مغرب میں انسانی حقوق کی تاریخ اور جواہر لال نہرو کے خطوط

   
۸ و ۹ دسمبر ۲۰۰۷ء

۱۰ دسمبر کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا دن منایا جاتا ہے۔ ۱۹۴۸ء میں اس روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کا ۳۰ نکاتی اعلامیہ منظور کیا تھا جسے آج کی دنیا میں انسانی حقوق کا عالمی معیار قرار دے کر تمام اقوام و ممالک پر اس کے احترام اور پابندی کے لیے مسلسل زور دیا جا رہا ہے۔ چنانچہ جنرل اسمبلی کی طرف سے اس منشور کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ

’’جنرل اسمبلی اعلان کرتی ہے کہ انسانی حقوق کا یہ عالمی منشور تمام اقوام کے واسطے حصول مقصد کا مشترک معیار ہوگا تاکہ ہر فرد اور معاشرے کا یہ ادارہ اس منشور کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہوئے تعلیم و تبلیغ کے ذریعے ان حقوق اور آزادیوں کا احترام پیدا کرے اور انہیں قومی اور بین الاقوامی کارروائیوں کے ذریعے ممبر ملکوں میں ان قوموں میں جو ممبر ملکوں کے ماتحت ہوں، منوانے کے لیے بتدریج کوشش کر سکے۔‘‘

اقوام متحدہ کے ادارے بالخصوص انسانی حقوق کا عالمی کمیشن مختلف حوالوں سے دنیا بھر کی اقوام و ممالک کو انسانی حقوق کے اس اعلامیہ کی پاسداری اور پابندی کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں۔ ہر سال ۱۰ دسمبر کو پوری دنیا میں اس کا دن منایا جاتا ہے اور تقریبات، اخباری ایڈیشنز، بیانات اور قراردادوں کے ذریعے اس کی اہمیت اور ضرورت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کا یہ اعلامیہ مغربی دنیا میں انسانی حقوق کے لیے صدیوں کی مسلسل جدوجہد کا نقطۂ عروج ہے جس کے پیچھے ایک طویل جدوجہد اور قربانیوں کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ آج کی صحبت میں ہم اسی جدوجہد کے مختلف ادوار کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔

مغرب نے بادشاہت اور جاگیرداری کے جبر و ظلم کے تحت صدیوں کا زمانہ دیکھا ہے جس میں انسان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک روا رکھا جاتا تھا اور بدقسمتی سے اس جبر، ظلم اور درندگی کو ایک دور میں مذہب کی حمایت بھی حاصل ہوگئی تھی۔ اس لیے بادشاہت، جاگیرداری اور پاپائیت کی اس تکون کے مظالم کے خلاف جب پسے ہوئے عوام نے تنگ آکر بغاوت کی تو یہ بغاوت صرف بادشاہت اور جاگیرداری کے خلاف نہیں تھی بلکہ مذہب، اس کے نمائندہ ادارے و طبقات بھی اس انقلاب کی زد میں آئے اور بغاوت کی رو میں بہہ کر مذہبی طبقات اور ادارے معاشرتی زندگی سے بے دخل ہوگئے۔ شخصی بادشاہت کے خلاف عوام کے حقوق کو تسلیم کرانے کی اس جدوجہد میں سب سے پہلے برطانوی عوام آگے آئے جب گیارہویں صدی عیسوی میں بادشاہ کانریڈ ثانی کے دور میں پارلیمنٹ اور اس کے محدود اختیارات کا قانون جاری ہوا۔ یہ ۱۰۳۷ء کی بات ہے اور اسے مغرب میں عوامی حقوق کی جدوجہد کا نقطۂ آغاز کہا جاتا ہے۔

اس کے کم و بیش دو سو برس بعد کنگ جان نے امراء کے ساتھ ایک معاہدے کی منظوری دی جسے تاریخ میں ’’میگنا کارٹا‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور مغرب میں انسانی حقوق کی سب سے پہلی بنیاد تصور کیا جاتا ہے۔ اس معاہدے کی ساٹھ سے زیادہ دفعات میں بادشاہ اور امراء یعنی جاگیرداروں کے درمیان اختیارات کا دائرہ کار طے کیا گیا ہے اور اپنی اصل کے اعتبار سے یہ صرف بادشاہ اور امراء کے درمیان معاہدہ ہے لیکن اس میں ضمناً عام لوگوں کے کچھ حقوق بھی شامل کیے گئے۔ اسی لیے اسے انسانی حقوق کی سب سے پہلی دستاویز تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس میں عوام اور شہریوں کے حقوق کو پہلی بار باضابطہ طور پر کسی قانون اور معاہدے کا حصہ بنایا گیا ہے۔ یہ معاہدہ میگنا کارٹا کے نام سے ۱۵ جون ۱۲۱۵ء کو ہوا اور اس کے ذریعے بادشاہ، امراء اور پارلیمنٹ کے حقوق و اختیارات کا تعین ہوا اور عام شہریوں کے بھی کچھ حقوق اس میں شامل کیے گئے۔

اس کے بعد کم و بیش ساڑھے چار سو سال کے وقفے کے بعد ۱۶۷۹ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے حبس بے جا کے خلاف قانون منظور کر کے عوام کو یہ ضمانت دی کہ کسی شخص کو کسی قانونی وجہ کے بغیر آئندہ گرفتار نہیں کیا جائے گا، چنانچہ اسے برطانیہ میں انسانی حقوق کی طرف ایک اور اہم پیشرفت تصور کیا جاتا ہے۔ مگر برطانیہ میں پارلیمنٹ کے اختیارات، عوام کے حقوق، شہری آزادیوں اور بادشاہ کی مطلق العنانی کو محدود کرنے کی اصل جنگ سترہویں صدی عیسوی میں لڑی گئی جس کے نتیجے میں ایک بادشاہ پر مقدمہ چلا کر اسے موت کی سزا سنائی گئی اور دوسرے بادشاہ کو عوام کے دباؤ اور مزاحمت کے باعث جلاوطن ہونا پڑا۔ اس صدی میں انسانی حقوق کے لیے برطانوی عوام کی جدوجہد کی کچھ تفصیل پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنے ان خطوط میں بیان کی ہے جو انہوں نے تحریک آزادی کے دوران نینی تال جیل سے اپنی بیٹی اندراگاندھی کے نام لکھے تھے۔ ان طویل خطوط میں دنیا کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالی گئی ہے اور یہ دو جلدوں میں چھپ چکے ہیں۔

پنڈت جواہر لال نہرو اپنے ان خطوط میں بتاتے ہیں کہ برطانیہ میں ۱۶۲۸ء کو بادشاہ چارلس اول کے دور میں پارلیمنٹ میں ’’اعلان حقوق عوام‘‘ کے نام سے ایک مسودہ پیش کیا گیا جس میں بادشاہ کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ اہم معاملات میں کوئی فیصلہ کرنے سے قبل پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے۔ اس پر بادشاہ نے پارلیمنٹ توڑ دی جو اسے عوامی دباؤ کے تحت دوبارہ قائم کرنا پڑی۔ مگر بادشاہ کے رویے میں کوئی فرق نہ آیا جس پر عوامی بغاوت کی صورتحال پیدا ہوئی اور خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ اس خانہ جنگی میں بادشاہ، جاگیردار اور سرکاری فوج ایک طرف تھے جبکہ امیر تاجروں کا گروہ، پارلیمنٹ اور لندن شہر کے عوام دوسری طرف تھے۔ فوج کے مقابلے کے لیے الیور کرامویل نامی ایک رہنما نے انقلابی فوج تشکیل دی اور سرکاری فوج کا مقابلہ کر کے پارلیمنٹ پر قبضہ کر لیا۔ بادشاہ کو گرفتار کر لیا گیا اور اس پر پارلیمنٹ کی طرف سے مقدمہ چلایا گیا اور موت کی سزا دے کر ۱۶۴۹ء میں اس کا سرقلم کر دیا گیا۔ انقلابی لیڈر کرامویل بھی ۱۶۵۸ء میں انتقال کر گیا اور چارلس اول کے بیٹے کو تلاش کر کے چارلس دوم کے نام سے تخت نشین کر دیا گیا۔ یہ صاحب کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے برطانیہ میں دوبارہ پاپائے روم کی عملداری قائم کرنے کی کوشش کی مگر عوام کی مزاحمت کے باعث تخت چھوڑ کر فرانس کی طرف جلاوطنی اختیار کر لی۔ اس کے بعد ولیم آف اورینج (ولیم سوم) کی شاہی خاندان کی ایک خاتون میری کے ساتھ شادی کر کے انہیں مشترکہ طور پر برطانیہ کا حکمران بنا دیا گیا اور ان کے دور میں ۱۶۸۶ء میں ’’بل آف رائٹس‘‘ کے نام سے ایک مسودۂ قانون پارلیمنٹ نے منظور کیا جس میں پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کر لیا گیا۔

پنڈت جواہر لال نہرو کا کہنا ہے کہ اس سے قبل پارلیمنٹ کا وجود تو تھا مگر وہ عوام کی منتخب نہیں ہوتی تھی بلکہ مخصوص طبقات، جاگیردار اور امراء ہی پارلیمنٹ کے ارکان کا انتخاب کرتے تھے۔ حتیٰ کہ ۱۷۹۳ء میں برطانوی پارلیمنٹ کے ۳۰۶ ارکان کو صرف ۱۶۰ افراد نے منتخب کیا تھا اور ان میں سے ایک شخص کو پارلیمنٹ کے دو ممبر منتخب کرنے کا حق حاصل تھا۔ اس دوران فرانسیسی دانشور روسو نے ’’سوشل کنٹریکٹ‘‘ کے نام سے ایک کتابچہ تحریر کیا جس میں لوگوں پر زور دیا گیا کہ وہ باہمی حقوق کے لیے کسی معاشرتی معاہدے پر متفق ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ روسو کا یہ کتابچہ فرانس میں جمہوری جدوجہد کی بنیاد بنا جو بالآخر ۱۷۸۹ء کے مشہور ’’انقلابِ فرانس‘‘ پر منتج ہوئی۔ جبکہ اس سے قبل ایک اور مغربی مفکر جان لاک کا تحریر کردہ ’’معاہدۂ عمرانی‘‘ بھی مغربی دنیا میں بادشاہت اور جبر و استبداد کے خلاف فکری بیداری کا ماحول پیدا کر چکا تھا۔ اس پس منظر میں ٹام پین نے ’’رائٹس آف مین‘‘ کے نام سے وہ رسالہ لکھا جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کا تصور اجاگر کرنے میں مغربی دنیا میں سب سے زیادہ وہ مؤثر ثابت ہوا۔

۱۶۸۹ء میں ولیم آف اورینج اور ملکہ میری کے دورِ حکومت میں برطانوی پارلیمنٹ نے جو مسودۂ حقوق منظور کیا اس میں بادشاہ کے اختیارات کو محدود کر کے اسے پارلیمنٹ کا تابع کر دیا گیا۔ پروٹسٹنٹ مذہب کو برطانیہ کا سرکاری مذہب قرار دے کر بادشاہ کو اس کے تحفظ کا ذمہ دار بنا دیا گیا اور یہ لازم کر دیا گیا کہ بادشاہ صرف پروٹسٹنٹ مذہب سے تعلق رکھنے والا شخص ہی بن سکے گا حتیٰ کہ کیتھولک خاندان میں شادی کرنے والا شخص بھی بادشاہت کے استحقاق سے محروم ہو جائے گا۔

اس کے بعد انقلاب فرانس کی باری آتی ہے جسے پوری دنیا میں جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے، یہ ۱۷۸۹ء کومکمل ہوا اور بادشاہت کو ایک زبردست عوامی بغاوت کے ذریعے ختم کر کے جمہوری حکومت قائم کی گئی اور پارلیمنٹ نے ’’ڈیکلیریشن آف رائٹس آف مین‘‘ منظور کیا جس میں کہا گیا ہے کہ تمام انسان حقوق کے اعتبار سے یکساں اور آزاد پیدا ہوئے ہیں، عوام اقتدار کے حامل ہیں، آزادی، زندگی اور جائیداد کے تحفظ کا حق رکھتے ہیں، ظلم کے خلاف احتجاج کا انہیں حق حاصل ہے، تحریر و تقریر کی آزادی ان کا حق ہے اور کسی کو بغیر قانونی وجہ کے گرفتار نہیں کیا جائے گا۔

اس کے ساتھ ساتھ امریکہ میں آزادی اور عوامی حقوق کی جنگ پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے۔ امریکہ پر برطانوی استعمار کی عملداری تھی اور امریکی عوام آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے، اس دوران ۱۵ جون ۱۷۷۶ء کو ورجینیا کی ریاست میں جارج میسن اور اس کے رفقاء نے انسانی حقوق کے ایک منشور کا اعلان کیا جس میں پریس کی آزادی، مذہب کی آزادی اور عدالتی چارہ جوئی کے حق جیسے اہم امور شامل تھے۔ ۱۲ جولائی ۱۷۷۶ء کو برطانوی استعمار سے امریکہ کی مکمل آزادی کا پہلا اعلان تھامس جیفرسن اور ان کے رفقاء نے کیا اور امریکی دستور پیش کیا جس کے نفاذ کے تین سال بعد ۱۷۷۹ء میں دس ترامیم کے ذریعے عوام کے مختلف طبقوں کے حقوق کا تعین کیا گیا۔ جبکہ اس کے طویل عرصہ بعد ۱۸۶۸ء میں امریکی دستور کی چودھویں ترمیم کے ذریعے ریاستوں کو پابند کیا گیا کہ قانونی ضابطے کی تعمیل کے بغیر کسی شخص کو جان، مال، آزادی اور املاک سے محروم نہیں کیا جائے گا اور کسی شہری کو قانونی تحفظ کا بنیادی حق فراہم کرنے سے انکار نہیں کیا جائے گا۔

امریکہ میں انسانی حقوق کی بحالی اور فراہمی کی جدوجہد کا ایک طویل دورانیہ ہے جس کے مختلف مراحل کا تذکرہ مستقل گفتگو کا متقاضی ہے مگر اس موقع پر صرف اتنا عرض کر دینا ضروری ہے کہ امریکہ میں شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کی بحالی کی یہ جدوجہد بیسویں عیسوی کے ساتویں عشرے تک مسلسل جاری رہی جب سیاہ فام آبادی کو ووٹ اور برابری کا حق دلوانے کے لیے مارٹن لوتھر کنگ کی قیادت میں سیاہ فاموں نے مشہور زمانہ جدوجہد کی اور اس کے نتیجے میں جان ایف کینیڈی کے دور حکومت میں سیاہ فاموں کے لیے سفید فاموں کے برابر حقوق تسلیم کیے گئے اور گوروں کی طرح کالوں کے لیے بھی ووٹ کا حق اور قانونی تحفظ میں برابری کا حق دستور کا حصہ قرار پایا۔ بتایا جاتا ہے کہ موجودہ امریکی وزیرخارجہ کونڈا لیزا رائس کے والد محترم بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہیں سیاہ فام ہونے کی وجہ سے ۱۹۶۴ء تک ووٹ کا حق حاصل نہیں تھا اور ایک مسلسل سیاسی اور عدالتی جنگ کے ذریعے وہ ووٹ کا حق حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

اس پس منظر میں ۱۰ دسمبر ۱۹۴۸ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے منظور کیا جانے والا انسانی حقوق کا یہ عالمگیر اعلامیہ تاریخی اہمیت کا حامل اور مغرب کو اس پر بجا طور پر فخر کا حق حاصل ہے کہ اس نے صدیوں کی طویل، صبر آزما اور جانگسل جدوجہد کے بعد انسانی حقوق کے تحفظ او ربحالی کا یہ مقام حاصل کیا۔ لیکن کیا یہ نسل انسانی کی تاریخ میں انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے تسلیم کیے جانے کا پہلا موقع ہے؟ اس سے ہمیں اختلاف ہے اور ہم تاریخی حقائق کی بنیاد پر یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ مغرب کی حد تک اہل مغرب کا یہ دعویٰ درست ہے کہ میگنا کارٹا سے شروع ہو کر اقوام متحدہ کے عالمی منشور تک پہنچنے والی یہ جدوجہد انسانی حقوق کی ایک کامیاب جدوجہد ہے اور مغرب کے قرون مظلمہ کے پس منظر میں یہ بہت بڑا تاریخی کارنامہ ہے۔ لیکن نسل انسانی اس سے صدیوں قبل انسانی حقوق اور شہری آزادیوں سے نہ صرف متعارف تھی بلکہ انہیں عملاً یہ حقوق حاصل بھی تھے اور ہم اس کی کچھ جھلکیاں قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔

مغرب میں عوام کے حقوق کی جدوجہد کی تاریخ کو جتنا بھی پیچھے کھینچ کر لے جائیں، زیادہ سے زیادہ گیارہویں صدی عیسوی تک اسے لے جایا جا سکتا ہے جب ۱۰۳۷ء میں برطانیہ کے بادشاہ کانریڈ ثانی نے ایک قانون کے ذریعے پارلیمنٹ کے اختیارات کا تعین کیا تھا۔ لیکن اس سے چار سو سال قبل اسلام کا نظامِ خلافت وجود میں آ چکا تھا جس کی ایک جھلک یہ ہے کہ خلیفہ کا انتخاب لوگوں کی رائے سے ہوا تھا اور اس طرح عوام کا یہ حق باقاعدہ طور پر تسلیم کیا گیا تھا کہ وہ اپنے حکمران کا چناؤ کریں۔

  • خلیفۂ اول حضرت صدیق اکبرؓ نے اپنے پہلے خطبے میں اعلان کیا تھا کہ اگر میں قرآن و سنت کی اطاعت کروں تو میری اطاعت تم پر واجب ہے اور اگر قرآن و سنت کے خلاف چلوں تو میری اتباع تم پر ضروری نہیں ہے۔ سیاسی طور پر اسے شخصیت کی بجائے قانون کی حکمرانی کہا جاتا ہے۔
  • حضرت صدیق اکبرؓ نے اسی خطبے میں یہ اعلان بھی کیا تھا کہ لوگو! تمہیں یہ حق حاصل ہے کہ اگر میں سیدھا چلوں تو میرا ساتھ دو اور اگر ٹیڑھا چلنے لگوں تو مجھے سیدھا کر دو۔ اسے عام سیاسی مفہوم میں بیان کیا جائے تو یہ عوام کے حقِ احتساب کا اعلان تھا کہ اگر وہ حکمران کو اصول و قانون کے خلاف دیکھیں تو اسے سیدھا کرنے کی کوئی عملی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔
  • حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں بہت سے واقعات تاریخ کے ریکارڈ پر ہیں جن میں عین خطبے کے دوران ایک شخص کا مجمع کے درمیان کھڑے ہو کر لمبا کرتہ پہننے پر ان سے بازپرس کا واقعہ زبان زد عام ہے۔ اور یہ واقعہ بھی مستند کتابوں میں موجود ہے کہ ایک بار مہر کی رقم پر پابندی لگانے پر ایک خاتون نے سرِراہ روک کر ان سے کہا کہ ان کا یہ حکم قرآن کریم کی منشاء کے خلاف ہے۔ تو حضرت عمرؓ نے اسے تسلیم کر کے اپنا حکم فوری طور پر واپس لینے کا اعلان کر دیا۔ یہ قانون کی بالادستی کے ساتھ ساتھ عوام کے حقِ احتساب اور آزادیٔ رائے کا عملی اظہار تھا۔
  • حضرت عثمان غنیؓ کے دورِ خلافت میں جب ان کے عمال اور افسران کے خلاف شکایات عام ہونے لگیں اور مختلف اطراف سے ان کے گورنروں کے خلاف اعتراضات سامنے آنے لگے تو انہوں نے باقاعدہ اعلان کر کے اپنے گورنروں کو حج بیت اللہ کے موقع پر منیٰ کے میدان میں جمع کیا اور ان کی موجودگی میں عام لوگوں کو موقع دیا کہ وہ ان کے خلاف اپنی شکایات پیش کریں۔
  • حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا زرہ کا مقدمہ بھی تاریخ کا مشہور واقعہ ہے جس میں وہ مقدمہ میں ایک فریق کے طور پر قاضی شریح کی عدالت میں خود پیش ہوئے اور مقدمے کا فیصلہ بھی ان کے خلاف ہوا۔ اسے عدالتی اور قانونی زبان میں قانون کی نظر میں سب کے برابر ہونے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
  • حضرت عمر بن عبد العزیزؒ جب پہلے خلیفہ کی طرف سے نامزدگی کے باعث خلیفۃ المسلمین بنائے گئے تو انہوں نے جامع مسجد دمشق میں کھلے بندوں خطبہ دیتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اس کے لیے تیار نہیں ہیں اور عوام کو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ اپنے حکمران کا خود انتخاب کریں۔ چنانچہ عام اجتماع میں لوگوں کے اصرار پر انہوں نے خلافت قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ یہ عوام کو حکمران کے انتخاب کا حق واپس کرنے کا اعلان تھا۔

خلفاء راشدینؓ بلکہ ملتِ اسلامیہ کی پہلی صدی اور اس کے بعد کے ادوار میں بھی اس قسم کی بیسیوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں اسلامی ریاست میں عوام کے حقوق اور آزادیوں کی کیا صورتحال تھی۔ ان میں سے بطور نمونہ یہ چند مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ البتہ اس دور کے دو واقعات کا مزید تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

’’فتوح الشام‘‘ میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ خلافتِ راشدہ کے دور میں روم کے دربار میں حضرت معاذ بن جبلؓ ایک بار سفیر بن کر گئے تو رومی سرداروں نے ان پر اپنے پروٹوکول اور کروفر کا رعب ڈالنا چاہا، اس پر انہوں نے دربایوں سے مخاطب ہو کر فرمایا :

’’ہمارا امیر ہم میں سے ایک شخص ہے، اگر ہمارے درمیان قرآن و سنت کے مطابق عمل کرے تو ہم اسے برقرار رکھتے ہیں اور اگر اس کی خلاف ورزی کرے تو ہم اسے معزول کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اگر وہ چوری کرے تو ہم اس کا ہاتھ کاٹ دیتے ہیں، اگر زنا کرے تو اسے سزا دیتے ہیں، اگر کسی کو گالی دے تو جس کو گالی دی ہے اسے جواب دینے کا حق ہوتا ہے، اگر کسی کو زخمی کرے تو وہ اس سے قصاص لے سکتا ہے، وہ ہم سے چھپ کر نہیں بیٹھتا، ہم پر بڑائی کا اظہار نہیں کرتا اور بیت المال کے اموال میں ہم پر کوئی ترجیح نہیں رکھتا بلکہ وہ ہماری طرح کا ہی شخص ہوتا ہے۔‘‘

’’کتاب الاموال‘‘ میں روایت ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے دور حکومت میں ان کی طرف سے عراق میں متعین گورنر عبد الحمیدؒ نے ان سے دریافت کیا کہ میرے پاس صوبائی بیت المال میں کچھ رقم فاضل پڑی ہے اس کا کیا کروں؟ جواب دیا کہ مستحق لوگوں کو ان کے وظائف ادا کر دو۔ اس نے کہا کہ وہ کر چکا ہوں۔ فرمایا کہ مقروض لوگوں کو تلاش کر کے ان کے قرضے ادا کرو۔ گورنر نے جواب دیا کہ وہ بھی کر چکا ہوں۔ امیر المومنینؓ نے فرمایا کہ کنوارے لوگوں کو تلاش کر کے سرکاری خرچے پر ان کی شادیاں کرواؤ اور ان کا حق مہر بھی ادا کرو۔ گورنر نے جواب دیا کہ یہ بھی کر چکا ہوں۔ چوتھا جواب ملا کہ جن لوگوں پر جزیہ عائد ہے وہ اپنی زمینوں کا صحیح طور پر بندوبست نہیں کر پا رہے، ان لوگوں کو قرضے دو تاکہ وہ اپنی زمینوں کو صحیح طریقے سے آباد کر سکیں۔

یہ عوام کے حقوق، آزادیٔ رائے، شہری حقوق اور بیت المال (سرکاری خزانے) سے متعلقہ حقوق کے حوالے سے مغرب میں عوامی حقوق کی جدوجہد کے نقطۂ آغاز سے چار سو سال پہلے کی باتیں ہیں جو تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں بلکہ انسانی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ اس لیے اگر کوئی مغربی دنیا کی حد تک یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے انسانوں کو ان کے حقوق کا شعور بخشا اور حقوق کے حصول کی جدوجہد سے متعارف کرایا تو یہ بات کسی حد تک تسلیم کی جا سکتی ہے۔ لیکن انسانی معاشرے میں آزادیٔ رائے، عوام کا حکومت کی تشکیل کا حق، حکومت کے احتساب کا حق اور سرکاری خزانے سے معاشی کفالت کا حق مغرب کی جدوجہد سے صدیوں پہلے موجود تھا، عام لوگ اس سے مستفید ہوتے تھے اور ان حقوق سے دنیا کو متعارف کرانے کا کریڈٹ اسلام کو جاتا ہے جو ایک فطری دین ہونے کے باعث ماضی کی طرح مستقبل کا دین بھی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter