۲۷ مارچ جمعرات کو گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ میں ’’عالمی رابطہ ادب اسلامی‘‘ کے زیر اہتمام نعتیہ شاعری کے حوالہ سے ایک سیمینار منعقد ہوا جس میں پروفیسر ڈاکٹر سعد صدیقی، پروفیسر ڈاکٹر محمود الحسن عارف، پروفیسر حافظ سمیع اللہ فراز، پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک، مولانا محمد یوسف خان، حافظ محمد عمار خان ناصر، اور دوسرے مقررین کے علاوہ راقم الحروف نے بھی خطاب کیا اور سیرت نبویہ علی صاحبہا التحیۃ والسلام کے حوالہ سے کچھ معروضات پیش کیں جن کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ نثر میں ہو یا نظم میں، باعث برکت و سعادت ہے اور ذکر رسولؐ کے ہزاروں پہلو ہیں جن پر مختلف حوالوں سے علمی کاوشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ نعتیہ شاعری کے بعض پہلوؤں پر میرے پیش رو مقررین نے خوبصورت خیالات و جذبات کا اظہار کیا ہے۔ میں اس کی مقصدیت کے حوالہ سے عرض کرنا چاہوں گا کہ ذکر رسولؐ کا مقصد اپنے جذبات اور محبت و عقیدت کا اظہار تو ہوتا ہی ہے کہ ایک مسلمان اپنی نسبت کا اظہار بھی کرتا ہے اور محبت و عقیدت بھی پیش کرتا ہے۔ لیکن نعتیہ شاعری کا ایک اہم پہلو ہمارے پیش نظر ضرور ہونا چاہیے کہ خود جناب نبی اکرمؐ نے اس کا کس حوالہ سے تقاضہ کیا تھا؟ روایات میں آتا ہے کہ غزوۂ احزاب کے بعد آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا کہ اب قریش کو ہم پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہوگی، البتہ وہ خطابت و شعر کا محاذ گرم کریں گے اور تمہارے خلاف عربوں کو بھڑکائیں گے۔ یہ جنگ جو زبان کے ساتھ لڑی جائے گی اس میں کون کون سامنے آئے گا؟ اس پر حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت کعب بن مالکؓ اور حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ سامنے آئے جو اپنے وقت کے بڑے شعراء تھے۔ جبکہ خطابت کے محاذ پر حضرت ثابت بن قیسؓ نے مورچہ سنبھالا اور شعر و خطابت کی یہ جنگ کامیابی کے ساتھ لڑی گئی۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ اسلام کے دفاع کی جنگ تھی اور جناب رسول اللہؐ کی عزت و ناموس کے تحفظ کی جنگ تھی۔ ان خطباء و شعراء نے حضورؐ کی مدح اور اسلام کی خوبیوں کے بیان کے ساتھ ساتھ کفار کی طرف سے کی جانے والی ھجو اور اٹھائے جانے والے اعتراضات اور شکوک و شبہات کا جواب دیا اور کفار کے پروپیگنڈے کا رخ پھیر دیا۔ آج بھی ہمیں یہی صورت حال درپیش ہے۔ عالمی سطح پر اسلامی احکام و قوانین، قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کی ذات گرامی پر طرح طرح کے اعتراضات دہرائے جا رہے ہیں۔ اور اسلام کے ساتھ ساتھ دیندار لوگوں کی کردار کشی کی مہم بھی ہر سطح پر جاری ہے۔ ان حالات میں نعتیہ شاعری کو بھی اسلام کے دفاع اور حضورؐ کی حرمت و ناموس کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور حالات کے تقاضے کے پیش نظر اس پہلو کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے۔
دوسری بات جو میں اس ضمن میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ نعتیہ شاعری میں اظہار جذبات کے لیے جس احتیاط کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے اس کی ضرورت آج زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔ مثلاً حضرت حسان بن ثابتؓ کا تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ جب ان کے سامنے حضورؐ نے قریش مکہ کے شاعروں کی طرف سے کی جانے والی ھجو کا ذکر کیا تو انہوں نے اپنی زبان ہاتھ میں پکڑ کر کہا کہ میں اس زبان کے ساتھ ان کو چیر کر رکھ دوں گا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ میں بھی قریش میں سے ہوں، میرے نسب کا کیا کرو گے؟ یعنی قریش کی مذمت کرتے ہوئے مجھے زد میں آنے سے کیسے بچاؤ گے؟ حسان بن ثابتؓ نے کہا کہ آپ کو درمیان سے اس طرح نکال لوں گا جیسے آٹے میں سے بال نکال لیا جاتا ہے۔ جناب نبی اکرمؐ نے اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ مل کر میرے نسب کی تفصیلات معلوم کرلو تاکہ تم قریش کی ھجو کا جواب دیتے وقت اس کا لحاظ کر سکو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپؐ نے اس بات کی تلقین فرمائی ہے کہ ان کی مدح و نعت میں ادب و احتیاط کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے۔
اس سلسلہ میں مجھے اپنے طالب علمی کے دور کا ایک واقعہ نہیں بھولتا کہ گوجرانوالہ میں بہت سے شعراء کرام تھے جو ادبی اور شعری محفلوں کا اہتمام کیا کرتے تھے جن میں اثر لدھیانوی، عزیز لدھیانوی، بیکس فتح گڑھی، راشد بزمی، اور دوسرے شعراء شامل تھے۔ یہ سب اب مرحوم ہو چکے ہیں، اللہ تعالیٰ سب کی مغفرت فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔ یہ ۱۹۶۴ء اور ۱۹۶۵ء کے لگ بھگ کی بات ہے، میں بھی ان کی محفلوں میں جایا کرتا تھا ۔ میں شعر کہتا تو نہیں تھا البتہ ادبی محفلوں کا ذوق ضرور رکھتا تھا، ان دنوں پل لکڑ والا کے قریب ایک بزرگ ٹیلر ماسٹر تھے اور شہید جالندھریؒ کے نام سے شعر گوئی کا ذوق رکھتے تھے۔ ان کے ہاں شعراء کی محفل تھی اور مولانا ظفر علی خان مرحوم کی مشہور نعت کا مصرعہ
کو طرح مصرعہ بنا کر بہت سے شعراء نے اس محفل میں نعتیہ کلام پیش کیا مگر شہید جالندھری مرحوم نے اس مصرع سے اختلاف کیا اور کہا کہ ’’تمہی تو ہو‘‘ کا انداز خطاب بہت زیادہ بے تکلفانہ ہے اور میرا جی نہیں چاہتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لہجے میں خطاب کروں۔ انہوں نے اپنی نظم یا نعت میں اسے ’’آپ ہی تو ہیں‘‘ کے جملہ سے تبدیل کر دیا اور اس کے مطابق آپؐ کی بارگاہ میں ہدیہ نعت پیش کیا۔ یہ بات انہوں نے اس انداز سے کہی کہ میرے دل کی گہرائیوں میں اتر گئی اور نصف صدی گزرجانے کے باوجود ان کا انداز بلکہ ان کا سراپا اب تک ذہن میں نقش ہے۔ مجھے ان کی یہ بات بہت اچھی لگی اور میں ایسے موقع پر اس کا تذکرہ ضرور کیا کرتا ہوں۔
اس لیے گزارش ہے کہ نعتیہ شاعری میں اسلام اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں منفی پراپیگنڈے کے جواب کا پہلو نمایاں کرنے کے ساتھ ساتھ ادب و احترام کے تقاضوں کو بھی پوری طرح ملحوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ اس لیے کہ
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید اینجا