اخباری اطلاعات کے مطابق عالم اسلام کے معروف علمی و دینی ادارہ جامعہ ازہر قاہرہ نے عرب جمہوریہ مصر کے صدر جناب حسنی مبارک سے باضابطہ درخواست کی ہے کہ مصری پارلیمنٹ میں گزشتہ روز عورتوں کو طلاق کا حق دینے کے سلسلہ میں پیش کیے جانے والے بل پر غور تین ماہ کے لیے مؤخر کر دیا جائے تاکہ مصر کے علمائے کرام اس کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔ اس سے قبل یہ خبر آئی تھی کہ سماجی امور کی وزیر محترمہ آمنہ آل غندی نے مصر کی قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا ہے جس میں فیملی قوانین میں یہ ترمیم شامل کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے کہ نباہ نہ ہونے کی صورت میں عورت کو مکمل اختیار ہوگا کہ وہ طلاق حاصل کرے۔ نیز اس بل کی رو سے عورت کو بیرون ملک جانے کے لیے خاوند سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں رہے گی، تاہم اسے اپنے مالی حقوق سے دستبردار ہونا ہوگا۔ خبر کے مطابق مصر کے مختلف حلقوں کی جانب سے اس بل پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ چنانچہ حلوان یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر جناب جلال ابراہیم نے بل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ خاوند کا نقطۂ نظر جانے بغیر عورت کو طلاق کا حق دینا معاشرے کو تباہی کے گڑھے میں دھکیلنے کے مترادف ہوگا۔ جبکہ قاہرہ یونیورسٹی میں قانون کے استاذ پروفیسر انور دابور نے کہا ہے کہ اس بل کی منظوری اور نفاذ کی صورت میں ملک کے اندر طلاقوں کا ایک سیلاب امڈ آئے گا جس سے لاتعداد مصری خاندانوں کو نقصان پہنچے گا۔ اسی طرح ایوان بالا کے کچھ ممبروں نے بھی بل کی بعض شقوں کو ’’ٹائم بم‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے اس کی مخالفت کی ہے۔
خاندانی قوانین کے حوالہ سے یہ مسئلہ صرف مصر کا نہیں ہے بلکہ کم و بیش ہر اس مسلمان ملک کو یہ مسئلہ درپیش ہے جو اسلامی احکام و قوانین اور مغربی تہذیب و ثقافت کے درمیان دن بدن بڑھتی ہوئی معاشرتی کشمکش سے دوچار ہے۔ اور اس ملک کے حکمرانوں میں اس تہذیبی کشمکش اور سولائزیشن وار میں کسی ایک طرف واضح طور پر فریق بننے کا حوصلہ نہیں ہے کیونکہ نکاح، طلاق، وراثت کے حوالہ سے ایک طرف قرآن و سنت کے واضح اور صریح احکام ہیں جن سے دستبردار ہونا یا جن میں رد و بدل کرنا مسلم حکمرانوں کے بس میں نہیں ہے اور دوسری طرف اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کا مسلسل دباؤ ہے جو اس مقصد کے لیے روز بروز بڑھ رہا ہے کہ مسلم ممالک اپنے خاندانی قوانین میں تبدیلی اور ترامیم کر کے انہیں مبینہ بین الاقوامی معیار یعنی مغربی ثقافت اور کلچر کے مطابق ڈھالیں۔ جبکہ بیشتر مسلم ممالک کے حکمران اس جرأت سے محروم ہیں کہ وہ مغربی ممالک اور اداروں سے دو ٹوک طور پر یہ بات کہہ سکیں کہ ہم قرآن و سنت کے صریح احکام میں کسی قسم کا ردوبدل کرنے کے مجاز نہیں ہیں اور نہ ہی مسلم عوام اس کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔
طلاق کا مسئلہ بھی انہی متنازعہ مسائل میں سے ہے۔ اسلام نے عورت اور مرد میں سے طلاق کا غیر مشروط حق صرف مرد کو دیا ہے کہ وہ جب چاہے عورت کو طلاق دے کر اپنی زوجیت سے الگ کر دے۔ اگرچہ بلاوجہ طلاق کو شریعت میں سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق کو مباح امور میں مبغوض ترین چیز قرار دیا ہے لیکن گناہ اور ناپسندیدہ ہونے کے باوجود مرد کو یہ حق بہرحال حاصل ہے کہ وہ اگر طلاق دے تو اس سے دونوں میں نکاح کا رشتہ ختم ہو جاتا ہے۔ جبکہ عورت کو براہ راست اور غیر مشروط طلاق کا حق اسلام نے نہیں دیا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے اس حوالہ سے کوئی حق ہی سرے سے حاصل نہیں ہے بلکہ اسے اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ اگر اسے خاوند سے کوئی جائز شکایت ہے تو وہ شرعی عدالت یا تحکیم کی صورت میں ثالثی کونسل سے رجوع کرے اور ان دونوں اداروں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اگر بیوی کی شکایت کو درست سمجھیں اور نباہ کی کوئی صورت قابل عمل نہ نظر آئے تو اس نکاح کو فسخ کر کے میاں بیوی میں تفریق کر سکتے ہیں۔ گویا فرق یہ ہے کہ مرد کو طلاق کا حق براہ راست حاصل ہے مگر عورت کو یہ حق بالواسطہ دیا گیا ہے اور خاندانی نظام کی وحدت کو برقرار رکھنے کے لیے یہ ترجیح ضروری اور لازمی ہے۔ اس لیے کہ دونوں کو بالکل مساوی اختیار دینے سے گھر کے نظام کا چلنا ممکن ہی نہیں رہے گا اور مغرب ایسا کر کے جو تلخ تجربہ کر چکا ہے اس کے نتائج سب کو سامنے رکھنے چاہئیں۔
مغرب نے شادی کو محض ایک ’’سوشل کنٹریکٹ‘‘ قرار دے کر مذہبی تقدس اور آسمانی تعلیمات کی نگرانی سے محروم کر دیا اور اس کنٹریکٹ کے دونوں فریقوں کو مساوی حقوق دے کر دنیا کو یہ بتایا کہ ہم نے مرد و عورت کے درمیان مساوات قائم کردی ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فیملی سسٹم اور خاندانی نظام مغربی معاشرہ میں تتربتر ہو کر رہ گیا اور اب سنجیدہ مغربی دانشور خاندانی زندگی کی بحالی کے لیے راستے تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ برطانیہ میں ایک محاورہ عام طور پر بولا جاتا ہے جو مغرب کی معاشرتی زندگی کی صحیح طور پر عکاسی کرتا ہے کہ تھری ڈبلیوز کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس سے مراد تین الفاظ ہیں جو انگریزی کے حرف W سے شروع ہوتے ہیں۔ یعنی ویدر (موسم)، وومن (عورت)، اور ورک (ملازمت)۔ مطلب یہ کہ برطانیہ میں موسم کا کوئی اعتبار نہیں ہے کہ کس وقت کیا ہو جائے، بیوی یا گرل فرینڈ کا کوئی بھروسہ نہیں کہ کس وقت چھوڑ جائے، اور کام کا کچھ پتہ نہیں کہ کب برخواستگی کا پروانہ مل جائے۔ اور اس معاشرہ میں اس کے مناظر و مظاہر روز مرہ سامنے آتے رہتے ہیں۔
اسے آپ کچھ بھی کہہ لیں مگر حقیقت یہی ہے کہ اگر دونوں فریقوں کو مساوی حقوق اور اختیارات دیے جائیں گے تو نظام نہیں چلے گا اور روز مرہ جھگڑوں کا دروازہ کھلا رہے گا جس کا تلخ تجربہ مغربی معاشرہ میں ہم کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ گھریلو نظام کو صحیح طور پر چلانے کے لیے دونوں میں سے کسی ایک کو ترجیح دے کر اس کی بالادستی قائم کرنا ہوگی۔ اسلام نے یہی کیا ہے کہ مرد اور عورت کی جسمانی ساخت اور صلاحیتوں کو سامنے رکھتے ہوئے مرد پر ذمہ داری بھی زیادہ ڈالی ہے کہ گھر کے اخراجات کی کفالت اس کے ذمہ ہے اور بیوی بچوں کی ضروریات کو پورا کرنا اس کی ڈیوٹی ہے۔ اس کے ساتھ گھر کے نظام کی سربراہی مرد کو دی گئی ہے اور میاں بیوی کے تعلق کو چلانے میں فائنل اتھارٹی بھی مرد ہی کو قرار دیا گیا ہے کہ اس سسٹم کا کنٹرول اسی کے پاس رہے گا۔
یہ ترتیب اور ترجیح صرف خاندانی نظام میں ہی ضروری نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی نظام یا کسی ادارے کے سسٹم میں دو افراد کو برابر کے اختیارات دے کر بٹھا دیں تو اس کا حشر وہی ہوگا جو مغربی معاشرہ میں خاندانی نظام کا ہو چکا ہے۔ اور اب مسلم معاشرہ میں عورت کے لیے طلاق کے مساوی حق کا ’’ٹائم بم‘‘ نصب کر کے اسے اسی طرح سبوتاژ کرنے کی مسلسل سازش ہو رہی ہے۔
ہمارے ہاں پاکستان میں کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ کے ایک محترم جج کی سربراہی میں ’’خواتین حقوق کمیشن‘‘ نے اسی نوعیت کی سفارشات پیش کی تھیں اور حال ہی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی پاکستانی شاخ کے سیکرٹری جنرل نے چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف کے نام ایک کھلے مکتوب میں ان سے استفسار کیا ہے کہ مذکورہ خواتین حقوق کمیشن کی سفارشات پر عمل کیوں نہیں ہو رہا؟ اس خط میں جو ہفت روزہ مہارت لاہور کی تازہ اشاعت میں شائع ہوا ہے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حدود آرڈیننس سمیت پاکستان میں اس وقت نافذ بہت سے دیگر اسلامی قوانین کو بھی عورتوں کے مساویانہ حقوق کے منافی قرار دیتے ہوئے ان میں ترامیم پر زور دیا ہے۔ چنانچہ عورتوں کے حقوق اور مرد و عورت میں مساوات کے نام سے مغربی کلچر اور اس کے قوانین کو مسلم معاشرہ پر مسلط کرنے کی مہم صرف مصر میں ہی نہیں پاکستان میں بھی ہے بلکہ پورا عالم اسلام اس وقت اس حوالہ سے بین الاقوامی اداروں کے شدید دباؤ کی زد میں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالم اسلام کے علمی ادارے، دینی جماعتیں، اور نظریاتی حلقے اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور اس ’’سولائزیشن وار‘‘ میں مغرب کی یلغار کا پوری قوت، حوصلہ، اور منصوبہ بندی کے ساتھ سامنا کریں۔