سوال: عام طور پر یہ سننے میں آتا ہے کہ حق مہر شرعی طور پر ۳۲ روپے ہے، اس کی کیا حقیقت ہے؟ (حافظ محمد سعید، کچا دروازہ، گوجرانوالہ)
جواب: اس کی کوئی اصلیت نہیں ہے۔ مہر کے بارے میں بہتر بات یہ ہے کہ خاوند کی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے جسے وہ آسانی سے ادا کر سکے۔ کچھ عرصہ قبل تک ایک سو بتیس روپے چھ آنے کو مہر فاطمی کے برابر سمجھا جاتا تھا جو کسی دور میں ممکن ہے صحیح ہو لیکن چاندی کی موجودہ قیمت کے لحاظ سے کسی صورت بھی یہ مہر فاطمی نہیں ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا مہر پانچ سو درہم تھا۔ درہم چاندی کا سکہ تھا جس کا وزن ساڑھے تین ماشے بیان کیا جاتا ہے۔ اس حساب سے پانچ سو درہم کا وزن ساڑھے سترہ سو ماشے بنتا ہے یعنی ایک سو پینتالیس تولے دس ماشے۔ اور ان دنوں چاندی کا بھاؤ کم و بیش ۷۰ روپے تولہ ہے، اس طرح چاندی کی موجودہ قیمت کے حساب سے مہر فاطمی دس ہزار روپے سے زائد بنتا ہے۔
اس لیے بتیس روپے کو شرعی مہر قرار دینا درست نہیں ہے بلکہ احناف کے ہاں تو بتیس روپے مہر مقرر کرنا ویسے بھی جائز نہیں ہے کیونکہ احناف کے نزدیک مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم متعین ہے جس کی بنیاد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر ہے کہ ’’لا مہر اقل من عشرۃ دراھم‘‘ یعنی دس درہم سے کم مہر جائز نہیں ہے۔ دس درہم کا وزن ایک ماشہ کم تین تولے ہے اور قیمت کے اعتبار سے دو سو روپے کے لگ بھگ رقم بنتی ہے۔ اس سلسلہ میں صاحبِ ہدایہؒ نے مہر کے باب میں احناف کے اس موقف کی وضاحت کی ہے کہ اگر کسی نے دس درہم سے کم مہر مقرر کر لیا تو بھی اسے کم از کم دس درہم یعنی دو سو روپے کے لگ بھگ ہی ادا کرنا ہوں گے۔