پاکستان ۔ اسلامی نظام سے دوری کیوں؟

   
تاریخ : 
۱۳ اگست ۲۰۰۲ء

بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے قیامِ پاکستان سے تین سال قبل انڈین نیشنل کانگریس کے لیڈر مہاتما گاندھی کے نام ایک مکتوب میں لکھا تھا کہ

’’قرآن مسلمان کا ضابطۂ حیات ہے، اس میں مذہبی اور مجلسی، دیوانی اور فوجداری، عسکری اور تعزیری، معاشی اور معاشرتی غرض کہ سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ مذہبی رسوم سے لے کر روزانہ امورِ حیات تک، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق و فرائض تک، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرم تک، زندگی میں جزا و سزا سے لے کر عقبیٰ کی جزا و سزا تک ہر ایک فعل، قول اور حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ موجود ہے۔ لہٰذا جب میں یہ کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہے تو حیات اور مابعد حیات کے ہر معیار اور ہر مقدار کے مطابق کہتا ہوں۔‘‘ (بحوالہ ’’نظریہ پاکستان اور اسلامی نظام‘‘ ۔ شائع کردہ مکتبہ محمود اچھرہ، لاہور)

یقینی بات ہے کہ پاکستان کے نام سے ایک الگ ریاست کے قیام کی جدوجہد میں قائد اعظم اور ان کے رفقاء کا مقصد اور ہدف یہی تھا جس کا اظہار انہوں نے اپنے مدمقابل سیاسی حریف کے نام خط میں واضح طور پر کر دیا ہے۔ اور اس کے علاوہ بھی بیسیوں خطابات، بیانات اور خطوط میں انہوں نے اس عزم کا دوٹوک اظہار کیا کہ پاکستان کے نام سے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ سلطنت کے قیام کی جدوجہد وہ اسی غرض سے کر رہے ہیں کہ اس نئی ریاست میں اسلامی نظامِ حیات کا نفاذ عمل میں لایا جائے گا، اور قرآن کریم کے اسی اجتماعی نظام کی حکمرانی ہو گی جس کا ذکر انہوں نے گاندھی جی کے نام خط میں کیا تھا۔

بعض دوستوں کا خیال ہے اور متعدد مسلم لیگی زعماء مختلف فورموں پر اس کا اظہار کر چکے ہیں کہ قائد اعظم کا اصل مقصد جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو ہندوؤں کے معاشی تسلط سے نجات دلانا اور سیاسی خودمختاری سے بہرہ ور کرنا تھا جس کے لیے اسلامی نظام کا تذکرہ صرف عام مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے انتخابی نعرہ کے طور پر کیا گیا تھا۔ اور ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ‘‘ کا نعرہ بھی اسی جذباتیت کا ماحول قائم رکھنے کے لیے گوارا کر لیا گیا تھا جبکہ قائد اعظم پاکستان کو ایک دینی ریاست کی شکل دینے کی بجائے جدید طرز کی سیکولر ریاست بنانے کے خواہشمند تھے۔

قطع نظر اس کے کہ یہ بات کہنے والے دوست ’’سیاسی اخلاقیات‘‘ کے حوالے سے قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم اور ان کے رفقاء کی ٹیم کے بارے میں کیا تاثر قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، واقعاتی لحاظ سے بھی یہ بات غلط ہے۔ اس لیے کہ قیامِ پاکستان کے بعد جب انتخابی مہم اور عوامی جدوجہد کی کوئی فضا موجود نہیں تھی اور سب مراحل طے ہو چکے تھے، قائد اعظم مرحوم نے اپنے اس موقف کو متعدد بار دہرایا کہ وہ اب بھی اسلام کو اجتماعی زندگی میں مکمل ضابطۂ حیات سمجھتے ہیں اور پاکستان کا دستور اسی بنیاد پر تشکیل پائے گا۔ چنانچہ ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا:

’’اسلامی اصول و ضوابط آج بھی اسی طرح قابلِ عمل ہیں جس طرح آج سے تیرہ سو برس پہلے تھے۔ اسلام محض رسوم و روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ نہیں ہے، اسلام ہر مسلمان کے لیے ضابطۂ حیات بھی ہے، اسلام میں انسان انسان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ مساوات، آزادی اور اخوتِ اسلام کے اساسی اصول ہیں۔ ہم دستورِ پاکستان بنائیں گے اور دنیا کو بتائیں گے کہ اعلیٰ آئینی نمونہ ہے۔‘‘ (بحوالہ قائد اعظم کے وسال از محمد علی چراغ)

اس لیے یہ بات تاریخی حقائق کے حوالے سے طے شدہ ہے کہ قیامِ پاکستان کا مقصد ایک نظریاتی اسلامی ریاست کی تشکیل تھا اور قرآن و سنت کے اصولوں کی بنیاد پر دستور و نظام کی تدوین و نفاذ ہی اس نوزائیدہ ریاست کے قیام و وجود اور بقا و استحکام کی واحد اساس ہے۔ لیکن جب ہم اس پس منظر میں اپنی نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط قومی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو مایوسی اور تذبذب کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

۱۴ اگست ہمارا یومِ آزادی ہے کہ اس روز ہم نے برطانوی استعمار سے آزادی حاصل کر کے ایک آزاد اور خودمختار قوم کی حیثیت سے نئی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ اور یہ دن ایک نئی اسلامی نظریاتی ریاست کے قیام کا دن بھی ہے جس دن اس دنیا کے نقشہ پر ایک بار پھر اسلامی اصولوں کی عملداری اور قرآن و سنت کے نظامِ حیات کو بروئے کار لانے کا عزم کیا گیا تھا۔ لیکن دونوں محاذوں پر ہم نے پیش قدمی کی بجائے پسپائی اختیار کی ہے اور قیامِ پاکستان کے بعد پہلے سال کے ساتھ رواں سال ۲۰۰۲ء کے قومی تناظر کا تقابل کیا جائے تو معروضی حقائق ہمارا منہ چڑاتے نظر آتے ہیں۔

نظام و قانون کے محاذ پر ہم ابھی تک برطانوی استعمار کی یادگار نوآبادیاتی نظام سے پیچھا نہیں چھڑا سکے۔ سیاسی، معاشی اور معاشرتی شعبے تو رہے ایک طرف کہ ہم نے ان اہم ترین قومی شعبوں میں اسلامی اصولوں کی عملداری کے بارے میں ابھی تک سوچا ہی نہیں، عدالتی شعبہ میں، جہاں اسلامی قوانین کا نفاذ نسبتاً آسان ہے اور دنیا کے بہت سے مسلم ممالک نے موجودہ عالمی ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ وفاداری کا رشتہ استوار رکھتے ہوئے بھی عدالتی شعبوں میں اسلامی قوانین کا تسلسل قائم رکھا ہوا ہے، ہماری صورتحال یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے والی جن چند ریاستوں میں عدالتی طور پر شرعی قوانین تھے، پاکستان کا دستوری طور پر حصہ بن جانے کے بعد وہاں بھی اسلامی قوانین کو ختم کر کے برطانوی دور کے عدالتی نظام کو رائج کر دیا گیا۔ مثلاً قلات، بہاولپور، خیرپور اور سوات جیسی ریاستوں میں ایک عرصہ سے عدالتی طور پر شرعی قوانین نافذ تھے لیکن جب انہیں پاکستان میں ضم کر کے اس کا دستوری حصہ بنا لیا گیا تو فورًا ہی محدود سطح پر جو شرعی قوانین نافذ تھے وہ ان سے بھی محروم ہوگئیں۔

چند سال قبل مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی قوانین کے نفاذ کی زبردست عوامی تحریک کے موقع پر مجھے سوات کے صدر مقام سیدو شریف اور مینگورہ جانے کا موقع ملا تو وہاں ہائیکورٹ کے ایک وکیل جناب بشیر احمد ایڈووکیٹ نے اس تحریک کے اسباب و عوامل کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس میں عوام کی زبردست دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ریاست سوات کے پاکستان میں ضم ہونے سے پہلے انہیں عدالتوں میں مفت انصاف ملتا تھا اور فوری فیصلے ہوتے تھے۔ جبکہ اب برطانوی دور کی یادگار قانونی نظام کی پیچیدگیوں نے انصاف کا حصول ان کے لیے مہنگا اور مشکل بنا دیا ہے۔ ان وکیل صاحب کا کہنا تھا کہ اگرچہ شرعی قضا کے اس نظام میں بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سی بدعنوانیاں داخل ہو گئی تھیں اور عام طور پر بہت سے قاضی صاحبان کی شہرت اچھی نہیں رہی تھی لیکن اس کے باوجود بلامعاوضہ انصاف اور جلد از جلد فیصلہ کی دو سہولتیں اس نظام میں آخر وقت تک موجود رہیں جس کی وجہ سے لوگ اب بھی اس دور کو یاد کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ مروجہ قانونی نظام کی پیچیدگیوں، مہنگائی اور طوالت سے نجات دلا کر انہیں وہی پرانے والا نظام قانون واپس کر دیا جائے۔

یہ تو اسلامی نظام کی طرف قومی سطح پر ہماری پیشرفت کا حال ہے، دوسری طرف آزادی کے حوالے سے دیکھ لیجئے کہ ہم کس مقام پر کھڑے ہیں؟ ہماری معیشت ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ڈبلیو ٹی او کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے۔ قومی سیاست پر وائٹ ہاؤس کا ریموٹ کنٹرول قائم ہے اور معاشرت کو عالمی میڈیا، بین الاقوامی اداروں اور ہزاروں این جی اوز کے نیٹ ورک نے اپنی ہمہ گیر یلغار کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ اس فضا میں ’’یومِ آزادی‘‘ اور ’’یومِ قیامِ پاکستان‘‘ مناتے ہوئے ہمیں

  • انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنے گزشتہ نصف صدی کے کردار کا محاسبہ کرنا چاہیے،
  • اسلام اور آزادی دونوں حوالوں سے اپنی حالتِ زار کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے ہوئے قومی، طبقاتی، گروہی اور شخصی ہر سطح پر اپنے طرزِ عمل اور ترجیحات پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔

کیونکہ اس کے بغیر ہم نہ تو قومی خودمختاری اور سیاسی و معاشی آزادی کی منزل سے ہمکنار ہو سکیں گے اور نہ ہی اسلامی اصولوں کی عملداری کے حوالے سے پاکستان کے قیام کے مقصد کی طرف کوئی پیشرفت ممکن ہو گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter