قرآن و سنت کی معاشرتی تعلیمات، اسلامی تاریخ کے دور نبویؐ اور خلافت راشدہ کے نظام سے باخبر نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے جدید تعلیم یافتہ دوستوں کا ایک حلقہ مسلسل غلط فہمی کا شکار رہتا ہے کہ یورپ کے قرون مظلمہ (تاریک صدیوں) کی طرح ہمارا ماضی بھی بے علمی، جہالت اور ظلم و جبر سے عبارت تھا اور انقلابِ فرانس نے مغربی معاشرہ کی طرح ہمیں بھی پہلی بار اس دور سے نکال کر روشنی کی طرف لے جانے کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب اور اس کے فلسفہ و نظام کا طوق ہر وقت گردن میں پہنے رہنے میں عافیت محسوس کی جاتی ہے۔ حالانکہ انقلابِ فرانس سے ایک ہزار سال قبل ہم بطور مسلمان نہ صرف علم و آگہی اور حقوق و فرائض کے فرق سے خود آگاہ تھے بلکہ اس کی عملی شکل بھی ہم نے دنیا کے سامنے پیش کر دی تھی اور اسی روشنی سے مغرب نے نجات کی راہ پائی ہے۔
مغرب نے سوسائٹی، سماج اور ریاست و حکومت کے نئے دائرے قائم کیے تو اپنے ماضی سے بے خبر ہونے کے باعث ہمارے لیے بھی وہ بظاہر نئے ہی تھے۔ جبکہ اس دوران ہم دنیا کے بیشتر حصوں میں مغرب کی نوآبادیاتی غلامی کا کم و بیش دو صدیوں کو محیط دورانیہ گزار چکے تھے۔ اس لیے مغربی تعلیم اور تمدن کے ماحول میں پرورش پانے کی وجہ سے ہمارے بہت سے دانشوروں کے ذہنوں میں یہ بات رچ گئی کہ ہم نے بھی اپنے مستقبل کا معاشرتی ڈھانچہ اپنے روشن ماضی کی بجائے مغرب کے متنازعہ اور مشکوک حال کی بنیادوں پر استوار کرنا ہے۔ اور اسی نفسیات کی کوکھ سے اس بحث نے جنم لیا ہے کہ کیا ریاست اور مذہب کا کوئی تعلق ہوتا ہے؟ اور کیا حکومت اپنا نظام چلانے کے لیے وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات سے راہنمائی حاصل کرنے کی پابند ہوتی ہے؟
یہ سوال مغرب کے اس معاشرتی فلسفے کا پیدا کردہ ہے جس نے آسمانی تعلیمات کو سماج کے اجتماعی معاملات سے بے دخل کر رکھا ہے اور جس کی بنیاد قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق ’’ان یتبعون الا الظن وما تھوی الانفس‘‘ (وہ صرف عقل و گمان او رخواہشات کی پیروی کرتے ہیں) کے طرز عمل پر ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد اسی آیت کریمہ میں ’’ولقد جاءھم من ربھم الہدیٰ‘‘ کا اعلان بھی کر دیا ہے کہ ہدایت وہی ہے جو رب کی طرف سے نازل ہوتی ہے۔ ایک مجلس میں کسی دوست نے یہ سوال کیا تو میں نے عرض کیا کہ میرے بھائی! اگر تو ہم ریاست و حکومت اور معاشرہ و سماج کے دور میں ازسرِ نو داخل ہو رہے ہیں، اس سے قبل ان باتوں سے ہمارا کبھی کوئی واسطہ نہیں رہا اور یہ سارے معاملات ہم نے زیرو پوائنٹ سے از خود طے کرنے ہیں تو اس سوال پر زیادہ سے زیادہ بحث ہونی چاہیے۔ لیکن یہ مسائل اگر ہمیں اس سے قبل بھی پیش آچکے ہیں او رخود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے دور میں ہمیں ان سے سابقہ پیش آیا تھا تو پھر ’’انقلابِ فرانس‘‘ سے کچھ دیر کے لیے نظر ہٹا کر ہمیں یہ دیکھ لینا چاہیے کہ اس دور میں ان سوالات سے کیسے نمٹا گیا تھا اور جناب رسول اللہؐ اور ان کی تربیت یافتہ جماعت نے اس سلسلہ میں کیا راہنمائی کی تھی؟
الفاظ کی میناکاری اور اصطلاحات کے گورکھ دھندوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے صرف واقعاتی ترتیب پر ایک نظر ڈال لیجئے کہ جناب نبی اکرمؐ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے بعد آزاد معاشرتی ماحول میسر آنے پر سب سے پہلا کام یہ کیا تھا کہ ایک آزاد ریاست قائم کی تھی جس کے سربراہ خود آنحضرتؐ تھے۔ اس کے لیے اردگرد کے مسلم اور غیر مسلم قبائل کے ساتھ مذاکرات کے بعد ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کے نام سے ایک دستوری معاہدہ طے کیا گیا تھا جو نافذ ہوا تھا اور اسی کی بنیاد پر یہ علاقائی ریاست رفتہ رفتہ پھیلتے پھیلتے جناب نبی اکرمؐ کے وصال تک صرف دس سال کے عرصہ میں پورے جزیرۃ العرب تک وسعت اختیار کر گئی تھی۔
یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ نماز باجماعت کا اہتمام بعد میں ہوا تھا، رمضان المبارک کے روزے اس کے بعد فرض ہوئے تھے اور حج کا فریضہ تو اس کے بہت بعد سامنے آیا تھا۔ ان سب کاموں سے پہلے ریاست قائم ہوئی تھی اور حکومت وجود میں آئی تھی۔ یہ سارے کام مسلسل دس سال تک اسی ریاست و حکومت کے نظم کے تحت چلائے جاتے رہے ہیں اور جناب رسول اکرمؐ کی ذات گرامی اس سارے نظام کا مرکز و محور رہی ہے۔ پھر جناب رسول اکرمؐ کے وصال پر اسی ریاست و حکومت نے ’’خلافت‘‘ کی شکل اختیار کی تو خلیفہ اول حضرت صدیق اکبرؓ نے اپنے پہلے خطبہ میں یہ اعلان کیا کہ میں قرآن و سنت کے مطابق حکومت کروں گا اور حکومت و رعیت کے درمیان تعلق کی بنیاد قرآن و سنت کے ساتھ یہی وفاداری ہوگی۔
ریاست و مذہب کے درمیان تعلق کی تلاش میں اس کے بعد اگر کسی اور دلیل کی ضرورت باقی ہے تو خدانخواستہ کسی نئی وحی کا انتظار ہی اس کی عملی صورت ہو سکتی ہے، ورنہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ اور خلفائے راشدین کے طرزِ عمل کی صورت میں ریاست ، حکومت اور مذہب کے باہمی تعلق کے اصول و احکام تو ہمارے پاس موجود ہی ہیں۔