دینی مدارس کی جدوجہد اور مقتدر طبقات کی روش

   
اپریل ۲۰۱۶ء

۳ اپریل ۲۰۱۶ء کو لاہور میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے زیراہتمام ملک بھر کے دینی مدارس کے اساتذہ، طلبہ اور معاونین لاکھوں کی تعداد میں ’’استحکام پاکستان کانفرنس‘‘ کے عنوان سے جمع ہو کر ملکی صورتحال اور دینی مدارس کی معاشرتی جدوجہد کے حوالہ سے اپنے موقف اور عزائم کا ایک بار پھر اظہار کر رہے ہیں جو بلاشبہ اہل حق کی جدوجہد اور تاریخ کا اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔

آج دینی مدارس کی یہ محنت اپنے علمی و فکری ماحول اور دینی و تہذیبی اثرات و نتائج کے حوالے سے دنیا بھر میں ہر سطح پر بحث و گفتگو کا موضوع ہے۔ اب سے ڈیڑھ سو برس قبل جب اس قافلہ کا سفر شروع ہوا تو تاریخ نے دیکھا کہ:

  • متحدہ ہندوستان ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں اہل وطن کی ناکامی بلکہ خانماں بربادی کے زخموں سے چور ہے،
  • خاص طور پر مسلمانوں کا ملی وجود اپنی تہذیبی روایات و اقدار اور دینی تشخص کے تحفظ و بقا کے لیے کسی اجتماعی جدوجہد کی سکت کھو چکا ہے،
  • بیرونی استعمار کے ہاتھوں اپنے تعلیمی، سیاسی، معاشی، انتظامی، معاشرتی اور ثقافتی تشخص کے ملی اداروں سے محروم ہو کر اس خطہ کے مسلمان پھر سے ’’زیرو پوائنٹ‘‘ پر کھڑے ہیں،
  • اور ماضی میں اندلس اور اسپین کے تلخ تجربہ کا پس منظر جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے مستقبل کے حوالہ سے ہر صاحب فکر و دانش کو بے چین کیے ہوئے ہے۔

اس فضا میں چند اصحاب دل اور ارباب فکر و دانش نے ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کے لیے مسلمانوں کے عقیدہ و ایمان کے تحفظ، قرآن و سنت کی تعلیم کے ساتھ ان کی وابستگی` اور ان کی تہذیبی و دینی اقدار کا ماحول برقرار رکھنے کے لیے نئی جدوجہد کا آغاز کیا اور اللہ تعالیٰ کا نام لے کر دیوبند کے قصبہ سے اپنا سفر شروع کر دیا- یہ ان کے خلوص و للّٰہیت کی برکت تھی کہ دیکھتے دیکھتے ان کا یہ مشن جنوبی ایشیا کے طول و عرض میں پھیلتا چلا گیا۔ ابتدائی دور میں دیوبند کی ایک دینی درسگاہ اور اس کے ساتھ مظاہر العلوم سہارنپور، مدرسہ قاسمیہ مراد آباد، اور معین الاسلام ہاٹ ہزاری جیسے چند ادارے تھے، مگر آج جنوبی ایشیا بلکہ دنیا کے دیگر خطوں میں بھی لاکھوں مدارس پر مشتمل ایک وسیع نیٹ ورک کی شکل میں علمی، فکری اور تہذیبی دائروں میں پورے عزم و استقلال کے ساتھ مصروف کار ہے۔ اور تاریخ ان کے اس عظیم کردار کا اعتراف کرنے پر مجبور ہے کہ ان مدارس نے:

  • اس خطہ کو اسپین بننے سے بچا لیا، جس کا ذکر مفکر مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے اسپین کے دورے سے واپسی پر ان الفاظ میں کیا کہ ان مدارس کو اسی حالت میں رہنے دو اور انہیں اسی طرح اپنا کام کرنے دو، یہ مدارس اگر خدانخواستہ باقی نہ رہے تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا وہ میں اپنی آنکھوں سے اسپین میں دیکھ آیا ہوں۔
  • قرآن و سنت اور ان سے متعلقہ ضروری علوم کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا اور انہیں بحفاظت اگلی نسلوں تک منتقل کرنے میں کامیاب رہے۔
  • مسجد و مکتب کے نظام کو امام، خطیب، مدرس، حافظ، قاری اور مفتی وغیرہ کی صورت میں رجال کار فراہم کر کے عام مسلمان کا دین کے ساتھ تعلق قائم رکھا۔
  • اسلامی عقائد و روایات کے خلاف لادینیت کی یلغار کا مقابلہ کیا اور نہ صرف عقائد و احکام بلکہ تہذیبی اقدار و روایات کے معاشرتی ڈھانچے کو برقرار رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔
  • بیرونی استعمار کے تسلط سے نجات اور آزادی کی جدوجہد میں نہ صرف علمی و فکری راہنمائی مہیا کی بلکہ قائدین اور کارکنوں کی ایک وسیع کھیپ تسلسل کے ساتھ فراہم کی جن کی قربانیوں کے نتیجے میں وطن عزیز آزاد ہوا اور دنیا کے نقشے پر ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کے نام سے ایک نئی اسلامی ریاست وجود میں آئی۔
  • تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ اصلاح و ارشاد، دعوت و تبلیغ اور وعظ و نصیحت کا ہر سطح پر ایسا نظام دیا جس کی برکات سے پورا معاشرہ شب و روز مستفید ہو رہا ہے۔
  • مسلمانوں میں اپنے اس تہذیبی امتیاز اور دینی تشخص کا شعور اجاگر کیا جو بالآخر دو قومی نظریہ اور مسلمانوں کے ایک الگ ملک کے قیام کی اساس ثابت ہوا۔
  • عام مسلمانوں کی دینی راہنمائی اور ان کی احکام شریعت کے ساتھ وابستگی کو قائم رکھنے کے لیے ان دینی مدارس کے سینکڑوں دارالافتاء مسلسل مصروف کار رہے، اور انہوں نے فتویٰ و اجتہاد کے اس تسلسل کو برقرار رکھا جو وقت اور حالات کے تغیر کے ساتھ ساتھ احکام شریعت کی تطبیق و ترویج کا سلسلہ جاری رکھنے کا ذریعہ بنا۔
  • ادب و خطابت، صحافت، شعر و شاعری اور ابلاغ کے دیگر شعبوں میں نامور شخصیات پیدا کیں جنہوں نے دینی و قومی مسائل پر قوم کی جرأتمندانہ راہنمائی کی۔
  • کسی قسم کی سرکاری امداد و معاونت سے بے نیاز رہ کر محدود وسائل بلکہ بے سروسامانی کے ماحول میں عالم اسلام کو ایک ایسا وسیع، منظم، مربوط اور متحرک نظام تعلیم دیا جس کی سادگی، اثر پذیری، قناعت پسندی اور پیہم سعی آج پوری دنیا کے تعلیمی ماحول کے لیے قابل رشک ہے، وغیر ذلک۔

دینی مدارس کی یہ محنت و کاوش گزشتہ ڈیڑھ سو برس سے ریاستی سرپرستی اور تعاون کے ماحول میں نہیں بلکہ حوصلہ شکنی، کردارکشی اور مخاصمت کی فضا میں جاری ہے، جو بیرونی استعمار کے دور میں تو قابل فہم تھی لیکن اسلام کے نام پر اور مسلمانوں کے تہذیبی اور دینی تشخص کی بقا کے نام پر وجود میں آنے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی اشرافیہ اور مقتدر طبقات کا اسی روش پر قائم رہنا تعجب خیز بلکہ انتہائی افسوسناک ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کے بعد ہمارے مقتدر طبقات کی ذمہ داری تھی کہ وہ ملک کے ریاستی تعلیمی نظام کو نو آبادیاتی ایجنڈے سے نجات دلا کر ایک آزاد، خودمختار اور باوقار اسلامی ملک کے طور پر قرآن و سنت کے علوم، عصری تعلیمی و فنی ضروریات اور مسلمانوں کی شاندار تہذیبی روایات و اقدار کی بنیاد پر ازسرِنو استوار کرتے۔ مگر ریاستی نظام تعلیم کو صحیح رخ پر لانے کی بجائے ریاستی اداروں کی توجہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک دینی تعلیم دینے والے اداروں اور طبقات کی کردارکشی، حوصلہ شکنی، اور ان کے کام میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالنے پر مرکوز ہے۔ اور دینی مدارس کے خلاف وقفہ وقفہ سے کی جانے والی ریاستی کاروائیاں نشاندہی کر رہی ہیں کہ عالمی استعمار کی طرح ہمارے ملک کی اسٹیبلشمنٹ بھی دینی مدارس کو کمزور کرنے اور انہیں اپنے تاریخی معاشرتی کردار سے محروم کر دینے کی پالیسی پر گامزن ہے اور عالمی سیکولر قوتیں اور میڈیا اس مشن میں ان کا پوری طرح معاون ہے۔

دینی مدارس کے لیے یہ صورتحال نئی نہیں ہے، وہ تو گزشتہ ڈیڑھ صدی سے اسی ماحول میں کام کرتے آرہے ہیں اور ایسی کاروائیوں نے ان کا سفر روکنے کی بجائے ہمیشہ ان کے لیے مہمیز کا کام دیا ہے جو دینی مدارس کی وسیع تر کارکردگی کی موجودہ صورتحال سے واضح ہے، البتہ اس قسم کی حکومتی کاروائیاں خود ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی اسلام اور نظریہ پاکستان کے ساتھ وابستگی کے حوالہ سے سوالیہ نشان بن چکی ہیں۔ ان حالات میں یہ ضروری ہوگیا ہے کہ دینی مدارس کے منتظمین، معاونین، اساتذہ اور طلبہ ہر سطح پر باہمی مشاورت اور اجتماعیت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی صف بندی کا جائزہ لیں اور ملت، ملک اور قوم کے مستقبل کے بارے میں اپنے عزم کی تجدید کریں تاکہ وہ اپنی جدوجہد کو صحیح رخ پر آگے بڑھانے میں صحیح پیشرفت کر سکیں۔ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت ’’استحکام پاکستان کانفرنس‘‘ کو بھرپور کامیابی سے نوازیں اور اس کے نتائج و ثمرات کو ملک و قوم کے لیے بہتر بنائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter