حدیث نبویؐ ۔ تمام علوم دینیہ کا اصل ماخذ

   
تاریخ: 
۱۰ اپریل ۲۰۱۴ء

جمعرات کو منچن آباد ضلع بہاول نگر میں عشاء کے بعد جامع مسجد پراچہ میں سیدنا حضرت صدیق اکبرؓ کی فضیلت و منقبت پر سیمینار تھا۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کے استاذِ محترم مولانا حافظ زاہد علی ملک اور مولانا محمد افضال نے بھی ساتھ جانا تھا۔ اس لیے ترتیب یہ بنی کہ میں اسباق سے فارغ ہو کر جامعہ اشرفیہ پہنچ جاؤں گا اور وہاں سے اکٹھے منچن آباد کے لیے روانہ ہوں گے۔ جامعہ اشرفیہ پہنچا تو مولانا حافظ زاہد علی ملک نے فرمائش کی کہ ظہر کے بعد ان کا سبق ہوتا ہے، وہ میں پڑھا دوں، پھر چلیں گے۔ سبق ’’شرح نخبۃ الفکر‘‘ کا تھا۔ ان کے حکم کی تعمیل میں کچھ گزارشات کلاس میں پیش کیں، جن کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آپ کے استاذ محترم کا حکم ہے کہ آج کا سبق میں پڑھاؤں، کتاب کا سبق تو نہیں پڑھاؤں گا تاکہ آپ کا تسلسل متاثر نہ ہو، البتہ چونکہ اصولِ حدیث کا سبق ہے اس لیے اسی حوالہ سے کچھ طالب علمانہ باتیں گوش گزار کر دیتا ہوں۔

حدیث کو ہمارے ہاں علوم دینیہ کی ایک قسم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور وہ بلاشبہ دلائل شرعیہ (۱) قرآن کریم (۲) حدیث و سنت (۳) اجماع اور (۴) قیاس میں ایک اہم دلیل شرعی ہے۔ لیکن حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے حدیث کا تعارف اس سے وسیع تناظر میں کرایا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ حدیث نبویؐ تمام علوم دینیہ کا اصل ماخذ اور منبع ہے اور اسی سے ہمیں قرآن و سنت سمیت تمام علوم شرعیہ حاصل ہوتے ہیں۔ اس کی مثال کے طور پر میں یہ عرض کرتا ہوں کہ قرآن کریم تک ہماری رسائی کا ذریعہ بھی حدیث ہے۔ جیسا کہ ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ قرآن کریم کی سب سے پہلی وحی سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات ہیں۔ لیکن یہ آیات ہمیں غارِ حرا کے واقعہ سے معلوم ہوئی ہیں جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا اور صحابہ کرامؓ نے اسے روایت کیا۔ چنانچہ قرآن کریم کی پہلی پانچ آیات کا علم ہمیں حدیث کی روایت کے ذریعہ حاصل ہوا۔ یہی صورت حال قرآن کریم کی باقی آیات، ترتیب اور سورتوں کی ہے۔ اس لیے حدیث نبویؐ کے طلبہ سے میری گزارش ہے کہ وہ اسے وسیع تناظر میں پڑھیں۔ دلائل اربعہ میں سے ایک دلیل کی حیثیت سے بھی اور تمام علوم دینیہ کے اصل ماخذ اور اساس کی حیثیت کو بھی سامنے رکھیں۔

دوسری گزارش حدیث نبویؐ کے طلبہ سے یہ ہے کہ ہمارے ہاں حدیث کی کتابیں پڑھتے اور پڑھاتے ہوئے فقہی مجادلہ کا ذوق غالب رہتا ہے اور ہم زیادہ تر فقہی اختلافات اور ان میں اپنی ترجیحات پر وقت صرف کرتے ہیں۔ مجھے اس کی ضرورت اور اہمیت سے انکار نہیں ہے بلکہ میں خود بھی ایسا کرتا ہوں۔ لیکن فقہی مجادلہ اور احکام و مسائل کی ترجیحات کی بحث میں ہمارے لیے امام ابوجعفر طحاویؒ بہترین نمونہ اور آئیڈیل ہیں۔ ہمیں ان کا اسلوب پیش نظر رکھنا چاہیے کہ وہی اسلوب ہماری اصل ضرورت ہے اور وہی فقہی مجادلہ کا صحیح معیار بھی ہے۔ امام طحاویؒ کسی بھی مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے اس سے متعلقہ تمام موقف بیان کرتے ہیں اور ان کے دلائل کا تفصیل کے ساتھ تذکرہ کر کے ان کا تجزیہ کرتے ہیں اور پھر اپنی ترجیحات کو دلائل کے ساتھ واضح کر کے حنفی موقف بیان کرتے ہیں۔ اور دوسری بات وہ یہ کرتے ہیں کہ وہ کسی جگہ بھی یہ نہیں فرماتے کہ احناف کا موقف یہ ہے اور قرآن و حدیث اس کی تائید کر رہے ہیں، بلکہ احادیث سے ایک موقف ثابت کر کے آخر میں فرماتے ہیں کہ احناف کا موقف بھی یہی ہے۔ یہ ایک ایسا حکیمانہ طرز عمل ہے جو بہت سی الجھنوں کا خود ہی حل بن جاتا ہے اور میرے خیال میں آج بھی اسی ذوق اور طرز عمل کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔

تیسری بات حدیث نبویؐ کے طلبہ سے یہ عرض کروں گا کہ احادیث کی تعلیم و تدریس میں فقہی احکام کے مباحث کے ساتھ ساتھ معاشرتی ضروریات اور عصر حاضر کے مسائل کو سامنے رکھ کر حدیث سے اس کا حل پیش کرنا بھی ایک اہم دینی ضرورت ہے۔ ہم فقہی مجادلہ کے ابواب سے ہٹ کر باقی ابواب کی طرف پوری توجہ نہیں دیتے جس کی بہت اہمیت اور ضرورت ہے۔ اس لیے زندگی کے تمام شعبوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان سے متعلقہ مسائل و ضروریات پر حدیث نبویؐ کے اطلاق اور تطبیق کا ذوق بھی عام ہونا چاہیے۔ اس میں حضرت امام بخاریؒ کا استنباط و استخراج کا اسلوب ہم سب کے لیے راہ نما کی حیثیت رکھتا ہے جسے ہم ترجمۃ الباب سے حدیث کا تعلق کے عنوان سے پیش کرتے ہیں جبکہ اس کی زیادہ صحیح تعبیر یہ ہے کہ امام بخاریؒ کا استدلال، استنباط اور استخراج کا ذوق کیا ہے اور آج کے دور میں اس سے کیسے راہ نمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

مثال کے طور پر یہ عرض کروں گا کہ حضرت امام بخاریؒ نے کتاب النکاح کی آخری روایت کے طور پر حضرت ام المومنین عائشہؓ کی طویل حدیث کا ایک مختصر جملہ بیان کیا ہے کہ میرے والد محترم حضرت ابوبکرؓ نے مجھے ڈانٹ ڈپٹ کی اور مکے بھی مارے، مگر میں حرکت نہیں کر رہی تھی کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں سر رکھے سو رہے تھے اور میں ان کی نیند خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔

امام بخاریؓ نے لمبی روایت کا اتنا حصہ نقل کر کے اس پر عنوان یہ قائم کیا ہے کہ کیا باپ غصے میں اپنی بیٹی کو ڈانٹ ڈپٹ سکتا ہے اور مکہ وغیرہ بھی مار سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ امام بخاریؒ حدیث کے اس ٹکڑے کو اس کے جواز کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ مگر اس میں ایک طالب علمانہ اضافہ یہ بھی ہے کہ حدیث کا یہ حصہ کتاب النکاح کے آخر میں کیوں لایا گیا ہے؟ یہ اس لیے ہے کہ امام بخاریؒ یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ بیٹی شادی شدہ ہو کر اپنے گھر بار والی ہو جائے تب بھی باپ کا ڈانٹ ڈپٹ کا حق باقی رہتا ہے۔

اس لیے حدیث کے طلبہ سے گزارش ہے کہ وہ تعلیم و تدریس میں ان امور کو بھی سامنے رکھیں تاکہ حدیث نبویؐ سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکیں۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۱۵ اپریل ۲۰۱۴ء)
2016ء سے
Flag Counter