ایک تبلیغی دورے کی سرگزشت

   
۲۴ جنوری ۲۰۰۶ء

تبلیغی جماعت کی برکت سے مجھے عید الاضحی کے بعد دو دن ماڈل ٹاؤن لاہور کے علاقے میں گزارنے کا موقع ملا۔ کبھی کبھی میں تبلیغی جماعت کے ساتھ سہ روزہ لگایا کرتا ہوں جس کا ایک مقصد تو اس کارِ خیر کے ساتھ نسبت اور تعلق قائم رکھنا ہوتا ہے ،اس کے ساتھ ساتھ بہت سے دوستوں سے ملاقات ہو جاتی ہے اور دینی جدوجہد کے نئے رجحانات سے آگاہی ہوتی رہتی ہے۔ پروگرام کے مطابق مجھے عید الاضحی کے بعد جمعہ کے روز شام کو گوجرانوالہ سے علمائے کرام کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ لاہور پہنچنا تھا اور ہماری تشکیل مرکز کی طرف سے لنک روڈ ماڈل ٹاؤن کی مسجد شیخہ سالم میں ہو گئی تھی، مگر اپنے ایک پرانے دوست اور رفیق کار ڈاکٹر غلام محمد صاحب کی وفات کے باعث میں جمعہ کو سفر نہ کر سکا۔ ڈاکٹر صاحب جمعیت علماء اسلام (س)کے صوبائی نائب امیر تھے، ایک عرصے سے بیمار تھے، جمعۃ المبارک کی صبح ان کا انتقال ہوا اور شام کو عصر کے بعد نوشہرہ ورکاں کے قریب گاؤں ظفر آباد میں جنازہ تھا۔

ڈاکٹر غلام محمد ۱۹۷۲ء سے کم و بیش تیس سال تک ضلع گوجرانوالہ کی دینی سیاست کا متحرک کردار اور ضلع کی امن کمیٹی کے فعال رکن رہے۔ میرے اس وقت کے ساتھی تھے جب گوجرانوالہ اور حافظ آباد ایک ہی ضلع ہوا کرتے تھے، ہم عام طور پر بائیسکل پر ضلع کے دور دراز علاقوں میں جماعتی کام کے لیے گھوما کرتے تھے اور ضلع کا کوئی علاقہ ہماری دسترس سے باہر نہیں ہوا کرتا تھا۔ ان سے صرف چار روز قبل ہمارے ایک اہم ساتھی اور جمعیت علماء اسلام (س) ضلع گوجرانوالہ کے امیر مولانا علی احمد جامی کا انتقال ہوا ہے۔ وہ مدرسہ نصرۃ العلوم کی طالب علمی کے دور سے میرے ساتھی تھے، دینی تحریکات میں ہمیشہ پیش پیش رہے اور قید و بند کی صعوبتیں بھی متعدد بار برداشت کیں۔ اللہ تعالٰی ہمارے ان دونوں دوستوں کی مغفرت فرمائیں اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

ڈاکٹر غلام محمد صاحب کے جنازے کی وجہ سے میں ہفتہ کی صبح مسجد شیخہ سالم پہنچا اور جاتے ہی امیر جماعت کی طرف سے دیے گئے شیڈول کے مطابق کام کا آغاز ہو گیا۔ میرے ذمہ کام یہ تھا کہ سرکردہ علماء کرام کی خدمت میں تبلیغی جماعت کے دوسرے رفقاء کے ہمراہ حاضر ہو کر ان سے جماعت کے کاموں کی سرپرستی کی درخواست کروں اور ۱۵ مارچ سے لاہور میں ہونے والے تبلیغی اجتماع کی کامیابی کے لیے دعا کی گزارش کروں۔ میرے ساتھ ان ملاقاتوں میں مسجد شیخہ سالم کے خطیب مولا نا عبد الغفور، فیصل آباد کے ایک عالمِ دین مولا نا عبید اللہ اور ماڈل ٹاؤن لاہور کے ایک سرگرم نوجوان عالم مولانا عثمان آفاق بھی شریک تھے۔ میری عادت ہے کہ جب کسی کام کا نظم میرے ہاتھ میں ہو تو مرضی اپنی کیا کرتا ہوں لیکن کسی اور کے ہاتھ میں نظم ہو تو مداخلت نہیں کیا کرتا اور چپ چاپ ساتھ چلتا رہتا ہوں۔ مگر یہاں میں نے تھوڑی سی مداخلت کی کہ جن حضرات سے ملاقاتیں کرنا تھیں ان کی فہرست اپنی مرضی سے بنوا لی۔ چنانچہ پہلے روز ہم جامعہ اشرفیہ گئے، عید الاضحی کی تعطیلات کی وجہ سے اکثر اساتذہ اور طلبہ چھٹی پر تھے اس لیے صرف ایک بزرگ استاذ مولانا عبد الرحیم چترالی سے ملاقات ہو سکی۔ انہوں نے بہت شفقت فرمائی اور نصرت کے لیے مسجد شیخہ سالم میں تشریف لائے۔

دارالعلوم اسلامیہ اقبال ٹاؤن میں حاضری ہوئی تو مولانا قاری احمد میاں تھانوی موجود تھے ان سے بہت سے امور پر گفتگو ہوئی۔ وہ ان دنوں علم و تجوید و قراءت کے ایک موضوع پر جامعہ پنجاب سے ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں۔ ان کا مقالہ آخری مراحل میں ہے، اس کے کچھ حصے انہوں نے ہمیں دکھائے۔ قاری صاحب محترم نے جماعتی کاموں کی تحسین کی اور علماء گوجرانوالہ سے ملاقات کے لیے مسجد شیخہ سالم تشریف لائے۔ ان کے بعد ہم بزرگ عالمِ دین اور روحانی پیشوا حضرت سید نفیس شاہ صاحب مدظلہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، وہ سگیاں راوی پل سے شاہدرہ کی جانب دو فرلانگ کے فاصلے پر اپنی خانقاہ میں تھے جو مجاہدین بالاکوٹ کے امیر حضرت سید احمد شہیدؒ کے نام سے موسوم ہے اور حضرت شاہ صاحب کے متعلقین اور معتقدین روحانی تربیت و تسکین کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے ہیں، وہاں ہم نے نماز ظہر ادا کی اور ملاقات کا مقصد عرض کر کے دعا کرائی۔ حضرت شاہ صاحب کی سرپرستی میں حال ہی میں ایک اہم کتاب شائع ہوئی ہے، اس کا ایک نسخہ انہوں نے مجھے مرحمت فرمایا۔ یہ کتاب حضرت امام زیدؒ کی حیات اور ان کی فقہ کے تعارف پر مشتمل ہے اور مصر کے نامور محقق الاستاذ ابو زہرہؒ کی تصنیف ہے۔ امام زید شہیدؒ حضرت امام زین العابدینؒ کے فرزند تھے، اہل تشیع سے منسوب ایک مستقل فرقہ ’’زیدی‘‘ کی نسبت انہی کی طرف کی جاتی ہے اور زیدیوں کو اہل تشیع کا ایک فرقہ شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن وہ دیگر اہل تشیع سے مختلف ہیں اسی لیے ایران کے دستور میں حنفی، شافعی، حنبلی اور مالکی فقہی مکاتب فکر کے ساتھ ساتھ زیدیوں کو بھی اقلیتوں میں شمار کیا گیا ہے۔ استاد ابو زہرہؒ نے اس کتاب میں امام زیدؒ کی سوانح حیات اور دینی و علمی خدمات کے ساتھ ساتھ زیدی فرقے کے عقائد اور ان کی فقہ کے اہم پہلوؤں سے بھی متعارف کرایا ہے۔ میں نے ایک عرصہ قبل یہ کتاب بیرون ملک کسی لائبریری میں دیکھی تھی اور خواہش تھی کہ اس کا ایک نسخہ میرے پاس بھی ہو۔ اب یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ حضرت سید نفیس شاہ صاحب نے اسے اپنی نگرانی میں لاہور سے طبع کرا دیا ہے۔ انہوں نے اس کا ایک نسخہ اپنے دستخطوں کے ساتھ مجھے مرحمت فرمایا، یہ کتاب عربی میں ہے اور عربی جاننے والے حضرات اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

وہاں سے فارغ ہو کر ہم نے ایک اور بزرگ عالمِ دین مولانا عبد القیوم نیازی سے ملاقات کی اور واپس اپنے مرکز آگئے۔ مغرب کے بعد ہماری جماعت کے امیر نے مجھے بیان کے لیے کہا، میں نے دعوت و تبلیغ کی اہمیت اور اس سلسلہ میں علماء کرام کی ذمہ داریوں پر گفتگو کی اور ایک بات کی بطور خاص گزارش کی کہ ہمارے ہاں علماء کرام کے حلقوں میں یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ تبلیغی جماعت کا کام بہت اچھا ہے لیکن بہت محدود ہے اور تبلیغی جماعت کے لوگ اپنے محدود دائرے سے ہٹ کر دین کے دوسرے کاموں کی توجہ نہیں دیتے، فلاں کام نہیں کرتے اور فلاں کام نہیں کرتے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ بات درست ہے لیکن میرے خیال میں ایک کام وہ ضرور کرتے ہیں کہ ایک عام آدمی کو، جس کا مسجد کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا، بہلا پھسلا کر کسی طرح مسجد میں لے آتے ہیں اور ایک عام آدمی جو مولوی کے ساتھ کوئی تعلق اور انس نہیں رکھتا، اسے گھیر گھار ہمارے پیچھے مقتدی بنا کر کھڑا کر دیتے ہیں۔ اس سے اگلا کام تو ہمارا ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو یہ حضرات کسی نہ کسی طرح مسجد میں لے آتے ہیں ان کو سنبھالیں، ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں اور انہیں دین پر پختہ کرنے کے لیے ماحول فراہم کریں۔ اگر ہم تبلیغی جماعت کو مسجد و مدرسہ کی ’’ریکروٹنگ ایجنسی‘‘ سمجھ لیں اور اس سے اگلے کاموں کو خود سنبھال لیں تو میرے خیال میں ملک کے کسی عالمِ دین کو تبلیغی جماعت سے کوئی شکایت باقی نہیں رہے گی۔ البتہ اگر ہم اپنے حصے کا کام بھی انہی کے کھاتے میں ڈالتے رہیں اور اس سلسلہ میں خود کوئی کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہ ہوں تو پھر ساری شکایات درست ہیں۔

دوسرے روز اتوار کو ہم نے ملاقاتوں کا آغاز جامعہ رضویہ میں حاضری سے کیا اور معروف عالمِ دین مولانا مفتی غلام سرور قادری سے ملاقات ہوئی۔ مفتی صاحب نے اپنی گفتگو میں سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا کہ مختلف مکاتب فکر بالخصوص دیوبندیوں اور بریلویوں کے درمیان مفاہمت اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہم سب کو کردار ادا کرنا چاہئے۔ میں نے گزارش کی کہ میں تو بحمد اللہ اس کے لیے ایک عرصہ سے متفکر اور سرگرم ہوں اس لیے وہ اس مقصد کے لیے جب بھی بلائیں گے مجھے انشاء اللہ حاضر و مستعد پائیں گے۔ اس کے بعد ہم ماڈل ٹاؤن جے بلاک میں اہلحدیث مکتب فکر کے ایک علمی مرکز میں گئے جو ہمارے محترم دوست مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی کی نگرانی میں کام کر رہا ہے مگر حافظ صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ فیملی سمیت حج بیت اللہ کے لیے گئے ہوئے ہیں اس لیے کسی سے ملاقات نہ ہو سکی۔

ظہر کی نماز ہم نے ماڈل ٹاؤن کی مرکزی جامع مسجد میں ادا کی اور مولانا مفتی خلیل الرحمان حقانی سے ملاقات کی، پھر مولانا وکیل احمد شیرانی کے گھر حاضری دی جو مجلس حیات المسلمین کے تحت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے علوم و معارف کی اشاعت کے لیے مسلسل سرگرم عمل رہتے ہیں، حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ کے فرزند مولانا ڈاکٹر خلیل احمد تھانوی سے ملاقات کی، اس کے بعد محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے جو صاحب فراش ہیں، ان کی بیمار پرسی کی اور تبلیغی جماعت کے لاہور کے اجتماع کے پروگرام سے آگاہ کیا۔ ڈاکٹر صاحب موجودہ حالات سے بہت زیادہ دل برداشتہ ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ ہماری آزمائشیں بڑھتی جا رہی ہیں تو فرمانے لگے کہ میرے خیال میں آزمائشوں کا دور ختم ہو گیا ہے، اب تو فیصلہ سنانے کا وقت آگیا ہے اور پاکستان کی حد تک تو ہمارے لیے خدا کا عذاب شاید مقدر ہو چکا ہے۔

اس روز کی ملاقاتوں کا اختتام ہم نے جناب جاوید احمد غامدی کے گھر حاضری پر کیا۔ غامدی صاحب ہمارے محترم دوست ہیں، ان کے ساتھ اختلاف بھی چلتا رہتا ہے اور دوستی بھی چل رہی ہے۔ انہوں نے تبلیغی جماعت کی محنت کی تحسین کی اور کہا کہ وہ اس کی افادیت کے قائل ہیں بلکہ ایک دور میں اس میں وقت بھی لگا چکے ہیں۔ انہوں نے اس دور کے بعض دلچسپ واقعات سنائے البتہ اس کام کو مزید بہتر اور مؤثر بنانے کے لیے وہ بہت سی تجاویز اور تحفظات رکھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ رفتہ رفتہ جماعت کے قائدین کو بھی ان امور کا احساس ہوتا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں تبلیغی جماعت نے صوفیاء کرام کے اس خانقاہی نظام کو باقی رکھا ہوا ہے جو مختلف حوالوں سے پریشان حال لوگوں کے لیے روحانی اور نفسیاتی تسکین کے مراکز ہوا کرتے تھے اور وہ وہاں جا کر سکون پایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ماہرین نفسیات کی عام ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ میں نے گزارش کی کہ میرا تاثر بھی یہی ہے اور میں تبلیغی جماعت کو ’’موبائل خانقاہ‘‘ اور مسجد و مدرسہ کی ’’ریکروٹنگ ایجنسی‘‘ سے تعبیر کیا کرتا ہوں۔

عید کی چھٹیوں کے دو دن ماڈل ٹاؤن لاہور اور اس کے گرد و نواح کے ماحول میں خاصے مصروف گزرے۔ بہت سے دینی مراکز میں حاضری ہوئی، مختلف بزرگوں سے ملاقات ہوئی اور متعدد امور پر اہل دانش سے گفتگو کا موقع ملا، مگر سب سے زیادہ خوشی یہ معلوم کر کے ہوئی کہ لاہور کے ضلعی ناظم میاں عامر محمود کی کوشش سے گزشتہ چند برسوں سے ماڈل ٹاؤن کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے عید کی نماز سب سے بڑی گراؤنڈ میں اکٹھے پڑھنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ صرف ایک مسجد کے خطیب صاحب کے سوا باقی سب علماء کرام عید کی نماز ایک امام کے پیچھے پڑھتے ہیں اور ماڈل ٹاؤن میں عید کا اجتماع واقعی عید کا اجتماع نظر آنے لگا ہے، اللہ تعالٰی نظر بد سے بچائیں، آمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter