ہفت روزہ ضربِ مومن کراچی نے ۲۲ مارچ ۲۰۰۲ء کی اشاعت میں انکشاف کیا ہے کہ امریکہ کی سیاسی پالیسی کے ترجمان جریدہ ’’نیشنل ریویو‘‘ کے ایک مضمون نگار ریچرڈ لوری نے امریکی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ مکۃ المکرمۃ پر ایٹمی حملہ کر دیا جائے کیونکہ مکہ مکرمہ فطری طور پر سرکش اور انتہا پسند ہے (نعوذ باللہ) اور اگرچہ مکہ مکرمہ پر حملوں کے نتیجے میں بہت ساری ہلاکتیں واقع ہوں گی تاہم اس سے مسلمانوں کو قوی اشارہ ملے گا کہ وہ امریکہ کے خلاف منفی خیالات ذہن سے نکال دیں۔ مضمون نگار کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی بہت سے بڑے بڑے مذاہب تباہی سے دوچار ہوئے، یہ اہم وقت ہے اس لیے قبل اس کے کہ امریکہ پر حملہ ہو اور ہزاروں کی تعداد میں امریکی شہری ہلاک ہوں، مکہ مکرمہ پر حملے کی تیاری مکمل کر لینی چاہیے۔ ریچرڈ لوری نے لکھا ہے کہ اگر دمشق، قاہرہ، الجزائر، طرابلس اور ریاض نے امریکہ کے خلاف کسی بھی منفی ردعمل کا اظہار کیا تو انہیں فوری طور پر صفحۂ ہستی سے مٹا دینا چاہیے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس مضمون کے بعد امریکہ کے اکثر اخبارات نے مکہ مکرمہ پر حملہ کی تائید کی ہے اور کہا ہے کہ ایٹمی حملوں کا اولین نشانہ تہران اور بغداد ہو۔ ان اخبارات نے لکھا ہے کہ اگر ہمارے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ایسے ایٹمی ہتھیار ہوتے جو صرف ہدف ہی کو نشانہ بنا سکتے تو ہم فلسطینی علاقہ غزہ اور رام اللہ پر حملہ کرتے، لیکن چونکہ وہاں یہودی بھی بستے ہیں اس لیے حملے نہیں کر سکتے۔
امریکی صحافی ریچرڈ لوری کا یہ مضمون کوئی اتفاقی بات یا محض شخصی جذبات کا اظہار نہیں ہے بلکہ اس قسم کے بیانات و مضامین جہاں امریکی قیادت کے دلی جذبات کی عکاسی کرتے ہیں وہاں مسلمانوں کے جذبات اور ردعمل کا اندازہ لگانے کے لیے بھی جان بوجھ کر اس قسم کی باتیں لکھی جاتی ہیں، تاکہ ان جذبات اور ردعمل کو سامنے رکھ کر آئندہ پالیسیوں کا تعین کیا جا سکے۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ حرمین شریفین ہونے کے ناتے سے پوری دنیا کے مسلمانوں کی عقیدت و محبت کا مرکز اور ان کی فکری و اعتقادی وحدت و مرکزیت کی علامت ہیں۔ اور یہ فکری وحدت اور اعتقادی مرکزیت صرف رسمی نہیں بلکہ ہر سال حج بیت اللہ کے موقع پر اور رمضان المبارک میں دنیا کے ہر خطہ سے لاکھوں مسلمان جمع ہو کر اس وحدت و مرکزیت کا عملی اظہار کرتے ہیں۔ اور اگرچہ خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد عالمِ اسلام کی سیاسی مرکزیت کا کوئی وجود نہیں رہا، لیکن فکری وحدت اور اعتقادی مرکزیت کا رشتہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے درمیان بدستور قائم ہے جس کے عملی اظہار کا سب سے بڑا مرکز مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہے، اور اسی وجہ سے یہ مراکز عالمِ کفر کی آنکھوں میں بری طرح کھٹکتے ہیں۔
حرمین شریفین کے خلاف صہیونی اور صلیبی حلقوں کی طرف سے اس طرح کی انتہاپسندانہ اور وحشیانہ کاروائی کی تجویز نہیں ہے بلکہ
- معروف مصری دانشور ڈاکٹر محمد حسینؒ نے اپنی کتاب ’’زہد تجاہات الوطنیۃ فی الادب المعاصر‘‘ میں لکھا ہے کہ اب سے پون صدی قبل جب عالمِ اسلام کے خلاف برطانیہ اور فرانس کی جارحیت عروج پر تھی، فرانس کے ایک دانشور نے بھی یہ تجویز پیش کی تھی کہ مسلمانوں کے مسئلہ کا حل صرف یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا قتلِ عام کیا جائے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو اکھاڑ کر ہڈیوں کو پریس کے عجائب گھر میں منتقل کر دیا جائے۔ (نعوذ باللہ تعالیٰ)
- جبکہ اس سے قبل سلطان نور الدین زنگیؒ کے دور میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اطہر تک سرنگ نکال کر آپؐ کے جسدِ مبارک کو وہاں سے منتقل کرنے کی یہودی سازش تاریخ کے ریکارڈ میں موجود ہے، جس سے خود جناب نبی اکرمؐ نے خواب میں سلطان نور الدین زنگیؒ کو خبردار کیا تھا۔ جس پر سلطان مرحوم نے ان سازشیوں کو گرفتار کرنے کے بعد وہ سرنگ بند کر دی تھی اور روضۂ اطہر علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کے گرد چاروں اطراف گہری خندق کھدوا کر اسے سیسے سے بھر دیا تھا تاکہ آئندہ کوئی بد باطن اس طرح کی مکروہ و مذموم حرکت نہ کر سکے۔
حرمین شریفین کا محافظ خود اللہ تعالیٰ ہے اور ہمارا عقیدہ ہے کہ جس روز حرمین شریفین نہ رہے اس روز یہ دنیا بھی قائم نہ رہے گی اور قیامت بپا ہو جائے گی۔ البتہ امریکی صحافی کی یہ ہرزہ سرائی دنیائے اسلام کے ان حکمرانوں اور دانشوروں کے لیے ضرور لمحۂ فکریہ ہے جو ابھی تک کسی درجہ میں امریکہ سے خیر کی کوئی توقع وابستہ کیے بیٹھے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمِ اسلام کے خلاف صہیونی اور صلیبی گٹھ جوڑ کے عزائم اور پروگرام سے مکمل آگاہی حاصل کی جائے اور عالمِ اسلام کو اس کے خلاف منظم و بیدار کرنے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ محنت کی جائے۔