دینی مدارس کی تعلیم اور عصرِ حاضر کی ضروریات

   
جامعہ اسلامیہ محمدیہ، فیصل آباد
۱۷ مارچ ۲۰۱۵ء

(جامعہ اسلامیہ محمدیہ فیصل آباد کے شش ماہی امتحانات میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کے لیے انعامات کی تقسیم کی خصوصی تقریب ۱۷ مارچ ۲۰۱۵ء کو نماز ظہر کے بعد منعقد ہوئی جس میں مولانا زاہد الراشدی نے تفصیلی خطاب کیا، اس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔ ادارہ نصرۃ العلوم)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ امتحانات میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کو اس امتیاز پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے دینی تعلیم کے حوالہ سے عام طور پر پائے جانے والے ایک دو مغالطوں کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا جس پر اساتذہ اور طلبہ سب کو ضرور غور کرنا چاہیے۔

ایک بات یہ ہے کہ دینی مدارس میں دی جانے والی تعلیم کے بارے میں بالعموم یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ قدیم تعلیم ہے اور اس کے مقابلہ میں سکولوں اور کالجوں میں دی جانے والی تعلیم پر جدید تعلیم کا اطلاق کر دیا جاتا ہے۔ قدیم اور جدید کی یہ تقسیم میرے خیال میں محلِ نظر ہے۔ مدارس میں بنیادی طور پر قرآن کریم، حدیث و سنت اور فقہ و شریعت کی تعلیم دی جاتی ہے اور ان سب کی اساس قرآن کریم پر ہے۔ قرآن کریم کے بارے میں جب حادث اور قدیم کی بحث ہوتی ہے تو بلا شبہ یہ قدیم ہے، حادث اور مخلوق نہیں ہے، ذاتِ باری تعالیٰ قدیم ہے تو یہ کلام بھی جو اس کی صفت ہے قدیم ہی ہے۔ لیکن قدیم اور جدید کی تقسیم میں قرآن کریم کو قدیم کہنا مجھے سمجھ میں نہیں آتا اس لیے کہ قرآن کریم جس طرح ماضی کی کتاب تھا، آج کی کتاب بھی ہے اور قیامت تک کا مستقبل بھی اسی کتاب سے وابستہ ہے۔ عام طور پر قدیم اسے کہا جاتا ہے جو پرانا ہو جائے اور اس کی جگہ کوئی نئی چیز آجائے، قرآن کریم یقیناً اس معنی میں قدیم نہیں ہے۔ توراۃ، انجیل اور زبور کو اس معنی میں آپ قدیم کہہ سکتے ہیں کہ ان کا زمانہ گزر گیا ہے اور ان کی جگہ قرآن کریم نے لے لی ہے، لیکن قرآن کریم کا دور گزر نہیں گیا بلکہ باقی ہے اور جب تک اس کا زمانہ باقی ہے اسے پرانی کتاب کہنا میری طالب علمانہ رائے میں درست بات نہیں ہے۔

قرآن و سنت اور فقہ و شریعت کے احکام جس طرح پہلے زمانوں کے لیے تھے آج بھی وہ نافذ العمل ہیں اور قیامت تک نافذ العمل رہیں گے۔ اس کی ایک مثال دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں ۱۹۵۶ء دستور نافذ ہوا، اس کے بعد ۱۹۶۲ء دستور آیا، لیکن وہ دونوں ختم ہو گئے تو ۱۹۷۳ء میں موجودہ دستور آیا جو اَب تک نافذ ہے اور جب تک یہ نافذ رہے گا تازہ ہی رہے گا۔ قرآن کریم کے بارے میں ہمارا ایمان ہے کہ یہ قیامت تک موجود و نافذ رہے گا حتیٰ کہ جب اوراق سے قرآن کریم کے الفاظ اٹھا لیے جائیں گے تو اسی روز قیامت قائم ہو جائے گی۔

یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ جب قرآن کریم اور سنت و فقہ کی تعلیم کو پرانی تعلیم کہا جاتا ہے تو پڑھنے پڑھانے والوں کے ذہن میں ایک طرح کا احساس کمتری پیدا ہو جاتا ہے کہ ہم تو شاید عصرِ حاضر کی ضروریات پوری نہیں کر رہے بلکہ پرانے دور کی باتیں لوگوں کو بتا اور پڑھا رہے ہیں۔ ہمارے تعلیمی ماحول کو اس احساس کے دائرے سے نکلنا چاہیے اور پورے اعتماد و حوصلہ کے ساتھ یہ سمجھتے ہوئے تعلیم و تدریس کے فرائض سر انجام دینے چاہئیں کہ ہم دورِ حاضر کی ایک بڑی ضرورت کو پورا کر رہے ہیں اور عصرِ نو کے تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں۔ کیونکہ آج بھی دنیا کو قرآن و سنت کی تعلیم کی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح ماضی میں تھی، اور قیامت تک کے مستقبل میں بھی یہ ضرورت اسی طرح باقی رہے گی۔

اس لیے میں اس سے آگے بڑھ کر یہ بات کہوں گا کہ ہمارے مدارس صرف ماضی اور حال کی تعلیم نہیں دے رہے بلکہ مستقبل کی ضروریات کی تعلیم بھی دے رہے ہیں اور ان مدارس کی یہ تعلیم نسلِ انسانی کے مستقبل کے حوالہ سے ’’ایڈوانس تعلیم‘‘ کا درجہ رکھتی ہے۔ اس لیے کہ عالمی دانش گاہوں کو اب یہ ضرورت محسوس ہونے لگی ہے کہ قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی طرف رجوع کیے بغیر نسلِ انسانی کے مسائل کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ اور تاریخ کے ایک طالبعلم کے طور پر میرا یہ وجدان یقین اور ایمان کا درجہ رکھتا ہے کہ آنے والا دور قرآن کریم کا ہے اور قرآنی تعلیمات ایک بار پھر دنیا میں ’’لیظہرہ علی الدین کلہ‘‘ کا منظر پیش کرنے والی ہیں۔ اس لیے میں دینی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ سے یہ عرض کرتا ہوں کہ وہ کسی قسم کے احساس کمتری کا شکار نہ ہوں اور پورے حوصلہ و اعتماد کے ساتھ قرآن و سنت کی تعلیمات کو یہ سمجھتے ہوئے فروغ دیں کہ ہم حال کی تعلیم دے رہے ہیں اور بہتر مستقبل کی طرف انسانی سوسائٹی کی راہنمائی کرنے والی تعلیمات کی تعلیم و تدریس میں مصروف ہیں، جبکہ عصری سکولوں اور کالجوں کی تعلیم صرف حال کی ضروریات تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔

دوسری بات یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ بہت سے لوگوں کو یہ مغالطہ رہتا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم مدارس کی وجہ سے باقی ہے، بلکہ مغرب والے تو یہ سمجھ کر مدارس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ قرآن کریم کی تعلیمات کو منظر سے ہٹانے کے لیے دینی مدارس کا خاتمہ ضروری ہے۔ اور دینی مدارس کے نصاب و نظام کے خلاف متحرک عالمی لابیوں اور ان کے ہمنوا حلقوں کی یہی سوچ انہیں مسلسل متحرک رکھے ہوئے ہے کہ مدارس باقی ہیں تو قرآن و سنت کی تعلیم باقی ہے، اور قرآن سنت کی تعلیم اگر باقی ہے تو لادینیت اور اباحیت مطلقہ کے مغربی فلسفہ کو عالمِ اسلام پر غالب کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس وجہ سے وہ اپنا پورا زور دینی مدارس کو ختم کرنے یا انہیں اپنے اہداف کے حوالہ سے غیر مؤثر بنانے کے لیے صَرف کر رہے ہیں۔

میری گزارش یہ ہے کہ یہ مغالطہ ذہنوں سے دور کرنا ضروری ہے کہ مدارس کی وجہ سے قرآن کریم باقی ہے۔ کیونکہ مدارس قرآن کریم کی وجہ سے باقی ہیں، قرآن کریم نے تو قیامت تک رہنا ہے اور اس کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے، گزشتہ کتابوں کے بارے میں تھا ”بما استحفظوا من کتاب اللّٰہ“ کہ اللہ تعالیٰ کی کتابوں کی حفاظت امتوں کے ذمہ تھی لیکن قرآن کریم کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد نہیں کی بلکہ ”وانا لہ لحافظون“ فرما کر یہ سارا نظام اپنے پاس رکھا ہے، البتہ اسباب کے درجہ میں ہم ضرور استعمال ہو رہے ہیں اور یہ درجہ صرف اسباب کا ہے۔ قرآن کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کرنی ہے اور ظاہر ہے کہ قرآن کریم محفوظ رہے گا تو اس کی حفاظت کے اسباب بھی محفوظ و موجود رہیں گے۔ میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ ہم قرآن کریم کی حفاظت نہیں کر رہے بلکہ قرآن کریم ہماری حفاظت کر رہا ہے، جبکہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس محفوظ کلام کے ساتھ وابستہ ہو کر اپنی نجات اور حفاظت کا انتظام کر رہے ہیں۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ایک گروہ کے بارے میں فرمایا ہے کہ ’’یمنون علیک ان اسلموا‘‘ وہ آپ پر احسان جتاتے ہیں کہ انہوں نے اسلام قبول کیا ہے، آپ ان سے فرما دیجئے کہ مجھ پر اپنے اسلام قبول کرنے کا احسان نہ جتلاؤ بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے تمہیں اسلام کی توفیق دی ہے۔ یہ بات اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ بسا اوقات ہمارے ذہنوں میں یہ بھی خیال آجاتا ہے کہ ہم قرآن کریم کی حفاظت کر رہے ہیں، یہ کر رہے ہیں، وہ کر رہے ہیں۔ ہم کچھ بھی نہیں کر رہے بلکہ قرآن کریم کے ساتھ وابستہ ہو کر صرف اپنی نجات اور حفاظت کا سامان کر رہے ہیں، ہم اسی جذبہ سے کام کریں گے تو دینی تعلیمات کی صحیح خدمت ہو گی، ایک فارسی کا شعر ہے کہ ؎

منت منہ کہ خدمت سلطان ہمی کنی
منت شناس ازو کہ بخدمت بداشتت

اگر بادشاہ کی خدمت کا موقع مل رہا ہے تو یہ احسان مت جتلاؤ کہ ہم بادشاہ کی خدمت کر رہے ہیں بلکہ اسے بادشاہ کا احسان سمجھو کہ وہ تمہیں اپنی خدمت کا موقع دے رہا ہے۔

حضرت مولانا عبد الرزاق صاحب مہتمم جامعہ اسلامیہ محمدیہ فیصل آباد کے ارشاد پر اساتذہ اور طلبہ کی خدمت میں آج کے موقع کی مناسبت سے چند گزارشات پیش کی ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں قبول فرمائیں اور جو باتیں صحیح ہوئی ہیں ان پر ہم سب کو عمل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter