ہمیں ترجیحات کا تعین کر لینا چاہیے

   
۲۶ فروری ۲۰۰۳ء

مفکر احرار چودھری افضل حق مرحوم نے لکھا ہے کہ رمضان المبارک کے دوران حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں بدر کا معرکہ پیش آیا اور مکہ مکرمہ فتح ہوا۔ لیکن ہمارے زمانے میں رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی اجتماعی سرگرمیاں معطل ہوجاتی ہیں اور کوئی ملی یا قومی مہم ہو تو آسانی کے ساتھ کہہ دیا جاتا ہے کہ اس سے رمضان المبارک کے معمولات متاثر ہوتے ہیں اس لیے یہ کام بعد میں کریں گے۔

کچھ اسی قسم کی صورتحال حج کے بارے میں بھی درپیش ہے اور اسلام کی یہ عظیم عبادت جو مسلمانوں کی اجتماعیت اور عالمگیریت کا سب سے بڑا مظہر ہے بہت سے دینی اور قوی معاملات کی ادائیگی میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ ہمیں سینٹ کے الیکشن کی تاریخ اس لیے آگے بڑھانے پڑی کہ قوم اور صوبائی اسمبلیوں کے بیشتر ارکان حج کے لیے جارہے ہیں اس لیے ان کی آمد کے بعد کی تاریخ رکھی جائے۔ ان میں سے اکثر حضرات کا یہ نفلی حج تھا لیکن ہمارے ہاں فرائض و واجبات، سنن و نوافل، مستحبات بلکہ حلال و حرام تک کی ترجیحات اس قدر بے ترتیبی اور افراتفری کا شکار ہو چکی ہیں کہ بڑے بڑے علماء اور دانشوروں کے لیے بھی اصل ترجیح و ترتیب تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔

عراق پر امریکہ کا ممکنہ حملہ اور کھلم کھلا دھمکیوں کے خلاف عالمی سطح پر مظاہرے ہوئے تو ان میں عالم اسلام کی دینی تحریکات کسی جگہ بھی دکھائی نہیں دے رہی تھیں اور دو تین مسلم شہروں کے علاوہ اکثر مظاہرے دنیائے کفر کے بڑے بڑے شہروں میں ہوئے۔ اس کی ایک وجہ یہ بیان کی جار ہی ہے کہ حج کا موقع تھا اور اکثر راہنما حج پر تشریف لے گئے تھے اس لیے مسلم ممالک میں ان مظاہروں کا اہتمام نہیں ہو سکا۔ گویا ہم نے اپنے عمل سے دنیا کو بتا دیا ہے کہ اسے ہمارے خلاف کوئی کام کرنا ہو یا کسی مسئلہ میں ہماری حمایت بھی کرنی ہو تو اس کے لیے وقت کا تعین ہماری مصروفیات و معمولات کو دیکھ کر کرنا چاہیے کہ ہم اس وقت نماز نہ پڑھ رہے ہوں، روزے سے نہ ہوں اور حج کے اعمال میں مصروف نہ ہوں۔

اگرچہ ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ نہیں ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں امریکی جارحیت اور دہشت گردی کے بعد عالم اسلام کی دینی تحریکات نے مصلحتوں کی کچھ زیادہ ہی لمبی چادر تان رکھی ہے، اس لیے ان کے اس سکوت و جمود سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی جارحیت و درندگی کے خلاف عالمی رائے عامہ کے جذبات کو منظم کرنے کا کام بائیں بازو نے سنبھال لیا ہے۔ اور جس طرح اسلامی تحریکات کے ساتھ ہمیشہ سے ہو رہا ہے کہ قربانیاں وہ دیتی ہیں لیکن ان کی قربانیوں کو کیش کرانے کے لیے کوئی اور سامنے آجاتا ہے، اس دفعہ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ ہمارے قائدین اس کی جو توجیہ بھی کریں اور جو بہانہ بھی تراشیں مگر یہ واقعہ رونما ہو چکا ہے کہ دنیا میں امریکا مخالف جذبات کو منظم کرنے کا جو کام عالم اسلام کی دینی تحریکات کی اولین ذمہ داری تھی اسے دوسروں نے سنبھال لیا ہے۔ او آئی سی کی جگہ غیر وابستہ تحریک سامنے آگئی ہے اور سٹریٹ پاور کی راہنمائی ان دانشوروں نے سنبھال لی ہے جو اس سے قبل بائیں بازو کے حوالہ سے متحرک رہے ہیں اور اب پھر انہی نظریات و افکار کا پرچم اٹھائے میدان میں آگئے ہیں۔

اگر ہماری اس گزارش کو جسارت و گستاخی پر محمول نہ کیا جائے تو ہم یہ عرض کرنے پر مجبور ہیں کہ عالم اسلام کی دینی تحریکات موجودہ عالمی کشمکش میں فٹ بال بن کر رہ گئی ہیں۔ ان دینی تحریکات نے سوویت یونیت کے خلاف جہاد میں سرگرم حصہ لیا اور لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر سوویت یونین کو نہ صرف افغانستان سے واپس جانے پر مجبور کیا بلکہ خود سوویت یونین بھی بکھر کر رہ گیا لیکن ان لاکھوں مجاہدین اور شہداء کے خود کو عالمی مارکیٹ میں کیش کس نے کرایا؟

  1. اس خون کی قیمت امریکہ نے سرد جنگ میں فتح اور دنیا کا واحد عالمی لیڈر بن جانے کی صورت میں وصول کی۔
  2. مشرقی یورپ کی ریاستوں نے اس خون کے صلے میں آزادی حاصل کی۔
  3. اسی خون نے دیوار برلن توڑی اور جرمنی متحدہ ہوا۔
  4. وسطی ایشیا کے مسلم ممالک اور بالٹک ریاستوں کو اس خون کے صدقے آزادی نصیب ہوئی۔
  5. اور پاکستان کو اسی خون کے صلے میں مغربی سرحد کا استحکام حاصل ہوا۔

مگر جب انہی خون دینے والوں نے خود اپنے خون کو اپنی مرضی سے کیش کروانا چاہا تو یہ سب کے سب محسن کش اور احسان فراموش ان کے خلاف اکٹھے ہوگئے اور ان پر ڈیزی کٹر بموں کی بارش کر دی۔ اور آج وہی معاملہ دوسرے رخ سے در پیش ہے۔ آج امریکا کے خلاف محاذ ہے، خون دینے والے اور ہیں، قربانیوں کی بھینٹ اور لوگ چڑھ رہے ہیں، سینے اور لوگوں چھلنی ہو رہے ہیں، مگر ان کی نمائندگی اور سیاسی و اخلاقی سپورٹ کا پرچم دوسروں نے سنبھال لیا ہے۔ ہمیں یہ پرچم سنبھالنے والوں سے کوئی شکایت نہیں ہے بلکہ ہمیں خوشی ہے کہ کوئی تو آگے آیا ہے، کسی نے تو ظلم و جبر اور دہشت گردی و درندگی کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور کسی کا ضمیر تو جاگا ہے۔ ہم ان مظاہروں کا خیر مقدم کرتے ہیں، غیر وابستہ تحریک کی سر براہی کانفرنس کے اعلانات کا خیر مقدم کرتے ہیں، بلکہ ہم تو یورپی یونین کی ان کوششوں پر بھی یورپی لیڈروں کے شکر گزار ہیں جو وہ عراق پر امریکہ کے حملے کو روکنے کے لیے کر رہے ہیں۔

ہماری شکایت ان سے نہیں بلکہ ہم اپنی اس نا اہل، نا عاقبت اندیش اور مصلحت کوش سیاسی قیادت کا نوحہ پڑھ رہے ہیں جو اسلام کا نام لیتی ہے، اسلام کے نام پر ووٹ حاصل کرتی ہے، اسلام کے نعرہ پر اقتدار کے ایوانوں تک بھی پہنچ جاتی ہے، اسلام کے حوالے سے سیاسی عزت و وقار کے مقامات طے کرتی ہے، مجاہدین کی خدمات اور قربانیوں کے تذکرے کرتی ہے، اور مسلم امہ کی رائے عامہ کی قیادت و رہنمائی کی بلا شرکت غیرے دعوے دار ہے، لیکن اقتدار یا اقتدار کے چانس کے لولی پاپ نے اسے اپنی اصل ذمہ داریوں سے بے پروا کر دیا ہے۔ اور امریکہ کے خلاف عالمی رائے عامہ کی راہنمائی و قیادت یا کم از کم اس میں شرکت کا چانس بھی ضائع کر دینے کے بعد اب بہانے تراش رہی ہے کہ حج کا موقع تھا اس لیے ہم یہ نہ کر سکے وہ نہ کر سکے اور اگر حج درمیان میں نہ آجاتا تو ہم یہ کردیتے وہ کر دیتے۔

تاہم اس سناٹے میں وہ لوگ غنیمت ہیں جو لوگوں کو اس ظلم و درندگی کے خلاف ابھارنے اور ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے کسی نہ کسی سطح پر کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز مجھے بورے والا کے پریس کلب میں ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا جس کا اہتمام مجلس احرار اسلام نے کیا تھا اور جس میں ’’امریکی جارحیت اور عالم اسلام‘‘ کے عنوان پر احرار رہنماؤں پروفیسر خالد شبیر احمد، سید کفیل شاہ بخاری، عبد اللطیف خالد چیمہ اور مولانا عبدالنعیم نعمانی، جبکہ ان کے علاوہ جناب سیف اللہ ایڈووکیٹ اور چودھری مسعود احمد امیر جماعت اسلامی نے بھی خطاب کیا۔ سیمینار کی صدارت معروف عالم دین مولانا قاری طیب حنفی نے کی اور مجھے بھی اس میں کچھ معروضات پیش کرنے کے لیے کہا گیا۔ مقررین نے امریکہ کے عزائم اور دھمکیوں کی مذمت کرتے ہوئے اپنے جذبات پیش کیے، عراقی عوام کے ساتھ ہم آہنگی اور یکجہتی کا اظہار کیا، مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور بے بسی کا رونا رویا، اور اسلامی تحریکوں کی قیادتوں کی بے بصیرتی اور مصلحت کوشی کا ماتم کیا۔

یہ ایک چھوٹا سا پروگرام تھا مگر میرے نزدیک غنیمت تھا اور مجھے وہاں سٹیج پر بیٹھے ہوئے وہ چڑیا یاد آ رہی تھی جس کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو ایک چڑیا اپنی چھوٹی سی چونچ میں پانی لا کر اس آگ پر ڈالتی تھی۔ وہ مسلسل اسی کام میں لگی رہی تو کسی نے پوچھا کہ کیا تمہارے اس عمل سے آگ بچھ جائے گی؟ اس نے جواب دیا کہ مجھے معلوم ہے کہ اس سے آگ کو کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر اس سے میرا فرض تو ادا ہو جائے گا کہ جتنی چونچ مجھے میرے خدا نے دے رکھی ہے میں اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہوں۔

سیمینار سے فارغ ہوئے تو ایک احرار خاندان کے فرزند محمد حنیف صوفی سے ملاقات ہوئی جو ہمارے معروف خطیب مولانا قاری عبدالحی عابد کے برادر نسبتی ہیں اور پنجابی کے اچھے شاعر ہیں۔ انہوں نے ہنگام رخصت اپنے کلام سے نوازا جس سے دل کو ڈھارس ہوئی کہ ابھی اس راکھ میں حرارت باقی ہے اور تپش محسوس ہوتی ہے، اس لیے اس راکھ کو ٹٹولتے رہو کہیں نہ کہیں سے کوئی چنگاری نکل ہی آئے گی۔ ان کا پیغام قارئین کی خدمت میں بھی پیش ہے۔

کنوں بولیے منہ نوں سیتی پھرنے آں
اپنا آپ وکاؤ کیتی پھرنے آں
جام شہادت پینا ساڈا شیوہ سی
اسی تے خورے کی شے پیتی پھرنے آں
اپنا قبلہ کعبہ چھڈ کے صوفی جی
اج فیر گوریاں پچھے نیتی پھرنے آں
آؤ ہاں اج یار بنائیے پتھر نوں
رل مل کے اج جوکاں لائیے پتھر نوں
دل ورگی کوئی چیز نئیں اس کول جدوں
کاہنوں دل دا حال سنائیے پتھر نوں
ایویں ناں توہین کرائیے شیشے دی
پتھر جئی کوئی چیز وکھائیے پتھر نوں
   
2016ء سے
Flag Counter