جمہوریت، کمیونزم اور اسلام

   
مارچ ۱۹۹۶ء

روزنامہ نوائے وقت لاہور ۴ فروری ۱۹۹۶ء کے مطابق وسطی ایشیا کی نو آزاد مسلم ریاست ازبکستان کے وزیر خارجہ کے مشیر ڈاکٹر ہدایتوف نے لاہور میں دانشوروں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ

’’اسلام اور کمیونزم باہم متضاد اور متصادم نظریات تھے، چنانچہ کمیونزم نے اپنے حریف نظریے (اسلام) کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ کمیونسٹوں نے وسطی ایشیا سے، جو امام بخاریؒ اور امام ترمذیؒ جیسی شخصیتوں کا مولد و مسکن رہا ہے، جہاں مختلف روحانی سلسلوں کی تحریکیں گہری جڑیں رکھتی تھیں، اسلامی اثرات کو ختم کرنے کی بہت کوشش کی، لیکن اسلام مسلمانوں کے دلوں، ذہنوں اور ان کی روحوں میں موجود رہا۔ سوویت یونین سے آزادی کے بعد اب وسطی ایشیا میں اسلام پھر تیزی سے اپنے اثرات مرتب کر رہا ہے۔ سوویت تسلط کے دوران وہاں صرف ۲۲ مسجدیں رہ گئی تھیں، اب ان کی تعداد ۲۲ ہزار ہے۔ تاشقند کے ہر محلے کی اپنی مسجد ہے۔ رمضان المبارک میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت روزہ رکھتی ہے اور عمرہ اور حج پر بھی لوگ بڑی تعداد میں جاتے ہیں۔‘‘

یہ اسلام کی صداقت کی ایک ایسی کھلی شہادت ہے جو روزِ روشن کی طرح ہر شخص پر واضح ہے۔ اس صدی کے دوران دنیا میں غلبہ حاصل کرنے والے دونوں فلسفہ ہائے حیات (۱) جمہوریت اور (۲) کمیونزم اپنی اپنی جگہ اسلام کو مٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے ہیں:

  • ترکی میں جمہوریت اور سیکولرازم نے مسلمانوں کے دلوں سے اسلام کو کھرچنے کی کوشش کی،
  • جبکہ وسطی ایشیا میں کمیونزم نے یہ ڈیوٹی سرانجام دینا چاہی۔

دونوں تجربے ایک ہی دور میں ہوئے اور دونوں کی کارفرمائی میں عالمِ اسباب میں کوئی رکاوٹ موجود نہیں تھی لیکن دونوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ نہ جمہوریت ترکی میں اسلامی اثرات کا خاتمہ کر سکی اور نہ کمیونزم وسطی ایشیا میں مسلمانوں کے ذہنوں سے اسلام کو محو کر سکا۔ جبکہ عالمی کشمکش کے حوالے سے دونوں بڑے کیمپوں کی سرتوڑ کوشش کے باوجود آج اسلام ترکی اور وسطی ایشیا دونوں جگہ ایک نئی اور تازہ دم قوت کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ یہ اسلام کی صداقت کی ایک انمٹ تاریخی گواہی ہے جسے شاعر نے ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ؎

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دو گے
   
2016ء سے
Flag Counter