امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے اس ہونہار نواسے کی اچانک اور حادثاتی موت نے تو کچھ لمحات کے لیے ذہن پر سکتہ طاری کر دیا۔ وہ مکہ مکرمہ کی ام القریٰ یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دے رہے تھے اور کئی برسوں سے سعودیہ میں مقیم تھے۔ اس سال اپریل کے دوران مکہ مکرمہ میں حاضری کے دوران میری خواہش رہی کہ ان سے ملاقات ہو جائے مگر میرے میزبان کا ان سے رابطہ نہ ہو سکا۔ اور اب پیر کے روز میں میرپور آزاد کشمیر کے ایک دینی مدرسہ کے اجتماع میں شرکت کے لیے جا رہا تھا کہ برادرم عبد اللطیف خالد چیمہ نے ٹیلی فون پر گلوگیر لہجے میں یہ خبر دی کہ سید ذوالکفل بخاری مکہ مکرمہ میں ٹریفک کے ایک حادثہ میں انتقال کر گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ اپنی عمر کے چالیس برس بھی مکمل نہیں کر پائے تھے کہ بلاوا آ گیا۔
موت کا وقت، جگہ اور کیفیت تینوں اللہ تعالیٰ کے پاس طے شدہ ہیں اور تقدیر میں ازل سے لکھی ہوئی ہیں، مگر خود انسان کو ان میں سے کسی ایک کا بھی علم نہیں ہے۔ امام غزالی رحمہ اللہ تعالیٰ کے بقول اسی بے خبری پر دنیا کی ساری رونقیں قائم ہیں، ورنہ ہر انسان کو مرنے سے پہلے بار بار مرنے کے مراحل سے گزرنا پڑے۔ سید ذوالکفل بخاریؒ کا یہ تعارف تو تھا ہی کہ وہ امیر شریعتؒ کے نواسے اور بخاری خاندان کے چشم و چراغ ہیں، مگر ہمارے لیے ان کا ایک تعارف اور بھی تھا کہ وہ علم و فکر کی دنیا کے آدمی تھے۔ مطالعہ کرنا، مسائل پر بحث و مباحثہ کرنا اور نقد و جرح کے ساتھ ہر بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرنا ان کا ذوق تھا۔ دار بنی ہاشم ملتان میں ان سے متعدد ملاقاتیں ہوئیں اور بہت سے مسائل پر ان سے گفتگو ہوئی۔ ان کا کریدنا اور سوال کا انداز مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ میرا اپنا ذوق یہ ہے کہ گہرائی اور سنجیدگی کے ساتھ سوال کرنے والے نوجوان کا منتظر رہتا ہوں۔ مطالعہ و تحقیق اور بحث و کرید کے میدان میں آج کے دور میں جن نوجوانوں سے وابستہ امیدیں مسلسل بڑھتی جا رہی تھیں، ان میں ایک اہم نام سید ذوالکفل بخاری کا بھی تھا اور اس پہلو سے یہ میرے لیے ذاتی صدمہ بھی ہے۔
سید ذوالکفل بخاریؒ ہمارے ملک کے ان باشعور نوجوانوں میں سے تھے جن سے بجا طور پر اہل نظر کی یہ توقعات وابستہ ہو گئی تھیں کہ امت مسلمہ کی زبوں حالی کے اس دور میں وہ اپنی ذہانت، مطالعہ، تدبر اور حوصلہ کے ساتھ علمی و فکری راہ نمائی کی وہ روایت قائم رکھ سکیں گے جو ہمارے ماضی کے تسلسل کا حصہ رہی ہے اور جس روایت کا ذکر ہوتے ہی ماضی قریب میں مولانا ابو الکلام آزادؒ، مولانا ظفر علی خانؒ، چودھری افضل حقؒ، مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ، مولانا مناظر احسنؒ گیلانی، مولانا عبد الماجد دریابادیؒ اور آغا شورش کاشمیری مرحوم جیسے عظیم نام خودبخود ذہن کی اسکرین پر ابھر آتے ہیں۔ ان کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جس کے تعارف میں سب سے پہلے خطابت کا تذکرہ ہوتا ہے اور اردو زبان کے سب سے بڑے خطیب امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی خطابت سے اس خاندان کے تعارف کا آغاز ہوتا ہے، لیکن یہ خطابت خالی اسٹیج کی خطابت نہ تھی بلکہ اس کی پشت پر علم و حکمت، زبان و ادب، مطالعہ و تحقیق اور رجز و شعر کے ساتھ ساتھ لہجے کی گھن گرج اور محاورے کی چاشنی بھی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر رہی ہے۔ سید ذوالکفل بخاریؒ نے جن نابغہ شخصیات کی سرپرستی میں شعور کی منزلیں طے کیں ان میں مولانا سید ابوذر بخاریؒ کا نام سب سے نمایاں ہے جنہیں اس دور میں ایک چلتی پھرتی اور بحث و تمحیص کرتی ہوئی لائبریری کے عنوان سے معنون کیا جا سکتا ہے اور اس سیرگاہ کے گل ہائے رنگارنگ کی خوشبو سید ذوالکفل بخاریؒ کی باتوں سے بھی چھلکتی تھی۔
سید ذوالکفل بخاری کا تعلق قلم اور کتاب سے تھا اور علم و شعور کی باتیں ہی ہر وقت ان کی نوک زبان پر رہتی تھیں۔ وہ مطالعہ کی گہرائی میں ڈوب کر جب تجزیہ و تحقیق اور استفسار و سوال کی طرف متوجہ ہوتے تو ان کی نکتہ رسی کا سامنا کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ مجھے ان کے ساتھ متعدد محفلوں میں گفت و شنید کا موقع ملا ہے اور وہ ان معدودے چند نوجوانوں میں سے تھے جن کے سوال کا جواب دینے کے لیے پہلے کچھ دیر سوچنا پڑتا۔ خدا جانے ایسے نوجوان مجھے کیوں زیادہ پسند ہیں جو روایت کے دائرے میں خود کو پابند رکھتے ہوئے
کے ذوق سے بھی بہرہ ور ہیں۔ شاید یہ مستقبل کی صحیح صورت گری کے تقاضوں میں سے ہو۔ مجھے سید ذوالکفل بخاریؒ سے انس تھا، ان کے خاندانی تناظر کی وجہ سے، ان کے علمی ذوق کی وجہ سے، کتاب کے ساتھ ان کے والہانہ تعلق کی وجہ سے، ان کے سوالات کے تیکھے پن کی وجہ سے، اور امت کے لیے ان کے درد میں ڈوبے ہوئے دل کی وجہ سے۔ یہ باتیں تو شاید کہیں نہ کہیں بکھری ہوئی مل ہی جائیں گی مگر ان سب کے مجموعہ کو سید ذوالکفل بخاریؒ کی صورت میں اب کہاں تلاش کروں گا؟
اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔