۳۱ مارچ کو مینارِ پاکستان لاہور کے گراؤنڈ میں جمعیت علمائے اسلام پاکستان صوبہ پنجاب کے زیر اہتمام ”اسلام زندہ باد“ کانفرنس منعقد ہو رہی ہے، جس کے لیے پورے صوبے میں تیاریاں جاری ہیں اور جمعیت کے کارکن اسے اپنے لیے ایک چیلنج سمجھ کر بھرپور محنت کر رہے ہیں۔ مجھے بھی اس سلسلے میں دو تین اجتماعات میں شرکت کا موقع ملا ہے اور میں نے تمام دینی حلقوں، خاص طور پر ہم مسلک احباب سے گزارش کی ہے کہ وہ پاکستان کے اسلامی تشخص اور دستور کی اسلامی دفعات کے خلاف عالمی اور ملکی سیکولر حلقوں کی محاذ آرائی اور منصوبہ بندی کو سامنے رکھتے ہوئے جماعتی ترجیحات سے بالاتر ہو کر اس اجتماع کو کامیاب بنانے کے لیے کردار ادا کریں، کیونکہ عام انتخابات سے قبل اس قسم کی عوامی قوت کا مظاہرہ دینی سیاست کے حوالہ سے انتہائی ضروری ہے۔
اس مناسبت سے اپنی اس گفتگو کا کچھ حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں، جو گزشتہ جمعرات یعنی ۲۱ مارچ کو جامعۃ الرشید کراچی میں اساتذہ اور طلبہ کی دو نشستوں میں تفصیل کے ساتھ کرنے کا مجھے موقع ملا ہے۔ گفتگو کا عنوان ”پاکستان کی دینی تحریکات“ تھا۔ اس میں سے نفاذ اسلام کی جدوجہد میں جمعیت علمائے اسلام کے کردار سے متعلقہ حصہ نذر قارئین کر رہا ہوں، باقی گفتگو بھی کسی مناسب موقع پر قلمبند کر کے پیش کرنے کی کوشش کروں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ قیامِ پاکستان کے بعد اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی اس نئی ریاست کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں یہ بات زیر بحث آ گئی تھی کہ ملک کی دستوری بنیاد اور نظام حکومت کی اساس کیا ہو گی؟ بعض حلقوں کا خیال تھا کہ چونکہ دور حاضر میں حکومتوں اور ریاستوں کا مذہب کے ساتھ تعلق رائج نہیں رہا، اس لیے پاکستان میں بھی سیکولر نظامِ حکومت کو اختیار کرنا چاہیے۔ جبکہ ملک بھر کے دینی حلقوں اور عوام کی اکثریت کا موقف یہ تھا کہ پاکستان کا قیام اسلام کے نعرہ پر اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے احیاء کے نام پر عمل میں آیا ہے، اس لیے اسے اسلامی نظریاتی ریاست کے طور پر اپنی قومی زندگی کا آغاز کرنا چاہیے۔
اس کے لیے ملک کے دینی حلقوں اور اسلامی نظام پر یقین رکھنے والی جماعتوں کی قیادتوں نے دستور ساز اسمبلی سے باہر اس کے لیے آواز اٹھائی، جبکہ اس وقت کے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی قدس اللہ سرہ العزیز نے دستور ساز اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے ایوان کے اندر اس آواز کی مؤثر نمائندگی فرمائی۔ وہ سلہٹ سے دستور ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور تحریک پاکستان کے سرکردہ قائدین میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ان کی کوششوں سے اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان مرحوم نے دستور ساز اسمبلی سے ”قرارداد مقاصد“ منظور کروائی، جو پاکستان کی نظریاتی شناخت اور دستور ساز پاکستان کی اسلامی اساس کی حیثیت رکھتی ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ کا اعلان کرتے ہوئے یہ قرار دیا گیا ہے کہ ملک میں حکمرانی کا حق عوام کے منتخب نمائندوں کو حاصل ہو گا اور پارلیمنٹ و حکومت نظامِ حکومت چلانے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و احکام کے پابند ہوں گے۔ دستوری محاذ پر یہ پہلی کامیابی تھی جس میں ملک کے دینی حلقوں نے پیش رفت کی اور دستور ساز اسمبلی میں اس مہم کی قیادت جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے فرمائی۔
ملک کے موجودہ دستور میں، جو ۱۹۷۳ء کا دستور کہلاتا ہے، عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہونے والی دستور ساز اسمبلی نے ۱۹۷۳ء میں اسے منظور کیا تھا اور تب سے یہ ملک میں نافذ چلا آ رہا ہے۔ اس میں پاکستان کو ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کا سرکاری نام دیا گیا، اسلام کو ملک کا ریاستی دین قرار دیا گیا اور پارلیمنٹ کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ نہ صرف یہ کہ مروجہ تمام قوانین کو اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالے گی، بلکہ آئندہ بھی قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنا سکے گی۔ اگرچہ ملک کی حکومتیں عملاً اس کے خلاف ہی کرتی آ رہی ہیں، لیکن قرارداد مقاصد اور دستور کی دیگر اسلامی دفعات کی وجہ سے دستوری طور پر بہرحال یہ ایک اسلامی ریاست ہے اور اسے عملی طور پر اسلامی ریاست بنانے کی جدوجہد جاری ہے۔
۱۹۷۳ء کے دستور میں ان اسلامی دفعات کی شمولیت کی محنت جن اکابر نے کی، ان میں دیگر اسلامی جماعتوں کے نمائندوں کے علاوہ دستور ساز اسمبلی میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ، حضرت مولانا عبد الحقؒ، حضرت مولانا عبد الحکیمؒ، حضرت مولانا صدر الشہیدؒ اور حضرت مولانا نعمت اللہؒ بھی شامل تھے، جو جمعیت علمائے اسلام کے نمائندے تھے۔ بلکہ حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے اسمبلی میں اپوزیشن کے لیڈر کی حیثیت سے اس پوری جدوجہد کی قیادت فرمائی تھی۔
۱۹۷۳ء کی تحریک نظام مصطفیٰ کے نتیجے میں جب جنرل محمد ضیاء الحق شہیدؒ نے مارشل لاء نافذ کیا اور ملک میں نفاذ اسلام کی طرف پیش رفت کا اعلان کیا تو سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے دیے جانے والے اختیارات کے تحت انہوں نے قرارداد مقاصد کو دستور کے دیباچے سے نکال کر واجب العمل حصہ میں شامل کیا اور وفاقی شرعی عدالت کا قیام عمل میں لایا، جس کا کام ملک میں رائج غیر اسلامی قوانین کو اسلامی دائرے میں لانا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اور بھی بعض اقدامات کیے۔ ان اقدامات کے اصل محرک ”پاکستان قومی اتحاد“ کے سربراہ حضرت مولانا مفتی محمودؒ تھے، جن کی تحریک اور مشاورت کے ساتھ یہ اقدامات کیے گئے اور ان کی راہ نمائی میں یہ دستوری پیش رفت ہوئی۔
۱۹۸۵ء میں سینیٹ آف پاکستان کا رکن منتخب ہونے کے بعد مولانا سمیع الحق اور مولانا قاضی عبد اللطیفؒ نے جو جمعیت علمائے اسلام کے سرکردہ راہ نما تھے، ”شریعت بل“ کے عنوان سے قرآن و سنت کی دستوری بالادستی کا بل پیش کیا، جس کے لیے ملک بھر میں عوامی مہم چلائی گئی اور ”متحدہ شریعت محاذ“ قائم کر کے حضرت مولانا عبد الحقؒ آف اکوڑہ خٹک کی قیادت میں تمام مکاتب فکر نے مشترکہ تحریک چلائی۔ یہ شریعت بل سینیٹ آف پاکستان نے منظور کر لیا، جبکہ قومی اسمبلی میں اس بل کو اس شرط کے ساتھ منظور کیا گیا کہ ”بشرطیکہ ملک کا سیاسی نظام اور حکومتی ڈھانچہ متاثر نہ ہو“۔ اس سے اس بل کے ذریعہ قرآن و سنت کی غیر مشروط بالادستی کا مقصد محدود ہو کر رہ گیا۔
سابقہ قومی اسمبلی جب وجود میں آئی تو اس نے پورے دستور پر نظر ثانی کے لیے کمیٹی قائم کی۔ اس موقع پر سیکولر جماعتوں نے قرارداد مقاصد، دستور کی اسلامی دفعات، قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے قانون اور ناموس رسالت کے تحفظ کے قانون کو ختم کرانے یا غیر مؤثر بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور اسمبلی میں اس سلسلے میں ترامیم بھی پیش کی گئیں، لیکن جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے دوسری جماعتوں کے راہ نماؤں کے ساتھ مل کر کمال تدبر و فراست اور جرأت و حوصلہ کے ساتھ اس چیلنج کا سامنا کیا اور سیکولر حلقوں کی اس کوشش کو ایوان کے اندر ناکام بنا دیا۔
ملک کی اسلامی شناخت اور دستور کی اسلامی دفعات کے تحفظ اور اس سے آگے بڑھ کر دستور کے مطابق ملک کو عملی طور پر ایک صحیح اسلامی ریاست بنانے کی جدوجہد بھی جاری ہے، کیونکہ عالمی سیکولر حلقے اور ملک میں ان کے گماشتے نئی تیاری اور منصوبہ بندی کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں اور آنے والے عام انتخابات اس کے لیے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس لیے ملک کے تمام دینی حلقوں سے اپیل ہے کہ وہ نہ صرف ۳۱ مارچ کی ”اسلام زندہ باد کانفرنس“ کی بھرپور کامیابی کے لیے جمعیت علمائے اسلام سے تعاون کریں، بلکہ انتخابات میں مذہبی ووٹ کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے بھی اپنا کردار ادا کریں۔ ”پاکستان شریعت کونسل“ نے اس سلسلے میں دینی جماعتوں کے ساتھ رابطوں کا آغاز کر دیا ہے اور ہماری کوشش ہے کہ ملک کی اسلامی اساس پر یقین رکھنے والی جماعتیں باہمی اشتراک و تعاون کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیں یا کم از کم سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعہ مذہبی راہ نماؤں کو آپس میں مد مقابل ہونے سے روکیں اور مذہبی ووٹ کو تقسیم ہونے سے بچائیں، تاکہ سیکولر حلقوں کی سازش کو ناکام بنایا جا سکے۔