دیت کی ادائیگی اور بیت المال

   
۱۹ اگست ۲۰۰۲ء

گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ نے دیت کیس سے متعلقہ پانچ مختلف درخواستوں کا فیصلہ سناتے ہوئے پنجاب کی جیل میں بند ایسے تمام قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دے دیا جو اپنی قید کی سزا پوری کرنے کے بعد بھی دیت کی رقم ادا نہ کر کے چھ ماہ سے زیادہ عرصہ جیلوں میں گزار چکے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ پر مشتمل فاضل عدالت نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ دستور کے آرٹیکل نمبر ۵۴۴ کے تحت کسی بھی شخص کو دیت کی رقم ادا نہ کرنے پر زیادہ سے زیادہ چھ ماہ تک قید میں رکھا جا سکتا ہے، اس لیے پنجاب کی جیلوں میں اپنی قید کی سزا پوری کرنے کے بعد چھ ماہ سے زیادہ عرصہ گزارنے والے قیدیوں کو رہا کر دیا جائے۔ اور اگر یہ قیدی اپنے وسائل سے دیت کی رقم ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو وہ زکوٰۃ فنڈ یا بیت المال سے یہ رقم ادا کریں، اس طریقے سے نہ صرف مقتول کے ورثاء مطمئن ہوں گے بلکہ معاشرہ میں امن و امان بھی قائم ہوگا۔

قتل کے مقدمات میں قصاص کی طرح دیت کا قانون بھی شریعت اسلامیہ کے احکام و ضوابط میں سے ہے۔ دیت (خون بہا) کا اصول اسلام سے پہلے بھی رائج تھا جسے اسلام نے باقی رکھا ہے اور اسے منظم قانون کی شکل دی ہے۔ کسی شخص کا عمدًا قتل عدالت میں ثابت ہوجانے کے بعد شریعت مقتول کے ورثاء کو حق دیتی ہے کہ وہ قصاص لینا چاہیں تو قاتل کو عدالتی فیصلے کے ذریعے قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ اور اگر وہ قصاص کی بجائے خون بہا کی صورت میں رقم لینا چاہیں تو انہیں اس کا بھی حق ہے۔ اور اگر وہ بالکل معاف کر دیں تو انہیں یہ حق بھی حاصل ہے۔ جبکہ قتل خطا (بلا ارادہ قتل) کی صورت میں قرآن کریم نے دیت ہی کی سزا بیان فرمائی ہے اور مقتول کے وارثوں کو اس کا کچھ حصہ یا ساری دیت معاف کرنے کا حق دیا گیا ہے۔

دیت کی مقدار جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سو اونٹ مقرر کی گئی تھی جس کی قیمت نقدی کی شکل میں ابوداؤد شریف کی ایک روایت کے مطابق دور نبویؐ میں آٹھ سو دینار یا آٹھ ہزار درہم لگائی جاتی تھی۔ مگر امیر المؤمنین حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں یہ کہہ کر کہ اونٹ اب مہنگے ہوگئے ہیں، ایک ہزار دینار یا بارہ ہزار درہم کی مقدار میں رقم طے فرما دی۔ خیر دیت کے مختلف احکام، اس کی مختلف صورتیں اور اس کی مقدار کا تعین ایک الگ موضوع ہے جس کی تفصیل کا یہ کالم متحمل نہیں ، البتہ یہ بات کہ اگر کوئی قاتل دیت کی رقم ادا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو تو اس کی طرف سے یہ رقم بیت المال سے ادا کر دی جائے، اس کے بارے میں ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام میں یہ اصول موجود ہے۔

قرآن کریم کی سورۃ البلد میں آیت کریمہ ’’فک رقبہ‘‘ میں گردن چھڑانے کو نیکی کے اعمال میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کی تشریح میں مفسرین کرام نے گردن چھڑوانے کی مختلف صورتوں میں ایک صورت یہ بیان کی ہے کہ کوئی شخص ناگہانی تاوان میں پھنس جائے تو اسے اس تاوان کی ادائیگی میں مدد دینا بھی گردن چھڑوانے کے مترادف ہے۔ اور بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا کوئی سرپرست نہیں اس کا میں سرپرست ہوں اور جس شخص کا قرضہ ادا کرنے کی اور کوئی صورت نہیں ہے اس کا قرضہ میرے ذمہ ہے۔ اس کی تشریح میں محدثین کرامؒ فرماتے ہیں کہ یہ بیت المال کی ذمہ داریوں میں سے ہے کہ وہ ایسے اشخاص سے تعاون کرے جو اس طرح کے کسی تاوان میں پھنس جائیں اور اس کی ادائیگی کی پوزیشن میں نہ ہوں۔

اس لیے لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلہ سے ہمیں خوشی ہوئی ہے کہ اس کے ذریعے حکومت کو بیت المال کی ان حقیقی ذمہ داریوں میں سے ایک کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جن کے لیے بیت المال کا ادارہ قائم ہوا تھا۔ ورنہ بیت المال کی ذمہ داریوں کا دائرہ تو بہت وسیع ہے اور بیت المال معاشرہ کے ضرورت مند، معذور اور بے کس افراد کی کفالت کے ایسے مربوط اور منظم سسٹم کا نام ہے جو اپنی اصل شکل میں قائم ہو جائے تو پورے ملک میں کوئی ایسا شخص باقی نہ رہے جسے اپنی کسی بنیادی ضرورت کے لیے کسی کے سامنے دستِ سوال دراز کرنا پڑے۔

انشورنس کے حوالہ سے دنیا کا کوئی نظام اور نیٹ ورک بیت المال کی مثال نہیں پیش کر سکتا۔ مجھ سے ایک دفعہ کسی دوست نے سوال کیا کہ اسلام میں انشورنس کا کوئی نظام نہیں ہے؟ میں نے عرض کیا کہ بالکل ہے اور ایسا ہے کہ انشورنس کا کوئی اور نظام اس کی مثال نہیں بن سکتا۔ صرف اتنا فرق ہے کہ آج کا انشورنس کا نظام ضرورت کے وقت صرف اس شخص کو فائدہ پہنچاتا ہے جس کے ساتھ اس کا معاہدہ ہے اور اس شخص نے اس معاملے کی رو سے کچھ نہ کچھ ادائیگی کر رکھی ہے۔ جبکہ بیت المال ہر شہری کی ناگہانی ضرورت کو پورا کرنے کی ضمانت دیتا ہے اور اس کے عوض اس سے کچھ طلب نہیں کرتا۔ کیونکہ بیت المال خود کو کسی معاہدہ کے تحت اس کا پابند قرار نہیں دیتا بلکہ شرعی حکم کے تحت اسے اپنی ریاستی ذمہ داری تصور کرتا ہے، اور اس لیے بھی کہ انشورنس اسلام کی نظر میں کاروبار نہیں ہے بلکہ انسان کی فلاح و بہبود کی ریاستی ذمہ داری کا نام ہے۔

اس حوالہ سے ایک واقعہ ذہن میں آگیا کہ جس زمانہ میں ۱۹۷۳ء کا دستور ترتیب پا رہا تھا، دستور ساز اسمبلی میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ اپوزیشن لیڈر تھے اور دستور کی مختلف دفعات پر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ان کے مذاکرات چل رہے تھے۔ مفتی صاحبؒ نے جمعیۃ علماء اسلام کی مجلس شوریٰ کے ایک اجلاس میں بتایا کہ اپوزیشن کی طرف سے ان کی قیادت میں وزیراعظم بھٹو سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ ہر شہری کو اس کی بنیادی ضروریات یعنی خوراک، رہائش، علاج وغیرہ کے سلسلہ میں عدالتی تحفظ فراہم کیا جائے، اور اگر کسی شہری کو یہ بنیادی ضروریات میسر نہ آرہی ہوں تو اسے موقع دیا جائے کہ وہ عدالت سے رجوع کر کے اپنا وہ حق حاصل کر سکے۔ وزیراعظم بھٹو مرحوم نے اس پر کہا کہ پاکستان کے وسائل کے لحاظ سے ایسا کرنا سرِدست ممکن نہیں ہے۔ مفتی صاحبؒ نے کہا کہ حالات سازگار ہونے تک استثناء کا ایک عرصہ طے کر لیا جائے اور اس کے بعد کے لیے دستور میں اس کے عدالتی تحفظ کی ضمانت دے دی جائے تو بھٹو مرحوم نے کہا کہ ایسا کرنا بھی عملاً ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ اپوزیشن کی یہ تجویز دستور کا حصہ نہ بن سکی۔

اس سے قطع نظر اسی مسئلہ کے ایک اور پہلو کے حوالہ سے ہم عدالت عالیہ کو توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ اگر قاتل دیت کی رقم ادا نہ کر سکے تو بیت المال سے اس کی مدد اور تعاون کی صورت نکالی جا سکتی ہے اور اس سلسلہ میں فاضل عدالت کا مذکورہ فیصلہ خوش آئند ہے۔ لیکن ایک دوسری صورت تو بالکل واضح ہے کہ بخاری شریف کی روایت کے مطابق خیبر کے علاقوں میں ہونے والے ایک قتل میں قاتل کا تعین نہ ہونے کی صورت میں مقتول کے وارثوں کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المال سے دیت عطا فرمائی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قتل کے جن کیسوں میں قاتل نہ مل سکیں یا جن کیسوں میں قتل کے ملزم عدالت سے بری قرار دے دیے جائیں اور مقتول کا معاملہ پھر واپس اس پوزیشن پر چلا جائے کہ اس کے قاتل کا تعین نہیں ہو رہا ہو تو ایسی صورتوں میں مقتول کا خون رائیگاں نہیں جانا چاہیے اور بیت المال کی طرف سے اس قتل کی دیت ادا کر کے مقتول کے وارثوں کو مطمئن کرنا چاہیے۔

یہ بات اس طرح بھی سمجھ میں آسکتی ہے کہ قاتلوں تک پہنچنا اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانا ریاستی نظام کی ذمہ داریوں میں سے ہے جس میں وہ ناکام رہا۔ اس لیے اس ذمہ داری کو قبول کرتے ہوئے ریاستی بیت المال کو مقتول کے وارثوں کو دیت کی ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہیے۔ مگر ہمارے ہاں اکثر و بیشتر یہی ہوتا ہے کہ قاتل یا تو ملتے ہی نہیں اور اگر ملتے ہیں تو ان میں سے بیشتر کو عدالتیں بری قرار دے دیتی ہیں جس کے بعد قتل کا کیس داخل دفتر ہو جاتا ہے، نہ ازسرنو قاتل کی تلاش کا کوئی حکم جاری ہوتا ہے اور نہ ہی مقتول کے وارثوں کو دیت دینے کا کوئی اہتمام کیا جاتا ہے جس سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں بے گناہ انسانوں کا خون بالکل رائیگاں چلا جاتا ہے۔

اس لیے فاضل عدالت سے استدعا ہے کہ اگر اس نے بیت المال کی ذمہ داریوں کی بات چھیڑی ہے تو اسے اسی فورم سے مکمل کرنے کی بھی کوئی صورت نکال لی جائے۔ اس کے لیے بہتر یہ ہوگا کہ دیت کے مذکورہ کیسوں کی طرح بیت المال سے متعلقہ دو چار کیسوں کو اکٹھا کر کے فاضل عدالت بیت المال کے فرائض اور ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی کوئی جامع فیصلہ صادر فرمائے تاکہ غریب اور بے کس شہریوں کو بیت المال کے عنوان سے ملک کے قومی خزانے سے کوئی ریلیف تو مل سکے۔

   
2016ء سے
Flag Counter