افغانستان اور عراق کے بارے میں اسلامی دنیا کے الگ الگ معیارات

   
تاریخ : 
۱۴ ستمبر ۲۰۰۲ء

ایک سال قبل گیارہ ستمبر کے روز نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور واشنگٹن کے پینٹاگون پر ہونے والے خودکش حملوں کی یاد منائی جا چکی ہے۔ ان حملوں میں ہزاروں افراد جاں بحق ہوئے اور اس کارروائی نے پوری دنیا کی سیاست کا رخ تبدیل کر دیا۔ سیاسی وابستگیوں کے پیمانے بدل گئے، اخلاق و اقدار کے معیار تبدیل ہوگئے، حقوق و مفادات کی کشمکش نے ایک نیا انداز اختیار کر لیا، دنیا کی واحد طاقت ہونے کے نشہ سے سرشار امریکہ کے لیے یہ وار ہوش و حواس سے محرومی کا باعث بن گیا، بے بس مظلوموں پر خوفناک قیامت ٹوٹ پڑی، اور تاریخ عالم میں ایک بار پھر عقل و خرد کے ساتھ اصول و شرافت کو بھی پامال کر دیا گیا۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کو نیویارک اور واشنگٹن پر جو قیامت ٹوٹی تھی اس کی ہولناکی اپنی جگہ مگر اس کی آڑ میں امریکہ کی خدائی کو تسلیم نہ کرنے والوں پر جو قیامت ٹوٹی ہے وہ ختم ہونے میں نہیں آرہی۔ اس قیامت کے بطن سے نئی نئی قیامتیں جنم لیتی چلی جا رہی ہیں اور اس سب کچھ کے باوجود ’’دنیا کے بادشاہ‘‘ کا غصہ کسی طرح ٹھنڈا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

تباہی کا شکار ہونے والے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی جگہ ایک تقریب منعقد ہوئی ہے جو اس حوالہ سے منعقد ہونے والی سب سے بڑی اور سب سے اہم تقریب تھی۔ اس میں ایک سال قبل اس مقام پر جاں بحق ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے نئے عزم اور پروگرام کا اعلان کیا گیا۔ اس سلسلہ میں ایک چھوٹی سی تقریب ہم نے بھی مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں منعقد کی جو صبح گیارہ سے دو بجے تک رہی۔ اس میں بھی ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون کے حملوں میں جاں بحق ہونے والے بے گناہ شہریوں کی موت پر صدمہ کا اظہار کیا گیا اور ان کے خاندانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اہل علم و دانش کو اس طرف توجہ دلانے کی کوشش کی گئی کہ وہ گیارہ ستمبر کے سانحات میں ہونے والے نقصانات کے ساتھ ساتھ اس کے ردعمل میں بے بس اور نہتے لوگوں پر ڈھائی جانے والی قیامتوں کے نقصانات کا بھی جائزہ لیں اور دانش و انصاف کے حوالے سے فیصلہ کریں کہ دہشت گردی کے اس مقابلہ میں جیت کس پہلوان کی ہوئی ہے؟ اور دہشت گردی کا جواب اس سے بڑی دہشت گردی کے ساتھ دینے والوں نے انسانیت اور تہذیب و تمدن کی کون سی خدمت کی ہے؟

اس مقامی تقریب کی صدارت مولانا قاضی حمید اللہ خان نے کی جبکہ اس سے خطاب کرنے والوں میں جے یو آئی کے مولانا محمد امجد خان، جے یو پی کے مولانا مفتی غلام فرید رضوی، جمعیۃ اہل حدیث کے مولانا محمد اعظم، بریلوی مکتب فکر کے مولانا خالد حسن مجددی، ان کے علاوہ مولانا سید عبد المالک شاہ، مولانا ایوب صفدر، اور مولانا حافظ گلزار احمد آزاد بھی شامل ہیں۔

راقم الحروف نے اس سیمینار کے داعی کی حیثیت سے چند گزارشات پیش کیں اور عرض کیا کہ گیارہ ستمبر اور اس کے بعد ایک سال کے دوران ہونے والے واقعات پر میرے نزدیک سب سے بہترین تبصرہ اقوام متحدہ کی کمشنر برائے انسانی حقوق میری رابنسن نے کیا ہے۔ یہ خاتون آئرلینڈ کی صدر رہ چکی ہیں اور ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ کی کمشنر برائے انسانی حقوق کے منصب سے سبکدوش ہوئی ہیں۔

میری رابنسن نے اپنے الوداعی انٹرویو میں کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دنیا بھر میں انسانی حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے اور دنیا بھر میں بہت سے ممالک دہشت گردی کے خلاف لڑائی کو شہری اور سیاسی آزادیاں ختم کرنے کے لیے ایک بہانے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات کے بعد انسانی حقوق کی پامالی کا رجحان پیدا ہوا ہے اور بعض ملکوں میں اختلاف رائے رکھنے والوں پر دہشت گردی کا ٹھپہ لگاتے ہوئے آزادیٔ اظہار کو کچلا جا رہا ہے۔ لوگوں کو لمبی مدت کے لیے زیر حراست رکھا جا رہا ہے، بش انتظامیہ نے طالبان اور القاعدہ کے سینکڑوں قیدیوں کو گوانتاناموبے (کیوبا) میں کوئی الزام عائد کیے بغیر بند کر رکھا ہے اور اس نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے معیار میں تنزلی کی مثال قائم کر دی ہے۔

محترمہ میری رابنسن کا یہ تجزیہ حقیقت پسند افراد اور گروہوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے جس پر دنیا بھر کے انصاف پسند لوگوں کو توجہ دینی چاہیے۔ راقم الحروف کی دوسری گزارش ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد مسلم ممالک کے حکمرانوں کے طرز عمل کے بارے میں تھی کہ ہمارے مسلمان حکمرانوں نے اس سانحہ کے بعد کہا تھا کہ ہم امریکہ کا ساتھ دینے پر مجبور ہیں اور اس کے سوا ہمارے لیے اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ کیونکہ امریکہ نے بھی ان سے دوٹوک کہہ دیا ہے کہ ہمارا عملی طور پر ساتھ دو ورنہ تمہیں دشمنوں کی صف میں شمار کیا جائے گا۔ لیکن آج عراق کے معاملہ میں عرب اور دیگر مسلم حکمران امریکہ کا ساتھ نہ دینے کا اعلان کر رہے ہیں اور عراق کے خلاف امریکی الزامات کے ثبوت پیش کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے مسلم حکمرانوں میں امریکہ کا ساتھ نہ دینے کے اعلان کا حوصلہ اور الزامات کا ثبوت طلب کرنے کی جرأت ایک سال قبل کہاں تھی؟ اور صرف ایک سال بعد اس حوصلہ اور جرأت کو نئی زندگی کہاں سے مل گئی ہے؟ یہ ثبوت افغانستان کے حوالہ سے طلب کیوں نہیں کیے گئے اور وہاں امریکہ سے یہ کہنے کی جرأت کیوں نہیں کی گئی کہ ہم اس جنگ میں تمہارا ساتھ دینے سے قاصر ہیں؟

ہم عام مسلمانوں کے نزدیک تو افغانستان اور عراق دونوں پر امریکی حملے یکساں حیثیت رکھتے ہیں اور ہم دونوں ملکوں کے مظلوم عوام کے ساتھ ہیں لیکن مسلم حکمرانوں نے افغانستان اور عراق کے لیے الگ الگ معیار کیسے قائم کر لیا ہے اور ان کی مجبوری و بے بسی ایک سال گزرنے سے بھی پہلے امریکہ سے ثبوت طلب کرنے اور ساتھ نہ دینے کے اعلان کے حوصلہ میں کیسے تبدیل ہو گئی ہے؟ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ مسلم حکمران افغانستان کی اسلامی نظریاتی حکومت سے خود خائف تھے اور انہیں خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ اگر یہ حکومت کامیاب ہوگئی تو ان کے ملکوں میں استعمار کے مسلط کردہ نظاموں اور جبر و استحصال کے طریقوں کو کامیاب رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے خود انہوں نے اپنے سرپرست سے کہہ کر افغانستان کی اسلامی نظریاتی حکومت کا دھڑن تختہ کرا دیا جبکہ عالم اسلام کی رائے عامہ کے سامنے جواب دہی سے بچنے کے لیے خود پر مجبوری اور بے بسی کی مصنوعی چادر تان رکھی ہے۔ ورنہ صرف ایک سال کے دوران افغانستان اور عراق کے حوالہ سے مسلم حکومتوں کے موقف اور پالیسی میں اس بنیادی تبدیلی کی اور کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔

سیمینار کے شرکاء اور مقررین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ گیارہ ستمبر کے سانحہ کی آڑ میں عالم اسلام پر جو یکطرفہ جنگ مسلط کی گئی ہے اس میں ظلم و جبر اور دہشت و بربریت کا پورے حوصلہ اور صبر کے ساتھ مقابلہ کیا جائے گا۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ مسلمان ملکوں کے اندر ظلم و جبر اور استحصال کے جو نظام مسلط ہیں اور عالمی سطح پر جبر و استحصال کا جو شکنجہ دن بدن سخت سے سخت تر ہوتا جا رہا ہے انہیں عقیدہ و ایمان اور دین کی قوت کے ساتھ ہی شکست دی جا سکتی ہے۔ اور جذبۂ ایمانی ہی ایک ایسی قوت ہے جو وسائل و اسباب کی کمی بلکہ فقدان کے باوجود بڑی سے بڑی قوت اور طاقت کا سامنا کر سکتی ہے اور اسے شکست دے سکتی ہے۔ اس لیے عالم اسلام اور پاکستان دونوں کی سالمیت اور خودمختاری کا تقاضا ہے کہ دینی قوتوں کو مستحکم کیا جائے، انہیں مضبوط کیا جائے اور انہیں سیاسی و اخلاقی سپورٹ دی جائے کیونکہ یہی ایک قوت ہے جو دنیائے اسلام اور پاکستانی قوم کو جبر و استحصال کے شکنجے سے نجات دلا سکتی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter