ریاست آزاد جموں و کشمیر میں ضلع اور تحصیل کی سطح پر جج صاحبان کے ساتھ علماء کرام کو بطور قاضی مقرر کر کے مشترکہ عدالتی نظام کا جو سلسلہ سالہا سال سے کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے اور اس کے معاشرتی اثرات و ثمرات ہر سطح پر محسوس کیے جا رہے ہیں، وہ نظام اب ’’ریورس گیئر‘‘ کا شکار ہے اور اسے ختم یا محدود کر دینے کے لیے مبینہ طور پر قانون سازی کی جا رہی ہے۔ اس سلسلہ میں آزاد کشمیر کے علماء کرام کا موقف ہم گزشتہ کالم میں پیش کر چکے ہیں۔
تحریک آزادیٔ کشمیر کے نامور راہنما، جمعیۃ علماء اسلام آزاد کشمیر کے سابق امیر اور ریاستی اسمبلی کے سابق رکن شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف خانؒ کے ساتھ راقم الحروف نے گزشتہ صدی عیسوی کے آخری سال جولائی کے دوران پلندری حاضر ہو کر جہادِ کشمیر میں علماء کرام کے کردار اور شرعی قاضیوں کے مذکورہ نظام کے پس منظر کے حوالہ سے ایک انٹرویو کیا تھا جس میں انہوں نے ان معاملات پر تفصیل سے روشنی ڈالی تھی۔ یہ انٹرویو ایک قومی اخبار میں شائع ہوا تھا، موجودہ حالات میں اس کی دوبارہ اشاعت کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے، چنانچہ اسے قارئین کی خدمت میں پھر سے پیش کیا جا رہا ہے۔
’’مولانا محمد یوسف خان نے بتایا کہ کشمیر کی آزادی اور اسے ایک مکمل اسلامی ریاست بنانے کے لیے کشمیری عوام کی جدوجہد کا سلسلہ بہت پرانا ہے اور کشمیری مجاہدین امیر المومنین سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کے اس جہاد میں بھی شریک رہ چکے ہیں جس کا اصل ہدف کشمیر پر قبضہ کرنا اور اسے تحریک آزادی کا بیس کیمپ بنانا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ بالاکوٹ کی طرف شہدائے بالاکوٹ کے قافلہ کی آمد کا مقصد بالاکوٹ کا علاقہ نہیں بلکہ مظفر آباد تھا جس پر قبضہ کے لیے وہ تیاریاں کر رہے تھے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بیٹےشیر سنگھ کی فوجوں نے بالاکوٹ میں ان کا محاصرہ کر لیا اور وہ علاقہ کے کچھ لوگوں کی مخبری پر شیر سنگھ کی فوجوں کے گھیرے میں آ کر شدید مقابلہ کے بعد جام شہادت نوش کر گئے۔ شہدائے بالاکوٹ کے ساتھ ان جنگوں میں ریاست پونچھ کے بہت سے لوگ شریک تھے، چنانچہ بالاکوٹ کے اس معرکہ کے بعد پونچھ کے مجاہدین آزادی کو سزا دینے کے لیے جموں کا ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ خود اس علاقہ میں آیا اور اس نے چن چن کر ایسے لوگوں کو گرفتار اور قتل کیا جن کے بارے میں اسے شبہ تھا کہ وہ شہدائے بالاکوٹ کے ساتھ پشاور سے بالاکوٹ تک کی جنگوں میں شریک رہے ہیں۔ ہزاروں مسلمان گرفتار کیے گئے، سینکڑوں کو جموں لے جایا گیا، بیسیوں افراد کے سر کاٹ کر ان کے سروں کی پلندری اور گرد ونواح میں نمائش کی گئی اور آزادی کے دو متوالوں سردار سبز علی خان شہیدؒ اور سردار ملی خان شہیدؒ کو راجہ گلاب سنگھ نے اپنے سامنے درختوں کے ساتھ الٹا لٹکا کر زندہ حالت میں ان کی کھالیں اتروا دیں۔ یہ واقعہ ۱۹۳۲ء کا ہے اور اس کی یادیں ابھی تک علاقہ کے پرانے بزرگوں کے دلوں میں تازہ ہیں جو انہوں نے اپنے باپ دادا سے سن رکھی ہیں۔
اس موقع پر مولانا محمد یوسف خان کے ساتھ ہماری مجلس میں موجود ایک بزرگ نے کہا کہ گلاب سنگھ کی طرف سے مسلمانوں کے قتل عام پر انعام مقرر کیا گیا تھا کہ جو کسی مجاہد کا سر لائے گا، اسے آٹھ آنے ملیں گے اور ان کے کسی حمایتی مسلمان کا سر لانے والے کو چار آنے انعام دیا جائے گا۔ اسی مجلس میں مولانا سعید یوسف خان نے بتایا کہ ان واقعات کا تذکرہ خود راجہ گلاب سنگھ نے اپنی ڈائری ’’گلاب نامہ’’ میں اور میجر اسمتھ نے اس علاقہ کی تاریخ میں کیا ہے۔ گلاب سنگھ نے اپنی ڈائری میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب درخت سے الٹے لٹکے ہوئے دو زندہ مجاہدوں سبز علی خان شہیدؒ اور ملی خان شہیدؒ کی کھالیں سینے تک اتر گئیں تو انہوں نے پیاس اور تکلیف کی شد ت کے باعث پانی مانگا تو گلاب سنگھ نے انہیں پانی دینے سے انکار کر دیا اور اسی حالت میں وہ دونوں مجاہد جام شہادت نوش کر گئے۔ ان کا قصور یہ تھاکہ انہوں نے سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کے ساتھ جہاد آزادی میں شرکت کی تھی اور کشمیر کو سکھوں کے اقتدار سے نجات دلا کر ایک آزاد اسلامی ریاست بنانے کی مہم میں شامل ہو گئے تھے جو پورے ہندوستان کی آزادی کے لیے ایک ’’بیس کیمپ’’ کے طور پر مجاہدین کا مرکز سکتی تھی، مگر بالاکوٹ میں مجاہدین کی شکست سے اس جدوجہد کا باب بند ہو گیا۔
کشمیر کے ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف عوامی بغاوت کا دوسرا مرحلہ ۱۹۳۱ء کا ہے جس میں ڈوگروں کے وحشیانہ مظالم کے خلاف کشمیری عوام اٹھ کھڑے ہوئے اور مجلس احرار اسلام نے پورے ہندوستان سے ان کی حمایت میں رضا کار کشمیر بھجوانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ڈوگرہ پولیس سے تصادم کے نتیجے میں بیسیوں مجاہد شہید ہوئے اور کم وبیش تیس ہزار افراد نے گرفتاری پیش کی جن کے لیے ریاست جموں وکشمیر کی جیلیں تنگ پڑ گئیں اور انہیں حراست میں رکھنے کے لیے کیمپ قائم کرنا پڑے۔ اس تحریک میں رضا کار بھجوانے کے اہم مراکز میں گوجرانوالہ اور سیالکوٹ بھی شامل ہیں جہاں کے پرانے بزرگ اب بھی اس دور کے واقعات مزے لے لے کر سناتے ہیں، مگر مولانا یوسف خان اپنی یادداشتوں کے سلسلہ کا آغاز ۱۹۴۳ء سے کرتے ہیں جب وہ دار العلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہو کر اپنے علاقہ منگ آزا دکشمیر میں آئے، ان کی عمر اس وقت پچیس سال تھی۔ دار العلوم دیوبند کے ماحول میں رہ کر آئے تھے اور حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی جیسے مجاہد آزادی کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا تھا، اس لیے سینے میں آزادی کا جذبہ پوری شدت کے ساتھ موج زن تھا اور آتے ہی ایک دل خراش واقعہ کا سامنا کرنا پڑا جس نے ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف نفرت کی آگ اور بھڑکا دی۔ واقعہ یہ تھا کہ علاقہ کا ایک مسلمان نمبردار زمان علی قتل ہو گیا۔ قاتل ہندو تھا جسے مقدمہ چلائے جانے کے بعد صرف دو سال قید کی سزا سنائی گئی جبکہ ان دنوں ریاست میں گائے ذبح کرنے پر پابندی تھی اور اس کی سزا سات سال قید مقرر تھی۔ مولانا محمد یوسف خان شعبان میں دیوبند سے فارغ ہو کر آئے اور رمضان المبارک کے بعد عید الفطر کے روز منگ کی عید گاہ میں نماز عید کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ’’کھڑاک’’ کر دیا۔ انہوں نے ڈوگرہ حکمرانوں کے مظالم اور مذکورہ بالا مقدمہ کے حوالے سے مسلمانوں کو غیرت دلائی اور ڈوگرہ حکومت کو سرعام للکارا جس کے نتیجے میں وہ گرفتار کر لیے گئے۔ ایک ماہ حوالات میں رہے، پھر تین ماہ قید کی سزا سنائی گئی اور نصف کے قریب سزا بھگت چکے تھے کہ پونچھ کے مسلمان سیشن جج نے اس تنبیہ کے ساتھ انہیں رہا کر دیا کہ ’’مولوی صاحب! اتنی گرم تقریر نہ کیا کرو۔‘‘ یہ مولانا یوسف خان کی عملی زندگی کا آغاز تھا جس کے بعد انہوں نے پلندری کے عوام کی خواہش پر پلندری کی مرکزی جامع مسجد میں ڈیرہ ڈال لیا اور دار العلوم تعلیم القرآن کے نام سے دینی درس گاہ کا آغاز کیا جو اب آزاد کشمیر کے سب سے بڑے دینی تعلیمی ادارے کے طور پر تعلیمی خدمات میں مصروف ہے۔
۱۹۴۷ء میں برصغیر کی تقسیم عمل میں آئی اور کشمیر کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا تو پونچھ کے عوام نے ڈوگرہ حکمرانوں کے تسلط سے نجات حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس سلسلہ میں مولانا محمد یوسف خان اور ان کے رفیق کار مولانا عبد العزیز تھوراڑوی نے علماء کرام سے رابطہ قائم کر کے ان کی مشاورت کا اہتمام کیا جس میں مولانا محمد عبد اللہ کفل گڑھیؒ، مولانا مفتی عبد الحمید قاسمیؒ، مولانا مفتی امیر عالم خانؒ، مولانا مظفر حسین ندوی، مولانا عبد الرحمن عباس پوریؒ، مولانا حکیم حیا ت علی میرپوریؒ، مولانا عبد الرحمن مظفر آبادیؒ اور دیگر سرکردہ علماء کرام شریک ہوئے۔ یہ مشاورت ۲۲ جولائی کو ہوئی جس میں ڈوگرہ حکومت کے خلاف بغاوت کا فیصلہ کرتے ہوئے سب علماء کرام نے حلف اٹھایا جبکہ اس کے ایک ماہ بعد نیلابٹ میں سردار محمد عبد القیوم خان والی مشاورت ہوئی اور اس میں بھی بغاوت کا حلف اٹھایا گیا۔ اس حوالے سے تحریک آزادی کشمیر میں پہل کرنے کا اعزاز علماء کرام کو حاصل ہوا۔
مولانا محمد یوسف خان اس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ تقسیم ہند کا فیصلہ ہوتے ہی ڈوگرہ حکمرانوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ کشمیر کے مسلمان انہیں زیادہ دیر تک برداشت نہیں کریں گے، اس لیے انہوں کے حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے جگہ جگہ امن کمیٹیاں قائم کرنا شروع کر دیں، مگر مذکورہ بالا علماء کرام نے ان کمیٹیوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا اور ہر علاقہ کے عوام کو ان میں شرکت سے منع کیا اور پھر ۲۲ جولائی کی مشاورت میں ڈوگرہ راج کو مسترد کرنے کا باقاعدہ فیصلہ کیا گیا۔ اسی دوران سردار محمد ابراہیم خان جو ریاستی اسمبلی کے ممبر تھے، سری نگر چھوڑ کر مری آ گئے اور حریت پسندوں کو منظم کر کے آزاد حکومت کے قیام کی کوششیں شروع کر دیں تو علماء کرام ان کے ساتھ ان کوششوں میں شریک ہو گئے۔ اس جہاد آزادی میں جن علماء کرام نے خود عملاً حصہ لیا، ان میں مولانا محمد یوسف خان، مولانا مفتی امیر عالم خانؒ، مولانا عبد الحمید قاسمیؒ، مولانا محمد عبد اللہ کفل گڑھیؒ، مولانا عبد الرحمن عباس پوریؒ، مولانا عبد الرحمن مظفر آبادیؒ اور مولانا مظفر حسین ندوی شامل ہیں جن میں سے اول الذکر مولانا محمد یوسف خان اور آخر الذکر مولانا مظفر حسین ندوی ابھی تک بقید حیات ہیں جبکہ باقی بزرگ عالم بقاء کو سدھار چکے ہیں۔ پونچھ کے معرکہ میں مولانا محمد کریم اور باغ کے معرکہ میں مولانا جلال الدین نے جام شہادت نوش کیا جبکہ ارجہ تحصیل دھیر کوٹ کے مولانا خدا بخش مرحوم نے جنگ میں سب سے پہلی گولی چلانے کا اعزاز حاصل کیا جن کے فرزند مولانا عبد الحئی آج کل مدنی مسجد دھیر کوٹ کے خطیب ہیں۔
مولانا محمد یوسف خان نے بتایا کہ جہاد کشمیر کے اس مرحلہ میں جس کے نتیجے میں آزاد جموں وکشمیر کی حکومت قائم ہوئی، صوبہ سرحد کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ خان عبد القیوم خان مرحوم کا بھی بڑا کردار ہے جنہوں نے جہاد کشمیر کے لیے آنے والے قبائلی مجاہدین کو سہولتیں مہیا کیں اور ان کی وساطت اور کوشش سے مجاہدین کشمیر کو درہ سے اسلحہ کی بہت بڑی مقدار حاصل ہوئی جس سے مجاہدین نے جنگ لڑی اور اس خطہ میں ایک آزاد حکومت قائم ہو گئی جس کے پہلے سربراہ سردار محمد ابراہیم خان تھے۔
مولانا موصوف کا کہنا ہے کہ اگر اس وقت ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف کشمیری علماء اور عوام کے جوش آزادی میں مداخلت نہ کی جاتی اور بین الاقوامی دباو کو قبول کر کے سیز فائر قبول نہ کیا جاتا تو آج صورت حال مختلف ہوتی، مگر اقوام متحدہ نے کشمیری عوام کو بھی آگے بڑھنے سے روک دیا اور خود بھی مسئلہ کشمیر کی فائل کو نصف صدی سے گھٹنوں کے نیچے دبائے بیٹھی ہے۔
علماء کے نزدیک آزادی کی تحریک اور اسلامی نظام کا نفاذ آپس میں لازم وملزوم ہیں بلکہ آزادی کی جدوجہد کا مقصد ہی نفاذ اسلام ہوتا ہے، ورنہ تحریک آزادی ان کے نزدیک بے مقصد ہو کر رہ جاتی ہے۔ شہدائے بالاکوٹ کی حکومت پشاور سے لے کر طالبان کی حکومت افغانستان تک ایک تسلسل ہے جو اس فلسفہ جہاد کے عملی مظاہر کی نشان دہی کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب مظفر آباد، پونچھ اور میر پور کے اضلاع پر مشتمل آزاد جموں وکشمیر کی حکومت سردار محمد ابراہیم خان کی سربراہی میں قائم ہوئی تو جہاد آزادی کو منظم کرنے اور اس میں عملی حصہ لینے والے علماء کرام نے آزاد حکومت کے قیام کے ساتھ ہی اسلامی قوانین کے عملی نفاذ کی طرف پیش رفت شروع کر دی اور آپس میں مشورہ کر کے مختلف علاقوں میں شرعی قاضی مقرر کیے جنہوں نے لوگوں کے مقدمات سن کر فیصلے کرنا شروع کر دیے۔ چنانچہ راولا کوٹ میں مولانا عبدا لعزیز تھوراڑوی، باغ میں مولانا محمد عبد اللہ کفل گڑھی، عباس پور میں مولانا عبد الرحمن اور منگ میں مولانا نذیر احمد کو قاضی مقرر کیا گیا۔ ان قاضیوں نے عدالتی کام کا آغاز کیا تو پہلے سے چلی آنے والی سول عدالتوں کے ساتھ تصادم ناگزیر تھا اور اس کا آغاز راولا کوٹ سے ہوا جہاں کے قاضی مولانا عبد العزیز تھوراڑوی اور سب جج سردار محمد یوسف شریف تھے جو بعد میں چیف جسٹس کے منصب تک پہنچے اور اسی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ ان دونوں میں راولاکوٹ کے ایک جلسہ میں اسی مسئلہ پر تلخ کلامی ہوگئی۔ جلسہ میں صدر ریاست سردار محمد ابراہیم خان بھی موجود تھے۔ انہوں نے وجہ پوچھی تو تو سردار شریف نے کہا کہ مولوی صاحب نے متوازی عدالت قائم کر رکھی ہے جبکہ مولانا عبد العزیز نے کہا کہ سردار شریف صاحب شرعی قوانین کو تسلیم نہیں کر رہے۔ اس پر سردار محمد ابراہیم خان نے معاملہ کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے سرکردہ علماء کرام کو مشاورت کے لیے طلب کر لیا۔ اس وقت آزاد حکومت کا مرکز پلندری تھا اور مولانا محمد یوسف خان کی معیت میں سرکردہ علماء کرام نے صدر حکومت سے ملاقات کی جس میں کابینہ کے دیگر افراد بھی موجود تھے۔ علماء کرام نے ان پر واضح کیا کہ ہمارے نزدیک تو آزادی کا مقصد ہی شرعی قوانین کا نفاذ ہے، اس لیے ہم شرعی عدالتوں سے کم کسی بات کو قبول نہیں کریں گے۔ حکومت نے غور کے لیے ایک ہفتہ کا وقت طلب کیا اور اس کے بعد ان علماء کو بتایا کہ سردست ہم صرف یہ کر سکتے ہیں کہ محکمہ افتاء قائم کر کے سرکاری طور پر تحصیل اور ضلع کی سطح پر مفتی مقرر کر دیں جو ججوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کی دینی رہنمائی کریں۔کچھ عرصہ بعد جب ان علماء کو عدالتی کام کا تجربہ ہو جائے گا تو انہیں باقاعدہ قاضی کا درجہ دے دیا جائے گا۔
علماء کرام نے اس پیش کش کو قبول کر لیا اور ضلع مفتیوں کے تقرر کے لیے نام تجویز کرنے کا کام مولانا محمد یوسف خان کے سپرد ہوا اور ان کی مشاورت سے اس وقت کی نو تحصیلوں میں مفتی مقرر کیے گئے۔ صوبائی مفتی کے لیے ممتاز کشمیری عالم دین علامہ محمد شریف کشمیری کا نام تجویز ہوا جو اس وقت بلوچستان کی ریاست قلات میں علامہ شمس الحق افغانی کے معاون کے طور پر نائب وزیر معارف تھے، مگر انہوں نے یہ منصب قبول کرنے سے معذرت کر دی جس کے بعد مولانا عبد الرحمن عباس پوری کو صوبائی مفتی مقرر کیا گیا جن کی نگرانی میں مفتیان کرام نے سول عدالتوں میں ججوں کے ساتھ ان کی دینی رہنمائی کے لیے بیٹھنا شروع کر دیا۔
اس کے بعد چودھری غلام عباس مرحوم اور سردار محمد ابراہیم خان کے درمیان سیاسی کشمکش کا آغاز ہو گیا جس نے پورے آزاد کشمیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ کشمکش کئی سال تک جاری رہی اور اس دوران دیگر معاملات کی طرح افتاء اور قضاء شرعی کے اس معاملہ میں بھی کوئی پیش رفت نہ ہو سکی حتی کہ صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دور میں آزاد کشمیر میں جناب کے ایچ خورشید مرحوم کی حکومت قائم ہوئی تو افتاء کے اس محکمہ کو سرے سے ختم کر دینے کی بھی کوشش کی گئی جس کی علماء کرام نے مزاحمت کی، اس لیے افتاء کا محکمہ تو ختم نہ کیا جا سکا مگر حکمت عملی یہ اختیار کی گئی کہ جو مفتی وفات پا جاتا یا ریٹائر ہو جاتا اس کی جگہ نئے مفتی کا تقرر نہ کیا جاتا۔ اسی دوران آزاد کشمیر میں عائلی قوانین نافذ کرنے کی بھی کوشش کی گئی جس کی بہت سی شقوں پر علماء کرام کو اعتراض تھا اور یہ قوانین پاکستان میں نافذ ہو چکے تھے لیکن آزاد کشمیر کے علماء کرام کے سخت احتجاج کے باعث وہاں یہ قوانین نافذ نہ کیے جا سکے۔
آزاد کشمیر میں سردار محمد عبد القیوم خان کی حکومت قائم ہوئی تو افتاء کے محکمہ کو باقاعدہ قضاء شرعی میں تبدیل کرنے کے لیے پیش رفت کا آغاز ہوا۔ سردار محمد عبد القیوم خان نے وزیر قانون خواجہ محمد اقبال بٹ کی سربراہی میں لاء کمیشن قائم کیا جس میں حکومت آزاد کشمیر کے لاء سیکرٹری اور اس وقت کے چیف جسٹس سردار یوسف صراف کے علاوہ مولانا محمد یوسف خان، مولانا مظفر حسین ندوی، مولانا محمد یونس اثری، مولانا مفتی عبد الحکیم اور مولانا صدر الدین شامل تھے۔ اس کمیشن نے کئی ماہ تک شرعی قوانین کا جائزہ لے کر قوانین کے مسودات اور عدالتی نظام کا ڈھانچہ مرتب کیا اور اس دوران مولانا محمد یوسف خان نے کمیشن کے اجلاسوں میں اسلامی قوانین کے اس دور میں ناقابل عمل ہونے کے خدشات اور دیگر اعتراضات کا نقلی اور عقلی طور پر تجزیہ کرتے ہوئے اسلامی قوانین کا جس کامیابی کے ساتھ دفاع کیا، اس کی یاد ابھی تک کمیشن کے شرکاء کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ حتیٰ کہ چیف جسٹس سردار یوسف صراف نے کمیشن کے سامنے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ مولانا محمد یوسف خان کی گفتگو سننے کے بعد اس بات کے شعوری طور پر قائل ہو گئے ہیں کہ اسلامی قوانین آج کے دور میں بھی نہ صرف قابل عمل ہیں بلکہ ضروری ہیں۔
کمیشن کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد پاکستان کی سپریم کورٹ کے سربراہ جسٹس حمود الرحمن صاحب کو آخری اجلاس میں شرکت اور مسودہ پر نظر ثانی کرنے کی دعوت دی گئی چنانچہ وہ مظفر آباد گئے اور کمیشن کے اجلاس میں اس مسودہ کا جائزہ لیا۔ انہوں نے بھی مسودہ کی مختلف شقوں پر ایک درجن سے زائد اعتراضات کیے جن کے جواب میں مولانا محمد یوسف خان نے تقریباً تین گھنٹے تک کمیشن سے خطاب کیا اور اس کے بعد جسٹس حمود الرحمن صاحب نے یہ کہہ کر مسودہ کی منظوری دے دی کہ مولانا محمد یوسف خان علم کا مینار ہیں، البتہ انہوں نے زنا کی شرعی سزا کے بارے میں کہا کہ اس پر بحث نہیں کرنا چاہتا، مگر میری رائےہے کہ مصلحت کا تقاضا اسی میں ہے کہ اسے مسودہ میں شامل نہ کیا جائے اور اس طرح بحث ومباحثہ کے اس طویل عمل کے بعد آزاد کشمیر میں عدالتی سطح پر شرعی قوانین کے نفاذ اور تحصیل اور ضلع کی سطح پر باقاعدہ شرعی قاضیوں کے تقرر کا فیصلہ کر لیا گیا جو بدستور آج سیشن اور سول ججوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
مفتیوں کا دائرہ کار قاضیوں سے قدرے وسیع تھا اور وہ عدالتی کام کے علاوہ دیگر سرکاری اور عوامی شعبوں میں بھی عوام اور افسران کی دینی راہنمائی کی خدمات سرانجام دیتے تھے، اس لیے جب انہیں قاضی کی حیثیت دے دی گئی تو وہ عدالتی دائرہ میں محدود ہو کر رہ گئے اور دیگر شعبوں میں دینی رہنمائی کا خلا پیدا ہونے لگا۔ چنانچہ جب سردار محمد عبد القیوم خان آزاد کشمیر کے صدر اور سکندر حیات خان وزیر اعظم تھے، افتاء کا ایک مستقل محکمہ سرکاری طور پر قائم کیا گیا جس کے تحت ضلع اور تحصیل کی سطح پر مفتی مقرر کیے گئے ہیں اور وہ سرکاری اور غیر سرکاری شعبوں میں دینی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔
مولانا محمد یوسف خان کا کہنا ہے کہ اگرچہ آزاد کشمیر میں اسلامی قوانین کے سلسلہ میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے، مگر ابھی یہ کام ادھورا ہے اور ہمارا کام اس وقت مکمل ہوگا جب پورا کشمیر بھارتی سامراج کے تسلط سے نجات حاصل کرے گا اور اس میں مکمل اسلامی نظام کا نفاذ عمل میں آ جائے گا۔‘‘