روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت اور بے بسی آہستہ آہستہ عالمی رائے عامہ اور بین الاقوامی اداروں کی توجہ حاصل کر رہی ہے اور ان کی داد رسی و حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، امریکی اور برطانوی وزرائے خارجہ، ہیومن رائٹس واچ کمیشن، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر عالمی اداروں اور شخصیات کی زبانوں پر اب میانمار میں کٹنے جلنے والے مسلمانوں کے حق میں کلمۂ خیر بلا جھجھک آنے لگا ہے۔ جبکہ ہمیں سب سے زیادہ اطمینان اس سلسلہ میں بنگلہ دیش کی پیش رفت سے حاصل ہوا ہے اس لیے کہ اس مسئلہ پر فطری طور ترتیب اور راستہ یہی بنتا ہے کہ بنگلہ دیش اسے اپنا مسئلہ سمجھ کر ڈیل کرے اور اس کی پشت پر پورا عالم اسلام سپورٹ کے لیے کھڑا ہو جائے۔
بنگلہ دیش حکومت کے حالیہ اقدامات اور پالیسی کا ذکر کرنے سے قبل ۱۹۷۸ء کے دوران اس مسئلہ پر جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے آرگن ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور میں ۲۸ اپریل کو شائع ہونے والا ایک ادارتی شذرہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے جو راقم الحروف کا ہی تحریر کردہ ہے۔ اس سے روہنگیا مسلمانوں کے اس المیہ کی قدامت، سنگینی اور حساسیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
’’بعض اخباری اطلاعات کے مطابق برما میں مسلمانوں پر عرصۂ حیات ایک بار پھر تنگ کر دیا گیا ہے اور انہیں وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ رابطہ عالم اسلامی کے تین کونسلروں نے برمی حکومت کے نام ایک عرضداشت میں مطالبہ کیا ہے کہ برمی مسلمانوں کا قتل عام فورًا بند کیا جائے۔ ان کونسلروں کا کہنا ہے کہ برما کے صوبہ اراکان میں گزشتہ تیس برس سے مسلمانوں پر مسلسل مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور انہیں حج بیت اللہ کے لیے مکہ مکرمہ کا سفر کرنے حتیٰ کہ خود برما میں بھی آزادی کے ساتھ چلنے پھرنے کی اجازت نہیں ہے اور برمی مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد عملاً نظر بند ہو کر رہ گئی ہے۔
ان اطلاعات سے برما کے مظلوم مسلمانوں کی حالت زار کی جو عکاسی ہوتی ہے اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ برما میں مسلمان قوم کے وجود اور تشخص کو ختم کرنے کی ایک منظم کوشش کی جا رہی ہے اور یہ بات پورے عالم اسلام بالخصوص رابطہ عالمِ اسلامی، مؤتمر عالم اسلامی اور دیگر مسلم عالمی اداروں کی فوری اور مؤثر توجہ کی مستحق ہے۔رابطہ عالم اسلامی کی طرف سے صرف تین کونسلروں کا برمی حکومت کو عرضداشت بھجوانا ایک مستحسن کارروائی ہونے کے باوجود ناکافی اقدام ہے اور ہم رابطہ عالم اسلامی کے راہنماؤں سے گزارش کریں گے کہ وہ اس سلسلہ میں مؤثر اور ٹھوس قدم اٹھائیں تاکہ برما کے مظلوم مسلمانوں کو وحشیانہ مظالم سے نجات دلائی جا سکے۔‘‘
عالمی مسلم اداروں کی خدمت میں یہ گزارش ۱۹۷۸ء کے دوران پیش کی گئی تھی مگر چار عشرے گزر جانے کے باوجود صورتحال میں کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوئی بلکہ اس دوران مسلمانوں کے قتل عام اور بے دخلی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ برما کے فوجی حکمران جنرل نیون کی فوجی حکومت نے اراکان کو روہنگیا مسلمانوں سے خالی کرانے کے لیے گیارہ باقاعدہ فوجی آپریشن کیے تھے جن میں ہزاروں افراد نے جام شہادت نوش کیا تھا اور لاکھوں لوگ ہجرت کر کے بنگلہ دیش میں پناہ گزین ہوئے تھے۔ بنگلہ دیش کی حکومت شروع سے ہی اس مسئلہ کے ساتھ منسلک ہے۔ ۱۹۷۸ء کے خوفناک آپریشن کے بعد برما کے فوجی حکمران جنرل نیون کے ساتھ بنگلہ دیشی حکومت نے ہی معاہدہ کر کے لاکھوں روہنگیا مہاجرین کی ان کے گھروں میں واپسی کی راہ ہموار کی تھی۔
اس پس منظر میں بنگلہ دیش حکومت کی طرف سے یہ اعلان خوش آئند اور حوصلہ افزا ہے کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اراکان سے بے دخل کیے جانے والے مسلمانوں کو اپنے ملک میں پناہ دے رہی ہے اور ان کے لیے چودہ ہزار کے لگ بھگ پناہ گاہیں بنائی جا رہی ہیں لیکن اس کے نزدیک یہ اس مسئلہ کا صرف عارضی حل ہے جو انسانی ہمدردی کے حوالہ سے ناگزیر ہے، جبکہ اصل حل یہ ہے کہ اراکان سے مسلمانوں کی جبری بے دخلی کو رکوانے اور اب تک بے دخل کیے جانے والوں کو ان کے گھروں میں دوبارہ آباد کرانے کے لیے میانمار کی حکومت پر دباؤ ڈالا جائے۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے گزشتہ دنوں روہنگیا پناہ گزینوں کے ایک کیمپ کا دورہ کر کے امدادی سامان تقسیم کیا اور اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے اپنی پالیسی ان الفاظ میں بیان کی:
’’وزیراعظم حسینہ واجد نے روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر میانمار (برما) کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ میانمار بنگلہ دیش آنے والے اور یہاں پہلے سے موجود روہنگیا مسلمانوں کو واپس لے۔ ہم ان کی بحالی میں تعاون کریں گے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ میانمار کے حکمرانوں نے ایک مخصوص کمیونٹی پر اتنے مظالم کیوں ڈھائے ہیں جبکہ ان کا ملک مختلف کمیونیٹیز کے افراد پر مشتمل ہے۔ بنگلہ دیش طویل عرصہ سے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف احتجاج کر رہا ہے لیکن پھر بھی روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش روانہ کیا جا رہا ہے۔ خواتین کو ریپ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، بچوں کو قتل کیا جا رہا ہے ،رکھائن (اراکان) علاقے کے گھروں کو آگ لگائی جا رہی ہے۔ حسینہ واجد نے اس موقع پر بتایا کہ بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ نے قرارداد منظور کی ہے کہ میانمار کی حکومت کو اپنے تمام شہریوں کو اپنے ملک واپس لے جانا چاہیے جس کے لیے اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے بھی میانمار حکومت پر ضابطے کے مطابق کاروائی کرنے اور انہیں واپس لینے پر دباؤ ڈال رہے ہیں اور ہم بھی میانمار حکومت کے ساتھ اس کام میں تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جب تک وہ انہیں واپس لینے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہمیں انہیں پناہ دینی ہے تاکہ وہ خوراک اور ادویات حاصل کر سکیں۔ وہ انسان ہیں، ہم انہیں واپس نہیں دھکیل سکتے، ہم ایسا نہیں کر سکتے ہم بھی انسان ہیں۔‘‘
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے صورتحال کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا ہے جس پر عالمی راہنماؤں بالخصوص مسلم حکومتوں کو سنجیدہ توجہ دینی چاہیے۔ مظلوم او ربے بس مسلمانوں کو سنبھالنا اور انہیں امداد و تعاون فراہم کرنا دنیا بھر کے مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے اور ہمارے دینی فرائض میں شامل ہے۔ لیکن اراکان سے روہنگیا مسلمانوں کی جبری بے دخلی کو مسلسل قبول کرتے چلے جانا درست نہیں ہے اس لیے کہ برما کی حکومت اور دہشت گرد گروپوں کا اصل مقصد یہی نظر آتا ہے کہ وقتاً فوقتاً اس طرح کی کاروائیاں کر کے اراکان سے مسلمانوں کو وہاں سے کلیۃً بے دخل کر دیا جائے اور علاقہ خالی کروا لیا جائے۔ اس لیے ہمارے خیال میں بنگلہ دیش کے موقف پر سب کو توجہ دینی چاہیے اور بالخصوص عالمی مسلم اداروں اور حکومتوں کو اس سلسلہ میں بنگلہ دیش حکومت سے مکمل تعاون کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ رکوانے اور انہیں اپنے وطن میں دوبارہ آباد کرانے کے لیے منظم اور ٹھوس منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ اگر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اس حوالہ سے کوئی قابل عمل پروگرام اور روڈ میپ طے کرنے کا اہتمام کر سکے تو ہمارے خیال میں برمی حکومت کے لیے اسے قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہوگا۔