پولیس، حساس ادارے کی رپورٹ اور پنجاب حکومت کا مستحسن اقدام

   
۹ فروری ۲۰۰۷ء

ایک حساس ادارے کی طرف سے لاہور کے پولیس افسروں کے بارے میں خفیہ رپورٹ کے انکشاف پر پولیس کے حلقوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے اور وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے جہاں ایک حساس ادارے کی اس خفیہ رپورٹ کی اشاعت پر آئی جی پنجاب سے جواب طلبی کی ہے، وہاں بدنام قرار دیے جانے والے افسران کو ملازمت سے فارغ کر دینے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ جبکہ جن افسران کو بدنام افسران کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، انہوں نے اس پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے اور بعض نے الزامات کا سامنا کرنے اور خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا ہے۔

کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال اور عام لوگوں کو تنگ کرنے کے حوالے سے بہت سے دوسرے محکمے بھی پولیس سے پیچھے نہیں ہیں، لیکن پولیس کی پبلک ڈیلنگ کا دائرہ چونکہ سب سے زیادہ وسیع ہے اور اس کے اختیارات بھی دوسروں سے زیادہ ہیں، اس لیے اس کی کرپشن سے عام آدمی زیادہ تنگ ہے اور اس کے خلاف واویلا بھی زیادہ کیا جاتا ہے۔ باقی محکموں کے اہلکاروں کو کچھ دے دلا کر لوگ اپنا کام نکال لیتے ہیں، لیکن پولیس کے پاس کسی کو تھانے میں بند کر دینے، مقدمہ درج کرنے اور تفتیش کے بہانے تشدد کا نشانہ بنانے کے مواقع اور اختیارات بھی موجود ہیں، اس لیے اس کے خلاف واویلا عموماً کامیاب نہیں ہوتا اور بے سہارا لوگ دباؤ کا شکار ہو کر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔

گزشتہ دنوں پنجاب کے نئے آئی جی پولیس چودھری احمد نسیم نے کھلی کچہری میں عوام کی شکایات سننے کا اہتمام کیا تو بہت سی ایسی شکایات سامنے آئیں جن کا انہیں فوری نوٹس لینا پڑا اور اب ایک خفیہ ادارے کی طرف سے پولیس کے نیک نام اور بدنام افسروں کی فہرست نے بہت سے لوگوں کے زخم پھر سے تازہ کر دیے ہیں۔ پولیس کے افسران اپنے اختیارات کا جس انداز میں استعمال کرتے ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اور ہمیں بھی اس سے سابقہ پیش آتا رہتا ہے۔

ابھی چند روز قبل ۱۹ جنوری ۲۰۰۷ء کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں پاکستان شریعت کونسل کے زیر اہتمام سالانہ خلافت راشدہ کانفرنس منعقد ہوئی، جس سے مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا عبد الحق خان بشیر، مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر، مولانا محمد ریاض خان سواتی، مولانا محمد اسلم ندیم اور دیگر علماء کے علاوہ کونسل کے مرکزی ناظم مولانا محمد نواز بلوچ نے بھی خطاب کیا، جو دو روز قبل حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کر کے واپس آئے تھے۔ وہ کانفرنس سے خطاب کر کے واپس اپنے گھر جا رہے تھے کہ کالج روڈ پر کھڑے پولیس افسران نے انہیں گرفتار کر لیا۔ ہمیں کانفرنس کے دوران ہی اس کی اطلاع مل گئی، میں نے ڈی پی او گوجرانوالہ سے فون پر بات کی تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اس کا پتہ کرتے ہیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ کارروائی ایک پولیس افسر کی ذاتی صوابدید کا نتیجہ تھی اور اس نے مولانا محمد نواز بلوچ کو سولہ سال قبل درج کیے جانے والے ایک مقدمہ کے تحت گرفتار کیا تھا، جو ایک بچی کے قتل کے خلاف نکالے جانے والے احتجاجی جلوس میں تقریر کرنے کے الزام میں درج کیا گیا تھا۔ اب اس واقعہ کو سولہ سال گزر جانے کے بعد اس پولیس افسر کو اچانک یہ خیال آ گیا تھا کہ مولانا محمد نواز بلوچ اس کیس میں اشتہاری ملزم ہیں اور اس نے کارروائی ڈالنے کے لیے انہیں گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا، جہاں سے چھ دن کے بعد ضمانت پر ان کی رہائی ہو سکی۔

اسی طرح کی ایک اور حرکت نو محرم کو ڈسکہ جانے پر سننے میں آئی کہ اس سے ایک روز قبل ڈسکہ کی کسی مسجد میں ایک مقامی عالم دین نے درس دیا اور متعلقہ تھانہ کے پولیس افسر نے انہیں گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن جب وہ مولانا صاحب گرفتار نہ ہو سکے تو اس مسجد میں ٹھہری ہوئی ایک تبلیغی جماعت کو ہی اٹھا کر تھانہ میں بند کر دیا۔ اس تبلیغی جماعت کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ اس مسجد میں موجود تھی جس میں پولیس کے نزدیک کوئی قابلِ اعتراض گفتگو ہوئی تھی۔ یہ اختیارات کے ناجائز استعمال کا ایک عام سا مظاہرہ ہے، جس کا نشانہ بہت سے علماء وقتاً فوقتاً بنتے رہتے ہیں۔

علاوہ ازیں ایک سال قبل کی بات ہے کہ محرم الحرام میں عاشورہ کے موقع پر قلعہ دیدار سنگھ، ضلع گوجرانوالہ میں ایک صاحب نے اپنی تقریر میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف اس انداز سے غیظ و غضب کا اظہار کیا کہ اس میں واضح طور پر توہینِ رسالت بھی پائی جاتی تھی۔ اس کی شکایت درج کرائی گئی تو متعلقہ پولیس افسران نے تحقیق کے بڑے مراحل طے کیے، مگر جب دیکھا کہ بات اتنی واضح ہے کہ اسے نظر انداز کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تو ان صاحب کو گرفتار کر لیا۔ مگر دوسری طرف پولیس نے شکایت کرنے والوں کے خلاف بھی اپنی/ اسی نوعیت کا کیس درج کر لیا، جس کے لیے ایک فرضی جلسہ گھڑا گیا اور ایسے افراد کو، جو اس وقت اس شہر میں بھی موجود نہیں تھے، من گھڑت تقاریر منسوب کر کے ملزم بنا دیا گیا۔ یہ ساری کارروائی کیس کو متوازن کرنے کے لیے کی گئی اور پولیس کے حکام اس بات کو تسلیم کرتے رہے کہ یہ کیس جھوٹا ہے۔ لیکن چونکہ یہ ایک طے شدہ پالیسی کے تحت درج کیا گیا تھا، اس لیے اسے واپس لینے کی بجائے دباؤ کے طور پر استعمال کیا گیا اور دونوں فریقوں کو برابر قرار دے کر ان کے درمیان سمجھوتے کی فضا قائم کی گئی، جس کے نتیجے میں دونوں طرف کے کیس خارج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

یہ دو تین واقعات وہ ہیں جو گوجرانوالہ ڈویژن سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک سال کے اندر واقع ہوئے ہیں، جبکہ ابھی ایک روز قبل چناب نگر سے احرار رہنما مولانا اللہ یار ارشد میرے پاس گوجرانوالہ تشریف لائے اور ایک الگ داستانِ غم سنا گئے۔ انہوں نے بتایا کہ چناب نگر میں چاہ قمی والا کے علاقے میں ایک قدیم ترین مسجد چلی آ رہی تھی، جس میں مسلمان نماز ادا کرتے تھے، وہ رقبہ ایک قادیانی نے خریدا اور پورے علاقے کی چار دیواری کر کے رات کی تاریکی میں اس مسجد کو شہید کرنے کے بعد اس کا ملبہ اٹھا کر جگہ کو بالکل برابر کر دیا۔ اس پر علاقہ کے مسلمانوں نے احتجاج کیا۔ مولانا اللہ یار ارشد کہتے ہیں کہ انہوں نے صرف اتنا کیا کہ مسجد کی جگہ کا لوگوں کے کہنے پر معائنہ کیا اور پھر تھانے جا کر متعلقہ پولیس افسران سے کہا کہ وہ مسئلہ کو اچھے طریقے سے حل کرا دیں، مگر ڈی ایس پی چناب نگر سرکل سعید احمد کے حکم پر انہیں گرفتار کر لیا گیا اور ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کرا دیا گیا۔

یہ مقدمہ یکم دسمبر کو 9ATA کے تحت تھانہ چناب نگر میں مقدمہ نمبر ۶۲۱ کے طور پر درج کیا گیا، جس کی ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ مولانا اللہ یار نے لوگوں کو اکٹھا کر کے اشتعال دلانے کے لیے ان کے سامنے تقریر کی اور لوگوں کو اکسایا اور بھڑکایا، جبکہ مولانا اللہ یار ارشد کا کہنا ہے کہ اس قسم کا کوئی واقعہ سرے سے رونما ہی نہیں ہوا، نہ لوگوں کا کوئی اجتماع ہوا اور نہ انہوں نے خطاب کیا، البتہ اتنا ضرور ہوا کہ ایک دو دوستوں کے کہنے پر انہوں نے وہ جگہ دیکھی اور اس کے بعد خود تھانے گئے کہ مسئلہ کے حل کے لیے کوئی راستہ نکالا جا سکے، مگر مذکورہ ڈی ایس پی نے اس کا حل یہی سمجھا کہ مولانا اللہ یار ارشد کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا جائے۔

یہ بھی پولیس افسر کے صوابدیدی اختیارات کا کرشمہ ہے کہ موقع پر اس نے جو چاہا وہ کر دیا۔ اگرچہ بعد میں عدالت نے ضمانت پر رہائی کے احکام صادر کر دیے اور کیس کی سماعت کے بعد مولانا اللہ یار ارشد کو بری بھی کر دیا، لیکن وہ بارہ روز جیل میں رہے اور ان کی بارہ دن کی آزادی ایک ڈی ایس پی کے صوابدیدی اختیارات کی نذر ہو گئی۔

یہ حرکت اگر کسی مغربی ملک میں ہوتی تو ڈی ایس پی مذکور نہیں، بلکہ پوری پنجاب پولیس کو لینے کے دینے پڑ جاتے۔ لیکن ہمارے ہاں چونکہ آج کل روشن خیالی کی حکمرانی ہے، اس لیے اسے معمول کی کارروائی قرار دے کر آسانی سے ہضم کر لیا جائے گا اور کوئی اس سلسلے میں بات کرنا بھی چاہے گا تو بڑی سادگی سے کہہ دیا جائے گا کہ ایسا تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ بہرحال بعض پولیس افسران کے بارے میں ایک حساس ادارے کی رپورٹ کی اشاعت پر ہمیں بھی یہ شکایت پیش کرنے کا موقع مل گیا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعلیٰ پنجاب اور آئی جی پنجاب پولیس اس قسم کی کارروائیوں کی روک تھام کے لیے عملی اقدام کریں گے؟

   
2016ء سے
Flag Counter