جنیوا کے انسانی حقوق کمیشن میں کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی قرارداد کی واپسی ان دنوں قوم حلقوں میں زیر بحث ہے۔ یہ قرارداد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم اور انسانی حقوق کی پامالی کی مذمت کے لیے پیش کی گئی تھی لیکن ووٹنگ سے قبل چین اور ایران کے کہنے پر واپس لے لی گئی۔ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ قرارداد کا مقصد مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنا تھا جو ووٹنگ کے بغیر حاصل ہوگیا ہے اور چین اور ایران جیسے دوست ممالک کے مشورہ کو نظر انداز کرنا مشکل تھا اس لیے قرارداد موخر کر دی گئی۔ جبکہ اپوزیشن کے راہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت نے قرارداد واپس لے کر مسئلہ کشمیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور ان مجاہدین کشمیر کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے جو اس وقت مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ظلم و تشدد کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ حکومتی حلقوں اور اپوزیشن کی اس کشمکش سے قطع نظر بین الاقوامی پریس کا یہ تجزیہ بھی قابل توجہ ہے کہ قرارداد کے لیے جو محنت ضروری تھی پاکستان کی وزارت خارجہ اس کا اہتمام نہیں کر سکی حتیٰ کہ قرارداد کی حمایت میں مسلم ممالک سے روابط اور انہیں قائل کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی جس کی وجہ سے انسانی حقوق کمیشن میں قرارداد کی منظوری کے امکانات مخدوش تھے اور پاکستان نے شکست سے بچنے کے لیے قرارداد کو واپس لینے یا موخر کرنے میں عافیت سمجھی ہے۔
بہرحال جو ہوا اس کے اسباب کچھ بھی ہوں اس سے مجاہدین کشمیر کو نقصان پہنچا ہے، پاکستان کی ساکھ مجروح ہوئی ہے اور بھارت کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ اسے اپنی سفارتی فتح قرار دے کر پاکستان کو اپنی شرائط پر دوبارہ مذاکرات کی دعوے دے رہا ہے۔ اور اس بات میں بھی شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی ہے جس کا نوٹس قومی سطح پر لیا جانا ضروری ہے۔
اس مرحلہ پر چین اور ایران کا طرز عمل بھی سنجیدہ غور و فکر اور تجزیہ کا متقاضی ہے کہ یہ دونوں ملک مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کے ہمیشہ حامی رہے ہیں اور ان کی حمایت پاکستان اور کشمیری حریت پسندوں کے لیے تقویت کا باعث رہی ہے، لیکن اب انسانی حقوق کمیشن میں پیش کردہ قرارداد بھی انہی کے کہنے پر پاکستان کو واپس لینا پڑی ہے۔ اس کی یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ انہوں نے پاکستان کو واضح شکست سے بچانے کے لیے قرارداد واپس لینے کا مشورہ دیا ہو لیکن ہم اس مسئلہ کے ایک اور پہلو کو سامنے لانا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ جب سے امریکی حلقوں کی طرف سے کشمیر یا اس کے ایک بڑے حصے کو خودمختار ملک کی حیثیت دینے کی تجویز سنجیدگی کے ساتھ سامنے آئی ہے اور کشمیر میں رائے شماری کے لیے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کے علاوہ خودمختاری کا تھرڈ آپشن شامل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے اس وقت سے یہ خدشات بڑھتے جا رہے ہیں کہ امریکہ دراصل خودمختار کشمیر کو اپنے فوجی اڈے کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے جس کا مقصد چین کے متوقع عالمی کردار سے نمٹنا ہے۔
اس صورتحال میں اگر مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے چین کے طرز عمل میں تبدیلی آتی ہے تو اسے اس کے قومی مفادات سے الگ کر کے دیکھنا مناسب نہیں ہوگا۔ ایران کی صورتحال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ ان حالات میں جبکہ ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین اور نہتے کشمیری عوام پر بھارتی افواج کے مظالم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے بین الاقوامی اور علاقائی طور پر دوست ممالک کی ترجیحات میں واضح تبدیلیاں دکھائی دے رہی ہیں، وزارت خارجہ کی سست روی اور مسئلہ سے نمٹنے کے لیے روایتی طرز عمل پر قناعت انتہائی تکلیف دہ بات ہے۔ اور اس سے زیادہ اذیت ناک بات یہ ہے کہ حکومتی پارٹیوں اور اپوزیشن نے مسئلہ کی نزاکت کا احساس کرنے اور مسئلہ کشمیر پر مشترکہ قومی موقف اختیار کرنے کی بجائے اس نازک قومی مسئلہ کو باہمی کشمکش اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔
ہم حکومت اور اپوزیشن سے گزارش کریں گے کہ وہ اپنے اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کریں اور مل بیٹھ کر مسئلہ کشمیر پر مشترکہ موقف اور پالیسی اختیار کریں تاکہ اہل پاکستان آزادیٔ کشمیر کے سلسلہ میں اپنی قومی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا کر سکیں۔