علماء کرام سے ملک کے بعض حلقوں کا یہ مسلسل مطالبہ ہے کہ وہ خودکش حملوں کے خلاف اجتماعی فتویٰ جاری کریں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حکومتی پالیسی کی حمایت کا دو ٹوک اعلان کریں۔ لیکن موجودہ صورتحال میں یہ بات بہت مشکل ہے کہ علماء کرام حکومت کی پالیسیوں کی آنکھیں بند کر کے حمایت کریں اور نہ ہی حکومت کو اس کی توقع کرنی چاہیے، اس لیے کہ جو بات جس حد تک درست ہوگی اس کی ضرور حمایت کی جائے گی، لیکن جو بات درست نہیں ہوگی اس کی حمایت نہیں کی جائے گی۔ بالخصوص موجودہ صورتحال میں دینی جماعتوں اور علماء کرام کے کچھ تحفظات ہیں جن کو دور کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مثلاً:
- دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حکومت دینی حلقوں کی بھرپور حمایت کی خواہش تو رکھتی ہے لیکن اپنی پالیسیوں پر انہیں اعتماد میں لینے کی ضرورت حکمران حلقوں نے کبھی محسوس نہیں کی۔ اگر آپ حمایت چاہتے ہیں تو اعتماد میں بھی لیجیے کہ جب تک صحیح صورتحال سے واقفیت نہیں ہوگی اور اعتماد نہیں ہوگا تو حمایت بھی مشکل ہو گی۔
- قومی خودمختاری کے حوالے سے ملک بھر کے عوام کی طرح دینی حلقے بھی شدید تحفظات اور بے چینی کا شکار ہیں اور ان کا اضطراب بڑھتا جا رہا ہے۔ بعض حکومتی پالیسیاں اور اقدامات کنفیوژن میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ حکومت کو اس سلسلے میں بھی دینی حلقوں اور علماء کرام کو اعتماد میں لینا ہوگا، ورنہ کنفیوژن اور بے اعتمادی کی اس فضا میں دینی حلقے حکومتی پالیسیوں کے بارے میں تذبذب کا شکار رہیں گے۔
- ۱۹۷۳ء کے دستور میں واضح طور پر ضمانت دی گئی ہے کہ ملک میں قرآن و سنت کے قوانین کا نفاذ عمل میں لایا جائے گا اور قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نافذ نہیں کیا جائے گا۔ اس دستوری ضمانت کو چھتیس برس گزر چکے ہیں مگر ابھی تک صورت حال جوں کی توں ہے اور حکومت اس سلسلے میں کسی پیشرفت پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی۔ ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ رکاوٹ کون ہے اور رکاوٹیں کہاں کہاں ہیں؟ جب تک اس کی وضاحت نہیں ہوتی، تذبذب کی فضا باقی رہے گی۔
- جہاں تک دہشت گردی اور خود کش حملوں کا تعلق ہے، علماء کرام متعدد بار یہ موقف پیش کر چکے ہیں اور اس کی وضاحت کر چکے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حدود میں کسی بھی مطالبہ اور مقصد کے لیے ہتھیار اٹھانا اور حکومتی رٹ کو چیلنج کرنا شرعاً درست نہیں ہے، اور جو لوگ ایسا کر رہے ہیں وہ غلط کر رہے ہیں۔ بالخصوص پُراَمن شہریوں، مساجد اور امام بارگاہوں کو اس کا نشانہ بنانا انتہائی مذموم فعل ہے جس کی ہم نے ہمیشہ پرزور مذمت کی ہے اور اب بھی کرتے ہیں۔ یہ موقف بالکل واضح ہے اور اس میں کوئی تردد نہیں ہے۔ لیکن یہ موقف الگ چیز ہے اور حکومتی پالیسیوں کی حمایت اور اس کے ساتھ کھڑا ہونا اس سے مختلف امر ہے۔
- دہشت گردی کے ان مذموم واقعات میں بیرونی عوامل، بالخصوص امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ اور اس کے مقاصد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اس سلسلے میں ملکی رائے عامہ اور دینی حلقوں کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔
اصل یہ ہے کہ فتویٰ میں ذمہ دار مفتیان کرام کو صرف یہ نہیں دیکھنا ہوتا کہ مسئلہ کی نوعیت کیا ہے، بلکہ یہ دیکھنا بھی مفتی کی ذمہ داری ہوتا ہے کہ فتویٰ کیوں لیا جا رہا ہے اور فتویٰ پوچھنے والے کے مقصد کو سمجھنا بھی ضروری ہے، تاکہ فتویٰ کسی غلط کام کے لیے استعمال نہ ہو سکے۔ اس لیے ذمہ دار علماء کرام جب کسی مسئلے پر فتویٰ دیں گے تو پوری صورتحال اور سارے پہلوؤں کو سامنے رکھ کر دیں گے۔ اور پوری صورتحال اور تمام پہلؤوں کو سامنے لانا فتویٰ پوچھنے والوں کی ذمہ داری بنتی ہے۔ ہمارے خیال میں موجودہ صورتحال میں علماء کرام کو اگر مجموعی طور پر کوئی اجتماعی فتویٰ دینا ہے تو وہ باہمی مشورہ سے تمام مکاتب فکر کے ذمہ دار مفتیان کرام کو مل کر جاری کرنا چاہیے اور اس کے لیے استفتاء کی ترتیب میرے ذہن میں کچھ اس طرح بنتی ہے:
’’کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
- پاکستان کے قیام کا مقصد قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے واضح طور پر یہ بتایا تھا کہ اس میں قرآن و سنت کی حکمرانی ہوگی اور دستور پاکستان میں بھی اس بات کی واضح طور پر ضمانت دی گئی ہے۔ جو لوگ گزشتہ ساٹھ برس سے اس میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، ان کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟
- جن لوگوں نے ملک میں نفاذِ شریعت کے نام پر ہتھیار اٹھا رکھے ہیں اور حکومتی رٹ کو چیلنج کر کے بداَمنی اور قتل و غارت کا باعث بنے ہوئے ہیں، بالخصوص مساجد، عبادت گاہوں اور پُراَمن شہریوں پر خودکش حملے کرنے والوں کا شرعی حکم کیا ہے؟
- ملک میں دہشت گردی کے تمام عوامل کی چھان بین کرنا اور اس کے اندرونی و بیرونی محرکات کا سراغ لگا کر انہیں بے نقاب کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ اور تحقیق کے بغیر ان سب کارروائیوں کا الزام کسی ایک طبقے پر لگا دینا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟ بینوا توجروا۔‘‘