وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف میاں محمد نواز شریف کی کابینہ کے متحرک وزراء میں شمار ہوتے ہیں اور اپنی وزارت کے مختلف شعبوں میں کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے حج کے سرکاری انتظامات کو بہتر بنانے میں نیک نامی پائی ہے اور گزشتہ سال کے حج انتظامات کو کم و بیش سبھی حلقوں میں سراہا گیا ہے۔ وہ قومی سطح پر تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام اور مشائخ پر مشتمل مشترکہ فورم ’’قومی علماء و مشائخ کونسل پاکستان‘‘ کے قیام میں بھی کامیابی حاصل کر چکے ہیں جو اس حوالہ سے یقیناًایک مثبت پیش رفت ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ ملک بھر میں نمازوں کے لیے یکساں اوقات کا نظام ترتیب دینے کے لیے سرگرم عمل ہیں اور رمضان و عید کے چاند کے بارے میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ نمازوں کے لیے یکساں اوقات کے تعین کی مہم تو ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہمارے خیال میں نہ یہ ضروری ہے اور نہ ہی قابل عمل ہے۔ البتہ رؤیت ہلال کے سلسلہ میں اتفاق رائے کا ماحول پیدا کرنے کے لیے ان کی مساعی قابل قدر ہیں اور ہم ان کی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں۔
ان دونوں حوالوں سے اپنے ایک مخدوم و محترم بزرگ استاذ العلماء حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ کا تذکرہ کرنا چاہوں گا، وہ پرانے اور بزرگ علماء کرام میں سے تھے۔ گوجرانوالہ کی قدیم مرکزی جامع مسجد کے خطیب اور مدرسہ انوار العلوم کے مہتمم تھے۔ والد بزرگوار حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کے استاذ گرامی تھے اور میں نے والد محترمؒ کو ان کا بے حد احترام کرتے ہوئے اور ان سے مختلف امور میں ہمیشہ راہنمائی حاصل کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ مجھے بحمد اللہ تعالیٰ ۱۹۶۹ء سے ۱۹۸۲ء تک مسلسل تیرہ سال مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کی خطابت میں ان کی نیابت کا شرف حاصل رہا ہے اور ان کی وفات کے بعد سے اب تک یہ ڈیوٹی سر انجام دے رہا ہوں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل جمعیۃ العلماء ہند کے سرگرم راہنماؤں میں شمار ہوتے تھے، اس دور میں جمعیۃ کے ضلعی صدر بلکہ ایک مرحلہ میں کانگریس کے ضلعی صدر بھی رہے ہیں۔ سیاسی، علمی اور فقہی معاملات میں ان کی رائے کو ہمارے ہاں ہمیشہ سند اور دلیل کا درجہ حاصل رہا ہے۔ رؤیت ہلال اور دینی و سیاسی تحریکات کے معاملہ میں ان کے دور میں مرکزی جامع مسجد (شیرانوالہ باغ) گوجرانوالہ کو پورے علاقے میں وہی مقام حاصل تھا جو پشاور میں مسجد قاسم علی خان کو حاصل ہے بلکہ وہ مسجد قاسم علی خان کے سابق خطیب حضرت مولانا مفتی عبد القیوم پوپلزئیؒ کے دوستوں میں سے بھی تھے۔
میرے سامنے کی بات ہے کہ گوجرانوالہ میں ایک انتہائی نیک دل پولیس افسر سٹی انسپکٹر کے طور پر تعینات ہوئے۔ وہ دیندار اور خدا ترس آدمی تھے، علماء کرام کے ساتھ زیادہ میل جول رہتا تھا، پکے نمازی تھے اور اپنے عملہ کو بھی پابند رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ انہوں نے ایک موقع پر تجویز پیش کی کہ وہ شہر میں نمازوں کے لیے ایک ہی وقت مقرر کرانا چاہتے ہیں تاکہ اذان اور نماز ایک وقت میں ہوں اور نماز کے لیے بازار بند ہو جایا کریں۔ اکثر لوگوں نے ان کے اس جذبہ کو سراہا اور ان کی حمایت کی مگر مولانا مفتی عبد الواحدؒ نے اس سے اختلاف کیا۔ انہوں نے کہا کہ جمعہ کی نماز کے علاوہ کسی اور نماز کے لیے بازار بند کرانا شرعاً ضروری نہیں ہے۔ اور یہ لوگوں کو خواہ مخواہ حرج میں ڈالنے والی بات ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے نمازوں کے اوقات میں گھنٹوں کی گنجائش دی ہے کہ اس دوران کسی وقت بھی نماز ادا کی جا سکتی ہے تو اس گنجائش کو محدود کر کے لوگوں کو ایک ہی وقت میں نماز ادا کرنے پر مجبور کرنا شریعت کا تقاضہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے علاقہ یعنی شیرانوالہ باغ بازار تھانے والا کے اردگرد مساجد میں نمازوں کے اوقات میں باہمی مشورہ کے ساتھ فرق رکھا ہوا ہے کہ دکاندار حضرات باری باری کسی نہ کسی مسجد میں جا کر باجماعت نماز ادا کر لیں۔
میری ذاتی رائے انسپکٹر صاحب کے حق میں تھی لیکن چونکہ میں سرکاری اجلاسوں میں حضرت مفتی صاحبؒ کی نمائندگی کرتا تھا اس لیے انہوں نے مجھے پابند کیا کہ اگر کسی اجلاس میں یہ بات آئی تو تم نے اس کی مخالفت کرنی ہے اور ان کو سمجھانا ہے کہ ایسا کرنا نہ تو شرعاً ضروری ہے اور نہ ہی حکمت کا تقاضہ ہے۔ مفتی صاحبؒ کی بات میں وزن تھا اس لیے انسپکٹر صاحب کو بات جلد سمجھ آگئی اور کسی اجلاس اور فیصلے کی نوبت نہ آئی۔
رؤیت ہلال کے بارے میں صورتحال یہ تھی کہ مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ اسی طرح رؤیت ہلال کی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتی تھی جیسا کہ پشاور کی مسجد قاسم علی خان ابھی تک اپنی روایت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ رمضان المبارک اور عیدین کا چاند دیکھنے کے لیے شیرانوالہ باغ کی مسجد میں علماء کرام جمع ہو جایا کرتے تھے اور تمام مکاتب فکر دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث حتیٰ کہ شیعہ علماء بھی وہیں رجوع کرتے تھے۔ رات گئے تک شہادتوں کا انتظار رہتا تھا، گواہ لائے جاتے تھے، ان سے شہادت سنی جاتی تھی، رد و جرح ہوتی تھی اور اکثر اوقات سحری کے لگ بھگ فیصلہ ہوا کرتا تھا۔ پورے علاقہ میں جامع مسجد کے فیصلے کا انتظار کیا جاتا تھا، فون کے ذریعہ بھی رابطہ کیا جاتا تھا لیکن فون کی سہولت کم ہوتی تھی اس لیے بہت سے علاقوں کے لوگ خود جامع مسجد میں آکر بیٹھ جاتے تھے کہ فیصلہ سن کر واپس جائیں گے۔ حضرت والد گرامی مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ گکھڑ میں رہتے تھے مگر مسلسل رابطہ رکھتے تھے اور کوئی فیصلہ کرنے سے قبل دریافت کرتے تھے کہ جامع مسجد میں کیا فیصلہ ہوا ہے؟
رؤیت ہلال کی شب مرکزی جامع مسجد میں علماء کرام کی سرگرمیاں اور گہماگہمی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ مگر جب حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ اور حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ جیسے اکابر کی مساعی سے حکومتی سطح پر مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی قائم ہوئی تو ہمارے ان دونوں بزرگوں یعنی مولانا مفتی عبد الواحدؒ اور مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے رؤیت ہلال کے سلسلہ میں قدیم سے چلا آنے والا یہ اہتمام یکسر ترک کر دیا۔ اس سے اگلے سال میں نے حضرت مفتی صاحبؒ سے دریافت کیا کہ رؤیت ہلال کے اہتمام کے لیے علماء میں سے کس کس کو بلانا ہے تو انہوں نے فرمایا کہ کوئی ضرورت نہیں ہے، اب یہ ذمہ داری مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کی ہے، وہ جو اعلان کریں گے اسی کے مطابق ہم عمل کریں گے، یہی بات حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے فرمائی۔ تب سے اسی پر ہمارے ہاں مسلسل عمل چلا آرہا ہے۔
چنانچہ ہم سردار محمد یوسف صاحب کی رؤیت ہلال کے سلسلہ میں اتفاق رائے کا ماحول پیدا کرنے کی اس کوشش کی مکمل حمایت کرتے ہوئے ان کی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں، آمین یا رب العالمین۔