جدہ سے شائع ہونے والے روزنامہ ’’اردو نیوز‘‘ نے ۱۳ جولائی ۲۰۱۰ء کی اشاعت میں خبر دی ہے کہ سعودی عرب کی وزارت تعلیم و تربیت نے سعودی اسکولوں میں انتہا پسندانہ افکار پھیلانے پر دو ہزار سے زائد اساتذہ کو برطرف کر دیا ہے۔ مشیر معاون وزیر داخلہ برائے فکری سلامتی ڈاکٹر عبد الرحمن الہدلق نے یہ اطلاع دیتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ اساتذہ اسباق میں نصاب تعلیم کے اہداف و مقاصد کو پس پشت ڈال کر انتہا پسندانہ افکار اور تشدد پر مبنی خیالات پھیلا رہے تھے۔ الہدلق نے بتایا کہ ان میں سے بعض اساتذہ انگریزی سکھانے والے استاذ کو محض اس لیے کافر قرار دے رہے تھے کہ ان کی اپنی سوچ کے مطابق انگریزی کا معلم کفر کی زبان کا استاد بنا ہوا ہے۔ یہ لوگ انگریزی کی تعلیم کو کفر کی تعلیم کے مترادف قرار دیے ہوئے تھے۔
مذہبی تعلیمات کی بنیاد پر انتہا پسندی، تنگ نظری اور تشدد کے یہ رجحانات صرف سعودی عرب میں نہیں بلکہ مختلف مسلم ممالک میں موجود ہیں اور اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب سے دو عشرے قبل الجزائر میں دینی جماعتوں کے متحدہ محاذ ’’اسلامک سالویشن فرنٹ‘‘ نے ملک کے عام انتخابات کے پہلے مرحلے میں ۸۰ فی صد کے لگ بھگ ووٹ حاصل کیے تو اس نے بین الاقوامی اور ملکی سیکولر حکومتوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اور الجزائر میں جمہوری ذرائع سے آنے والی اسلامی حکومت کا راستہ روکنے کے لیے نہ صرف انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے ملک کو فوج کی حکمرانی میں دے دیا گیا بلکہ مغربی استعمار کی مکمل پشت پناہی کے ساتھ دینی حلقوں اور مذہبی کارکنوں کے خلاف خوفناک آپریشن کا اہتمام کیا گیا۔ جس کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ مذہبی حلقوں نے اس صورتحال کا متفق ہو کر مقابلہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر کفر کے فتوے عائد کر کے الجزائر کے مسلمانوں کو خانہ جنگی سے دوچار کر دیا۔ اس باہمی تکفیر کی مہم کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد بیان کی جاتی ہے اور الجزائر کی دینی سیاست کی قوت اسی میں دم توڑ کر رہ گئی ہے۔
الجزائر کے مذہبی گروہوں میں ایک دوسرے کی تکفیر کی بنیاد پر ہونے والی خانہ جنگی نے قرون اولیٰ کے خارجیوں کی یاد تازہ کر دی جو بات بات پر مسلمانوں کی تکفیر کر کے ان پر چڑھ دوڑتے تھے اور ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیتے تھے۔ بصرہ پر خارجیوں کے قبضے کے بعد کم و بیش چھ ہزار مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ اور کوفہ پر خارجیوں کے کمانڈر ضحاک کے تسلط کے بعد بھی یہی صورتحال پیدا ہو گئی تھی مگر امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہؒ کی مداخلت اور فراست و تدبر کے باعث کوفے والوں کی جان بچ گئی۔ خارجی کمانڈر ضحاک نے کوفہ کے گورنر عبد اللہ بن عمرؒ کو، جو حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے فرزند تھے، شکست دے کر کوفے پر قبضہ کر لیا۔ اور جامع مسجد میں ہزاروں خارجیوں کو تلوار بکف کھڑا کر کے اعلان کیا کہ کوفہ والے چونکہ مرتد ہو گئے ہیں اس لیے وہ اس کے ہاتھ پر توبہ کر کے دوبارہ اسلام قبول کریں۔ امام ابوحنیفہؒ یہ بات سن کر ضحاک کے پاس چلے گئے اور فرمایا کہ ایک بات سمجھنے آیا ہوں کہ آپ نے کوفہ کے عام مسلمانوں کو مرتد قرار دے کر توبہ نہ کرنے اور دوبارہ ایمان قبول نہ کرنے والوں کو قتل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس نے کہا کہ ہاں، میں نے یہ اعلان کیا ہے، اس لیے کہ یہ سب لوگ مرتد ہو گئے ہیں اور مرتد کی سزا اسلامی شریعت میں قتل ہے۔ امام صاحبؒ نے فرمایا کہ مرتد تو وہ ہوتا ہے جو اپنا دین چھوڑ کر دوسرا دین اختیار کر لے، اور ان لوگوں نے اپنا دین تبدیل نہیں کیا، وہ بدستور اسی دین پر ہیں جس پر وہ پیدا ہوئے تھے، اس لیے یہ مرتد کیسے ہو گئے؟ یہ بات ضحاک خارجی کو تھوڑی سمجھ میں آئی تو اس نے کہا کہ اپنی بات دوبارہ دہراؤ۔ امام صاحبؒ نے اپنا ارشاد دہرایا تو ضحاک نے اپنی سونتی ہوئی تلوار جھکا دی اور کہا کہ ’’اخطانا‘‘ ہم سے غلطی ہو گئی، اور اس نے اپنے ساتھیوں کو تلواریں جھکا دینے کا حکم دے دیا۔ اس طرح حضرت امام اعظمؒ کی فراست و تدبر اور حوصلے کے باعث کوفہ والوں کی جان بچ گئی جس پر حضرت ابو مطیع بلخیؒ فرمایا کرتے تھے کہ ’’اہل الکوفۃ کلہم موالی ابی حنیفۃ‘‘ کوفہ والے سارے کے سارے ابوحنیفہ کے آزاد کردہ غلام ہیں، اس لیے کہ ان کی وجہ سے کوفہ والوں کی جان بچ گئی ہے۔
عالم اسلام کے مختلف حصوں میں اس قسم کے تکفیری اور متشدد گروہوں کو دیکھ کر خوارج کے اس دور کی یاد پھر سے تازہ ہو گئی ہے اور میں علماء کرام سے یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ بات بات پر تکفیر اور اس کی بنیاد پر بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام کی نفسیات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے خوارج کی تاریخ کا مطالعہ اور ان کے مقابلے میں اہل سنت کے ائمہ کرام خصوصاً امام اعظم ابوحنیفہؒ کی سیاسی جدوجہد سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر آج کے متشدد گروہوں کی نفسیات اور ذہنیت کو پوری طرح سمجھنا آسان نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہمیں آج ایک طرف نام نہاد روشن خیالی کا سامنا ہے جس کا مقصد مسلمانوں میں مغرب کی پیروی اور مغربی معاشرت و ثقافت کا ماحول پیدا کرنا اور اسلامی اقدار و روایات کا خاتمہ کرنا ہے اور دوسری طرف اس تنگ نظری کے کانٹوں نے بھی ملت اسلامیہ کے دامن کو بری طرح الجھا رکھا ہے جس کا نتیجہ بات بات پر تکفیر و تفسیق کے فتوے صادر کر کے مسلمانوں میں خانہ جنگی اور باہمی بے اعتمادی کو فروغ دینا ہے۔ آج بھی ہمارے لیے اہل السنۃ والجماعۃ کے ائمہ اور اکابر ’’اسوہ‘‘ ہیں جنھوں نے معتزلہ کی نام نہاد ’’روشن خیالی‘‘ اور خوارج کی ’’تنگ نظری‘‘ دونوں کو مسترد کر کے اعتدال و توازن کا راستہ اختیار کیا تھا اور امت مسلمہ کو ان دونوں انتہاؤں کا شکار ہونے سے بچا لیا تھا۔ خدا کرے کہ ہماری دینی قیادت اور علمی مراکز اس صورت حال کی نزاکت اور سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے اعتدال و توازن کے ساتھ امت مسلمہ کی صحیح سمت میں راہ نمائی کا فریضہ سرانجام دے سکیں، آمین یا رب العالمین۔