملاً نافذ کر کے افغان معاشرہ کو باہمی قتل و قتال سے نجات دلائی ہے۔ اور خدا کرے کہ شمال کی جنگ جلد اپنے منطقی نتیجہ تک پہنچ جائے تو اس کے بعد بلاشبہ افغان معاشرہ ایک پر امن معاشرہ کے طورپر نئے دور کا آغاز کرے گا۔ پھر افغان قومی صلاحیتیں یکسوئی کے ساتھ تعمیر نو اور صنعت و حرفت کے لیے وقف ہوں گی اور نہ صرف افغانستان ایک مثالی اسلامی اور فلاحی ریاست کی صورت میں ابھرے گا بلکہ پاکستان، ایران اور وسطی ایشیا کی ریاستیں بھی افغان قوم کی ان صلاحیتوں کے نتائج و ثمرات سے اپنے اپنے حوصلہ اور ظرف کے مطابق فائدہ اٹھا سکیں گی لیکن اس کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
جو ملک اور قوم اس وقت آنے والے حالات کا صحیح طور مشاہدہ کر کے اس کے مطابق منصوبہ بندی کرے گی وہی مستقبل کے نقشہ میں اپنے لیے صحیح جگہ حاصل کر سکے گی۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ موجودہ عالمی نظام خود اپنے پھیلائے ہوئے حکومت و فریب کے جال میں بری طرح الجھ کر رہ گیا ہے۔ اس کی پسپائی بلکہ موت کا وقت قریب سے قریب تر ہوتا جا رہا ہے اور اس کی جگہ ایک نیا نظام ابھر رہا ہے جس کی بنیاد یقین و ایمان، آسمانی تعلیمات، دینی اخلاقیات، سودی اور استحصالی معیشت کے خاتمہ، اور انسانیت کی بھلائی پر ہے۔ اور افغانستان کا کردار اس میں ہراول دستہ کا نظر آتا ہے۔ اس لیے پاکستانی تاجروں، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کو آنکھیں کھولنی چاہئیں اور تحفظات کے دائرہ سے نکل کر کھلی فضا میں موجودہ حالات اور مستقبل کے امکانات کا جائزہ لینا چاہیے۔ افغانستان میں اس وقت سرمایہ کاری کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ وہاں کی مارکیٹ اپنے پاکستانی بھائیوں کے انتظار میں ہے، بند کارخانے پاکستانی صنعت کاروں کی راہ دیکھ رہے ہیں، اور زیر زمین چھپے ہوئے معدنیات کے بیش قیمت اور وسیع ذخائر پاکستان کے ہنرمندوں اور سرمایہ کاروں کو دعوت عمل دے رہے ہیں۔
ایک معاملہ میں میرے سوال پر افغان قونصل جنرل ملا رحمت اللہ کاکازادہ نے یہ بھی بتایا کہ وہ مئی کے اوائل میں کراچی میں افغان مصنوعات کی نمائش کا اہتمام کر رہے ہیں اور اس سلسلہ میں مختلف حلقوں سے رابطے قائم کر رہے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں افغان مصنوعات کی نمائش ہو جبکہ پاکستانی مصنوعات کا افغانستان میں عمومی تعارف کرانے کے لیے کابل، قندھار اور دیگر شہروں میں ان کی نمائش کا اہتمام کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے طالبان حکومت ہر ممکن سہولیات مہیا کرنے کے لیے تیار ہے۔ طالبان حکومت کے ایک اور اعلیٰ افسر نے کہا کہ مغربی ممالک کی بہت سی کمپنیاں اور ادارے افغانستان میں سرمایہ کاری کے لیے لائن میں لگے ہوئے ہیں مگر ہم ان کو راستہ نہیں دے رہے۔ ہماری خواہش ہے کہ اس کام کے لیے مسلم ممالک آگے آئیں اور ان میں سے بھی ہماری سب سے پہلی ترجیح پاکستان ہے لیکن ہم زیادہ دیر تک انتظار نہیں کر سکیں گے اور نہ ہماری ضروریات ہمیں زیادہ دیر تک انتظار کی اجازت دیں گی۔ اس لیے اگر ہم اس خلا کو پر کرنے کے لیے مغربی ممالک اور دیگر غیر مسلم ممالک کے مالیاتی اداروں کو راستہ دینے پر آخر کار مجبور ہوگئے تو اس سلسلہ میں غفلت سے کام لینے والے ہمارے مسلمان بھائی اس کی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہو سکیں گے۔
ملا رحمت اللہ کاکازادہ نے کہا کہ افغانستان میں سرمایہ کاری کے لیے ڈاکٹر سلطان بشیر محمود صاحب کا گروپ زیادہ بہتر اور منظم طریقہ سے کام کر رہا ہے، خواہش مند حضرات ان سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ اور اسلام آباد میں افغان سفارتخانہ کے علاوہ کراچی میں خود ان سے بھی اس پتہ پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ مکان نمبر ۳۳/۱۱، گلی نمبر ۲۷، خیابان شمشیر فیز V ڈیفنس سوسائٹی کراچی۔