کویت ایئرویز کے ذریعے زندگی میں پہلی بار سفر کا موقع ملا۔ عید الاضحیٰ کی تعطیلات کے دوران مجھے دارالعلوم نیویارک میں اساتذہ و طلبہ کے لیے ’’دینی تعلیم کے معروضی تقاضے‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والی سات روزہ ورکشاپ میں شرکت کے لیے امریکہ آنا تھا۔ میں ہمیشہ قومی ایئرلائن سے سفر کو ترجیح دیتا ہوں مگر اس بار کویت ایئرویز کے ٹکٹ میں ۲۰ ہزار روپے سے زائد رقم کی بچت دیکھ کر یہ ترجیح بدلنا پڑی۔ اس لیے کہ مجھ جیسے فقیر آدمی اور بلانے والے دینی اداروں کے لیے یہ فرق خاصا نمایاں ہے۔ چنانچہ میں نے ۸ نومبر کی صبح اسلام آباد سے کویت ایئرویز کی پرواز سے نیویارک آنے کا پروگرام بنا لیا جس سے دو اضافی فائدے بھی ہوئے۔ ایک تو کویت کا ایئرپورٹ سرسری طور پر دیکھنے کا موقع مل گیا اور دوسرا فضا سے کویت شہر کا منظر بھی دیکھ لیا۔ جب میں کویت کا شہر فضا سے دیکھ رہا تھا تو مجھے ایک دلچسپ پرانی بات یاد آگئی کہ میرپور آزاد کشمیر کے سابق ضلع مفتی مولانا قاضی محمد اویس خان ایوبی میرے خالو محترم ہیں، وہ ایک بار لندن تشریف لائے تو میں ان دنوں وہیں تھا۔ میں نے چند روز انہیں لندن کی انڈر گراؤنڈ ریلوے کے ذریعے مختلف علاقوں میں گھمایا پھرایا۔ ایک روز کسی دوست نے ان سے پوچھا کہ مفتی صاحب آپ نے لندن دیکھا؟ مفتی صاحب کہنے لگے کہ ہاں نیچے نیچے سے خاصا دیکھ لیا ہے۔ اس پر میں سوچ رہا تھا کہ کویت شہر میں نے اوپر اوپر سے تقریباً سارا ہی دیکھ لیا ہے۔
اس سے قبل کویت سے میری زندگی کی جو یاد وابستہ ہے وہ تب کی ہے جب عراق اور کویت کی جنگ چھڑی تھی۔ اس رات میں سعودی ایئرلائن کے ذریعے لندن سے جدہ آرہا تھا کہ وطن واپس آتے ہوئے حرمین شریفین کی حاضری اور عمرے کا پروگرام بن گیا۔ ان دنوں لندن سے واپسی پر عمرہ کا ویزا ٹریول ایجنٹ کے ذریعے آسانی سے مل جایا کرتا تھا اور مجھ جیسے غریب لوگ آتے جاتے عمرے کی سعادت حاصل کر لیتے تھے۔ بلکہ ایک بار عجیب معاملہ ہوا کہ حج کے بعد ابھی عمرے کے ویزے نہیں کھلے تھے جبکہ مجھے برطانیہ سے وطن واپس آنا تھا۔ سعودی سفارت خانے سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ ابھی عمرے کے ویزے کھلنے میں خاصے دن باقی ہیں۔ میں نے ایک اہل حدیث راہنما ڈاکٹر صہیب حسن سے رابطہ کیا، جو میرے محترم دوست ہیں اور لندن میں سعودی سفارت خانے کے ساتھ ان کا اچھا تعلق تھا، کہ وہ سفارش کر کے مجھے عمرے کا ویزا لگوا دیں۔ انہوں نے سفارش کی تو جواب ملا کہ عمرے کا ویزا تو نہیں لگ سکتا البتہ آپ چاہیں تو وزٹ ویزا دیا جا سکتا ہے۔ مجھے اور کیا چاہیے تھا، میں نے فورًا فیس ادا کی اور وزٹ ویزا مل گیا جس سے میں نے خوب فائدہ اٹھایا کہ حرمین شریفین کی حاضری کے علاوہ ریاض، طائف، دمام، بدر، اور دیگر شہروں کی سیر کا بھی جی بھر کر لطف اٹھایا۔
جس سال عراق کویت جنگ ہوئی اس سال میں نے ٹریول ایجنٹ کے ذریعے عمرے کا ویزا لگوایا تھا اور سعودی ایئرلائن کے ذریعے ہیتھرو سے جدہ کی پرواز پر سفر کر رہا تھا۔ لندن سے جدہ کی پرواز کم و بیش ساڑھے پانچ چھ گھنٹے کی ہوتی ہے لیکن تقریباً چار گھنٹے کی پرواز کے بعد اپنی سیٹ پر اونگھتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے جہاز اپنا رخ تبدیل کر رہا ہے۔ میں چونک کر بیدار ہوا تو پائلٹ کی طرف سے یہ اعلان ہو رہا تھا کہ خطے میں جنگ شروع ہوگئی ہے اور جدہ کا ایئرپورٹ بند کر دیا گیا ہے اس لیے ہم لندن واپس جا رہے ہیں۔ اس طرح ہم آٹھ گھنٹے کی پرواز کے بعد لندن واپس جا پہنچے۔ ساؤتھ آل کے حاجی محمد اسلم رات کو مجھے ہیتھرو ایئرپورٹ پر رخصت کر کے گئے تھے، صبح آٹھ بجے کے لگ بھگ میں نے ان کے دروازے پر بیل دی تو وہ مجھے دیکھ کر حیران رہ گئے جس پر میں نے انہیں ساری بات بتائی۔ خیر ایک دو روز مزید لندن میں ٹھہر کر ترکش ایئرلائن کے ذریعے میں پاکستان واپس آگیا۔
حج اور عمرے کی حاضری مقدر اور بلاوے کی بات ہوتی ہے اور میں دوستوں کو اکثر اپنے دو ذاتی واقعات سنایا کرتا ہوں۔ ایک یہی مذکورہ واقعہ کہ اگر مقدر اور بلاوا نہ ہو تو لندن سے جدہ کی طرف چار گھنٹے کی پرواز کے بعد بھی واپس جانا پڑتا ہے۔ جبکہ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ ہمارے کراچی کے ایک بڑے بزرگ حضرت مولانا مفتی احمد الرحمنؒ بقید حیات تھے اور دیگر بہت سے علمائے کرام کے ساتھ مجھ پر بھی خصوصی شفقت فرمایا کرتے تھے۔ ایک بار ذی الحجہ کا چاند طلوع ہوجانے کے بعد مجھے ان کا فون آیا، انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں پوچھا ’’ارے میاں! حج پر جانا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ حضرت! اس سعادت سے انکار نہیں کر سکتا مگر میرے پاس پاسپورٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پوچھا کہ پاسپورٹ کارآمد ہے نا؟ میں ہاں میں جواب دیا تو کہا کہ فورًا ٹی سی ایس سے بھجوا دو۔ میں نے پاسپورٹ بھجوا دیا، چند روز گزرے تھے کہ انہوں نے فون پر کہا کہ رات پی آئی اے کی نائٹ کوچ سے کراچی پہنچو، کل صبح ۱۱ بجے جدہ کے لیے پرواز ہے۔ اس طرح غالباً چھ یا سات ذی الحجہ کو ہم نے ظہر کی نماز جدہ میں ادا کی اور مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ کی رہنمائی میں بہت سے علمائے کرام کے ہمراہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ یہ مقدر اور بلاوے کی بات ہے جس کے کئی مشاہدات میں سے صرف دو کا میں نے تذکرہ کیا ہے۔
بہرحال ۸ نومبر کو میں نے زندگی میں پہلی دفعہ کویت ایئرویز کے ذریعے سفر کیا تو یہ ہوائی سروس اچھی لگی۔ کویت ایئرپورٹ پر تقریباً دو گھنٹے گزار کر دوسری فلائٹ سے، جو نیویارک کے لیے براستہ لندن تھی، سفر کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا جس میں ہیتھرو ایئرپورٹ پر ایک گھنٹے کے قیام کے دوران دوبارہ تلاشی اور چیکنگ کے مراحل سے گزر کر ہم نیویارک کی طرف روانہ ہوئے۔ مگر اسلام آباد سے جہاز پر سوار ہونے کے تقریباً بائیس گھنٹے کے بعد جب نیویارک کے جے ایف کینیڈی ایئرپورٹ پر اترے تو امیگریشن والوں نے دھر لیا۔ ہم عموماً سنا کرتے تھے کہ جس نام میں ’’محمد‘‘ یا ’’خان‘‘ ہو اس پر امریکن امیگریشن کا عملہ خصوصی طور پر مہربان ہوتا ہے، جبکہ میرے نام میں یہ دونوں الفاظ موجود ہیں کہ پاسپورٹ پر میرا پورا نام ’’عبد المتین خان زاہد‘‘ درج ہے۔ اس لیے عام کاؤنٹر پر کھڑے آفیسر نے باقاعدہ طور پر مجھے کہا کہ محمد اور خان دونوں بھاری نام ہیں اس لیے میں تمہیں آفس لے جاؤں گا۔ یہ کہہ کر اس نے میرا پاسپورٹ اور امیگریشن کارڈ سرخ فائل میں ڈالا اور مجھے امیگریشن آفس پہنچا دیا۔ اس سے قبل جولائی میں جب میں نیویارک آیا تھا تو اس وقت عام کاؤنٹر پر ہی ایک دو سوالات کے بعد انٹری کی مہر لگا دی گئی تھی مگر اس بار اس سہولت سے محروم رہا۔ امیگریشن آفس میں کم و بیش پانچ گھنٹے تفتیش، تلاشی، اور سوالات کے مختلف مراحل سے گزرنا پڑا۔ مجھے سخت نیند آرہی تھی، اس لیے اونگھتے جاگتے چار و ناچار اس صورتحال کا سامنا کر رہا تھا۔ پانچ گھنٹے کے بعد خدا خدا کر کے میرے پاسپورٹ پر انٹری کی مہر لگی اور مجھے نیویارک شہر میں داخل ہونے کے قابل سمجھا گیا۔ اس سے قبل تین چار بار نیویارک کے ایئرپورٹ پر اس قسم کی صورتحال سے سابقہ پیش آچکا ہے اس لیے یہ بات میرے لیے نئی نہیں تھی، البتہ تھکاوٹ اور نیند کے غلبے نے بہرحال مجھے بے حال کر رکھا تھا۔
کویت ایئرویز کے ذریعے اس سفر کے دوران ایک بات محسوس ہوئی کہ اسلام آباد سے کویت کی پرواز کے دوران اعلانات صرف عربی اور انگلش میں ہوتے رہے۔ حالانکہ اصولاً اردو میں بھی اعلانات ہونے چاہیے تھے مگر کویت سے لندن کی پرواز کے دوران عربی اور انگلش کے ساتھ ساتھ ہندی میں بھی اعلانات ہوئے۔ مجھے اس وقت اردو کی بے چارگی کا بہت احساس ہوا مگر یہ سوچ کر خاموش ہوگیا کہ اردو کو اس کے اپنے ملک پاکستان میں قومی اداروں کی طرف سے جس طرز عمل کا سامنا ہے، اس کی موجودگی میں دوسروں سے ہم کیا گلہ کر سکتے ہیں؟