مذہب و ثقافت کی عالمی کشمکش اور چین کے صدر محترم

   
تاریخ : 
مئی ۲۰۱۶ء

روزنامہ انصاف لاہور میں ۲۵ اپریل ۲۰۱۶ء کو شائع ہونے والی ایک خبر ملاحظہ فرمائیے:

’’چینی صدر شی جن پنگ نے ملک کی مذہبی تنظیموں سے کہا ہے کہ وہ اپنی اقدار کو چینی ثقافت اور کمیونسٹ پارٹی سے ہم آہنگ بنائیں، چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق انہوں نے یہ بات بیجنگ میں پارٹی کے مذہب کے بارے میں خدوخال بتاتے ہوئے کہی، صدر شی نے اپنی تقریر میں واضح کیا کہ چینی کمیونسٹ پارٹی خدا سے زیادہ اہم ہے، مذہبی تنظیموں پر لازم ہے کہ وہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت سے وابستہ رہیں جبکہ پارٹی کے کارکن لازمی طور پر بے لچک لادین رہیں اور خود کو بیرون ملک سے آنے والے دینی اثرات سے بچائے رکھیں، چین میں لاکھوں بدھ، مسلمان اور عیسائی رہتے ہیں۔‘‘

عوامی جمہوریہ چین کے صدر محترم کا یہ بیان مذہب اور ثقافت، یا دوسرے لفظوں میں آسمانی تعلیمات اور سوسائٹی کی عقل و خواہش کے درمیان کشمکش کے اس پہلو کو ظاہر کرتا ہے جو اس وقت عالمی سطح پر جاری ہے اور اس میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وحی، عقل اور انسانی خواہشات کے درمیان یہ کشمکش زمین پر انسانی آبادی کے آغاز سے ہی مسلسل چلی آرہی ہے جسے قرآن کریم نے یوں تعبیر فرمایا ہے کہ ’’ان یتبعون الا الظن وما تہوی الأنفس ولقد جائہم من ربہم الہدیٰ‘‘ یہ تو صرف نفسانی خواہشات اور گمان کی پیروی کرتے ہیں جبکہ ان کے پاس ہدایت ان کے رب کی طرف سے آچکی ہے۔

مذہب و دین کی بنیاد وحی الٰہی پر ہوتی ہے جبکہ ثقافت و کلچر انسانی سوسائٹی کی اجتماعی سوچ اور خواہشات سے تشکیل پاتے ہیں۔ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام نے آسمانی تعلیمات کے ذریعے وحی الٰہی کی بالادستی قائم کی اور کلچر و ثقافت کی مکمل نفی کرنے کی بجائے انہیں آسمانی تعلیمات کا پابند کیا، لیکن مغرب نے اب سے دو سو برس قبل آسمانی تعلیمات کی بالادستی بلکہ سوسائٹی کے معاملات میں اس کے عمل دخل کی ہی مکمل نفی کر دی اور ’’لادین سوسائٹی‘‘ کو اپنی منزل قرار دیا۔ مغرب کا سیکولرازم اور روس و چین کا کمیونزم اسی فلسفہ کی دو مختلف سطحیں ہیں۔ کمیونزم نے سرے سے خدا اور مذہب ہی کی نفی کر دی، جبکہ مغرب نے خدا اور مذہب کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے اور ذاتی زندگی میں اس کے کردار کو باقی رکھتے ہوئے سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے اسے بے دخل کر دیا، جس طرح فرانس نے بادشاہت کو مکمل طور پر ختم کر دیا مگر برطانیہ نے رسماً برقرار رکھتے ہوئے اسے مکمل طور پر بے اختیار بنا کر ایک ’’شو پیس‘‘ کی حیثیت دے دی۔

مغربی یورپ اور امریکہ کے سیکولرازم اور چین و روس کے کمیونزم میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں ہے اور عملی نتیجہ دونوں کا ایک ہی ہے کہ انسانی سوسائٹی کے اجتماعی معاملات بالخصوص ریاست و حکومت، انتظامیہ و عدلیہ اور خاندانی نظام کو دین و مذہب اور آسمانی تعلیمات سے لا تعلق رکھا جائے۔ چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا میں مسیحیت، ہندومت اور بدھ مذاہب کے پیروکاروں کی غالب اکثریت نے اسے عملاً قبول کر لیا ہے مگر عالم اسلام میں عوامی سطح پر اور دینی حلقوں میں اسے قبول نہیں کیا جا رہا۔سوسائٹی بالخصوص خاندانی نظام کو مذہبی احکام و قوانین سے لاتعلق کر دینے کے اس فلسفہ و تہذیب کے خلاف پورے عالم اسلام میں مزاحمت کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے اثرات غیر مسلم معاشروں میں بھی پھیلنا شروع ہو گئے ہیں۔ مغرب کے خاندانی نظام کا بکھرتے چلے جانا اور مغربی دنیا میں مشرقی و اسلامی خاندانی روایت سے متاثر ہو کر ہزاروں خواتین کا مسلمان ہو جانا اس کی صرف ایک جھلک ہے جس نے مغرب کے دانشوروں کو پریشان کر رکھا ہے۔

عام طور پر موجودہ صدی کو مذہب کی طرف واپسی کی صدی کہا جاتا ہے اس لیے کہ آسمانی تعلیمات سے بغاوت و انحراف کے تلخ معاشرتی نتائج کو بھگتنے کے بعد اب ایک بار پھر لوگوں کو وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کے سماجی کردار کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے، اور صرف مغرب میں نہیں بلکہ مشرق میں بھی یہ رجحان دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ اس لیے جہاں امریکہ کی دانش گاہوں میں اس سوال پر بحث و تمحیص کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے کہ مذہب سوسائٹی میں واپس آنے کے بعد کہیں ریاست و حکومت کے معاملات میں دوبارہ دخل اندازی تو نہیں کرنے لگے گا، وہاں مشرق بھی مذہبی روایات و اقدار کی بتدریج واپسی سے تحفظات و خدشات محسوس کر رہا ہے جس کا اظہار چین کے صدر محترم نے اپنے اس بیان میں کیا ہے۔

چین میں مسلمان لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں آباد ہیں، کہا جاتا ہے کہ مشرقی پٹی میں کم و بیش آٹھ کروڑ مسلمان اکٹھے رہتے ہیں اور مغربی پٹی پر سنکیانگ میں جس کا سابقہ نام ’’کاشغر‘‘ ہے، ایک کروڑ کے لگ بھگ مسلمان بستے ہیں، جو یقیناً عالم اسلام میں ہونے والے واقعات و حالات سے میڈیا اور جدید ذرائع ابلاغ کے اس دور میں لا تعلق نہیں رہ سکتے۔ مساجد و مدارس کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے، قرآن و سنت کی تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے ساتھ تعلقات و روابط کی ایک نئی لہر وجود میں آچکی ہے جس سے دینی بیداری واضح طور پر دکھائی دینے لگی ہے۔

انسانی سوسائٹی کی ایک اور معروضی حقیقت بھی لادینی فلسفہ کے دانشوروں کے لیے پریشان کن صورت اختیار کیے ہوئے ہے کہ گلوبلائزیشن کے اس دور میں علاقائی ثقافتیں ایک دوسرے میں مدغم ہو رہی ہیں اور ان کے لیے اپنے الگ الگ وجود کو پہلی کیفیت میں قائم رکھنا ممکن نہیں رہا، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر ایک نئی ثقافت تشکیل پائے گی، اور اسلام کے سوا کسی اور مذہب کے پاس یہ صلاحیت و طاقت نہیں ہے کہ وہ اس نئی تہذیب و ثقافت کی تشکیل میں کوئی کردار ادا کر سکے جبکہ اسلام آہستہ آہستہ اس کردار کی طرف بڑھتا دکھائی بھی دینے لگا ہے اس لیے اپنے اپنے معاشروں کو باہر سے آنے والے دینی اثرات سے محفوظ رکھنے کی فکرمندی بڑھ رہی ہے۔ لیکن کیا یہ فکر مندی اسلام کا راستہ روک سکے گی، تاریخ اور سماج کے مسلمہ اصول اس کی نفی کرتے ہیں، بہرحال:

؂ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟
   
2016ء سے
Flag Counter