عربی زبان کی تعلیم اور ہمارے قومی ادارے

   
مارچ ۲۰۱۷ء

روزنامہ اسلام لاہور میں ۱۷ فروری ۲۰۱۷ء کو شائع ہونے والی ایک خبر ملاحظہ فرمائیے۔

’’اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ کے ارکان نے ’’عربی بل ۲۰۱۵ء‘‘ کو بطور لازمی تعلیم پڑھانے پر بحث کے دوران اسے بطور مضمون نصاب میں شامل نہ کرنے کی وجہ کو دہشت گردی کا سبب قرار دیا۔ اسمبلی کی خصوصی نشست پر منتخب ہونے والی رکن اسمبلی نعیمہ کشور کی جانب سے پیش کردہ بل کو ان کی غیر موجودگی میں ہی کمیٹی میں زیر بحث لایا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رکن اسمبلی پروین مسعود بھٹی نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اس لئے دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے کیوں کہ طلبہ عربی نہیں پڑھ رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے ساری توجہ انگریزی پر دے رکھی ہے، والدین اپنے بچوں کو انگلش میڈیم سکولوں میں داخل کرواتے ہیں، وہ اپنے بچوں کو عربی کی تعلیم دلوانے کی زحمت تک نہیں کرتے اور اسی طرز عمل کے باعث ہی دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رکن اسمبلی سید علی رضا عابدی نے دلیل دی کہ جو لوگ ٹھیک طرح سے عربی بولتے ہیں وہ دہشت گرد بھی ہو سکتے ہیں اور دہشت گردی کو پھیلا بھی سکتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رکن اسمبلی نفیسہ خٹک نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ابتدائی تعلیم سے عربی کو لازمی زبان کے طور پر متعارف کرایا جائے۔ بچوں کو قرآن شریف پڑھنے اور سمجھنے کی اجازت دی جائے جس سے کئی افراد کو نوکریاں حاصل کرنے میں مدد حاصل ہو گی۔ کمیٹی چیئر مین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عربی نوکریوں کے مواقع بڑھانے میں مددگار ثابت نہیں ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو بچے قرآن پڑھنے اور سمجھنے کے فکر مند ہوتے ہیں وہ اسکول جانے سے پہلے اور بعد میں مساجد میں اس کی تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں۔ تاہم تحریک انصاف کے اسد عمر نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ قرآن کی زبان اور تشریح بچوں کو سمجھائی جانی چاہئے۔ وزارت کیپٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈیولپمنٹ ڈویژن (سی اے ڈی ڈی) کی سیکرٹری نرگس گھلو کے مطابق وزارت نے اس بل کی مخالفت کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیوں کہ ایک استاد کی جاب سے عربی کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھانا کافی نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صوبوں میں عربی کو بطور لازمی مضمون کے طور پر شامل کرنا بچوں پر اضافی بوجھ ہو گا ، جس طرح سندھ میں مقامی زبان بچوں پر سمجھنے کا بوجھ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عربی کو چھٹی جماعت سے ایک اختیاری مضمون کے طور پر تو شامل کیا جا سکتاہے مگر یہ دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر طالب علم عربی میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ انہوں نے تجویز دی کہ اس حوالے سے وفاق المدارس سے رائے طلب کی جائے ۔ مگر کمیٹی چیئرمین رانا محمد حیات خان نے وزارت سی اے ڈی ڈی کو ہدایات جاری کیں کہ کمیٹی ممبران کی رائے کے مطابق بل کو حتمی شکل دی جائے۔ ‘‘

عربی زبان قرآن و سنت کی تعلیمات تک براہ رست رسائی کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک کے ساتھ رابطہ کی زبان بھی ہے مگر قیام پاکستان کے بعد سے اس کے ساتھ مسلسل بے اعتنائی کا سلوک جاری ہے بلکہ عربی کے ساتھ ساتھ ہماری قومی زبان اردو بھی مقتدر طبقوں کے اسی ناروا سلوک کا شکار ہے جس کا تذکرہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے متعدد فیصلوں میں ہو چکا ہے۔ بدقسمتی سے نو آبادیاتی دور میں انگریزی زبان ہم پر اس اہتمام کے ساتھ مسلط کر دی گئی تھی کہ آزادی کے بعد سات عشرے گزر جانے پر بھی وہی نو آبادیاتی زبان ہم پر حکمرانی کر رہی ہے اور اس کے تسلّط سے نجات کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔

بین الاقوامی رابطہ کی زبان اور عصری علوم و فنون تک رسائی کا مؤثر ذریعہ ہونے کے حوالہ سے انگریزی کی اہمیت سے انکار نہیں ہے اور اس کی ضرورت ایک مسلّمہ امر ہے لیکن اسے زندگی کے ہر شعبہ میں حاوی کرنے اور اس کی وجہ سے اپنی دینی اور قومی زبانوں کو مسلسل نظر انداز کرتے چلے جانے کی پالیسی بہرحال سمجھ سے بالا تر ہے ، البتہ مذکورہ بالا خبر سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا احسا س ہمارے منتخب ارکان پارلیمنٹ میں بھی کسی نہ کسی حد تک پایا جاتا ہے اور خصوصاً عربی زبان کو تعلیمی نظام میں اس کا صحیح مقام نہ دینے کے نقصانات کا احساس اجاگر ہو رہا ہے۔

مثلاً قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں اس سلسلہ میں ہونے والی بحث میں دہشت گردی کے فروغ کا ایک بڑا سبب عربی کی تعلیم نہ دیے جانے کو قرار دیا گیا ہے اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے اس لئے کہ بہت سے دانش ور اور سیاسی راہ نما دہشت گردی کی بڑی وجہ مذہبی تعلیمات کے غلط استعمال کو بتاتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اسلام تو امن کا مذہب ہے اور قرآن و سنت نے امن و سلامتی کی تعلیم دی ہے مگر شدّت پسند عناصر اسلام کی ان تعلیمات کی بجائے اسلام کے نام پر شدّت پسندی کو فروغ دے رہے ہیں ۔ اگر ہمارے بعض دانش وروں کا یہ تجزیہ درست ہے تو اس کا حل اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ لوگوں تک اسلام کی صحیح تعلیمات کو پہنچانے کا مؤثر اہتمام کیا جائے۔ نئی نسل کو قرآن و سنت کے علوم تک براہ راست رسائی کے مواقع مہیا کئے جائیں اور قرآن و سنت کی تعلیم کو عام کرنے کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں اور یہ صرف دہشت گردوں کے حوالہ سے نہیں بلکہ جس فرقہ واریت کا مسلسل رونا رویا جا رہا ہے اس کا حل بھی یہی ہے کہ عربی زبان اور قرآن و سنت کی تعلیم کو زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے۔ یہ مشاہدہ کی بات ہے کہ مذہب کے نام پر فرقہ واریت میں شدت پسندی کا جو ماحول سب کیلئے تکلیف دہ صورت اختیار کئے ہوئے ہے وہ ان ممالک میں زیادہ ہے جہاں عربی زبان اور قرآن وسنت کی براہ راست تعلیم کا ماحول عام نہیں ہے۔ فقہی اختلافات تو عرب ممالک میں بھی موجود ہیں لیکن مذہبی مسائل پر شدت پسندی کا رجحان ہمارے ہاں زیادہ غالب ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عام لوگوں کی قرآن و سنت تک براہ راست رسائی نہیں ہے۔ اس پر مجھے ایک بہت پرانا واقعہ یاد آرہا ہے کہ غالباً تین عشرے قبل کی بات ہے کہ بس کے ایک لمبے سفر میں میرے ساتھ بیٹھے ہوئے صاحب نے مجھ سے بحث شروع کر دی کہ مولوی صاحبان نے لوگوں کو مسائل اور اختلافات میں الجھایا ہوا ہے اور وہ خوامخواہ لوگوں کو آپس میں لڑاتے رہتے ہیں ، میں نے کچھ تفصیل پوچھی تو کہنے لگے کہ مثلاً ایک مولوی صاحب تقریر کرتے ہیں اور کوئی مسئلہ بیان کر کے قرآن کریم کی دو تین آیات اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ احادیث پڑھ دیتے ہیں۔ کچھ دنوں کے بعد ایک اور مولوی صاحب آتے ہیں اور اس سے بالکل الٹ مسئلہ بیان کر کے وہ بھی دو تین آیات اور تین چار احادیث پڑھ دیتے ہیں۔ اب ہم کنفیوژ ہو جاتے ہیں کہ ادھر بھی قرآن کریم کی آیات اور احادیث ہیں اور دوسری طرف بھی آیات اور احادیث ہیں، کس کی بات مانیں اور کس سے انکار کریں۔

میں نے ان سے عرض کیا کہ میرے بھائی آپ کا کوئی بچہ سکول میں پڑھتا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ میرا چھوٹا بچہ سکول میں تعلیم حاصل کر رہا ہے ، میں نے کہا کہ اگر میں آپ کے اس بچے سے کہوں کہ سی۔اے۔ٹی کیٹ اور کیٹ کا مطلب چوہا ہے تو کیا وہ میری بات مان لے گا؟ اس نے کہا کہ وہ نہیں مانے گا۔ میں نے کہا کہ کیوں؟ اس نے کہا اس لئے کہ وہ کیٹ کا معنی خود جانتا ہے کہ کیٹ چوہے کو نہیں بلکہ بلّی کو کہتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ میرے بھائی تعجب کی بات ہے کہ آپ کا سکول میں تعلیم حاصل کرنے والا چھوٹا بچہ توایک انگریزی لفظ کا غلط معنی سُن کر کنفیوژ نہیں ہو ااور آپ قرآن و حدیث کے من مانے ترجمے سن کرروزانہ کنفیوژ ہوتے رہتے ہیں ۔ میں نے گزارش کی کہ میرے بھائی قصور مولوی کا نہیں آپ کا ہے۔ آپ اگر خود عربی جانتے ہیں اور قرآن و حدیث سے واقف ہیں تو کوئی بڑے سے بڑا مولوی بھی قرآن کریم کی کسی آیت اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث کے بارے میں آپ کو گمراہ نہیں کر سکتا ۔ اس لئے فرقہ واریت کے فروغ پر مولوی کو کوستے رہنے کی بجائے عربی زبان اور قرآن و سنت کی تعلیمات کو عام کیجئے۔ گمراہ کرنے والا مولوی خود بخود پس منظر میں چلا جائے گا۔ اسی طرح دہشت گردی کا معاملہ بھی ہے ، اگر عام مسلمان کی قرآن و سنت کی تعلیمات تک براہ راست رسائی ہو جائے اور وہ عربی زبان جانتا ہو تو وہ خود امن و سلامتی کے بارے میں قرآن و سنت کے ارشادات سے آگاہ ہو سکتاہے اور شدّت پسندی کیلئے اسلام کے غلط استعمال کا مقابلہ کر سکتا ہے۔

اس پس منظر میں ہم قومی اسمبلی کی مذکورہ قائمہ کمیٹی میں اس سلسلہ میں ہونے والے مباحثہ کا خیر مقدم کرتے ہیں اور دینی مدرسہ کے وفاقوں کی قیادت سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس مباحثہ میں سنجیدہ دل چسپی لیں اور عربی زبان کے جس بِل کا قائمہ کمیٹی کی اس رپورٹ میں تذکرہ کیا گیا ہے اس کا تفصیلی جائزہ لے کر اسے قومی اسمبلی سے منظور کرانے کیلئے جد و جہد کا اہتمام کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter