میں ان دنوں نیویارک میں ہوں اور کوئنز کے علاقہ جمیکا میں واقع دارالعلوم نیویارک میں قیام پذیر ہوں۔ رات کو تراویح کے بعد تراویح میں پڑھے جانے والے قرآن کریم کے خلاصے کے طور پر کچھ گزارشات پیش کر دیتا ہوں اور نماز فجر کے بعد ایک حدیث نبویؐ مختصر وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کا معمول ہے۔ اس کے علاوہ باقی دن رات کا وقت تھوڑے سے دیگر معمولات کے ساتھ سوتے جاگتے گزرتا ہے اور میرے لیے یہ دن پورے سال میں سب سے زیادہ آرام کے دن ہوتے ہیں۔ رمضان المبارک کے ابتدائی چار دن دارالعلوم میں اور اس سے اگلے چار دن بروکلین کی مکی مسجد میں اسی ترتیب سے گزار کر ان شاء اللہ تعالیٰ وطن واپس آجاؤں گا اور پھر وہی دن رات کی گہما گہمی ہوگی جس میں کبھی کبھار ایسی صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ چند سال قبل رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اہلیہ نے مجھ سے میری ڈائری دکھانے کا تقاضا کیا، میں نے مقصد پوچھا تو کہنے لگیں کہ ڈائری دیکھ کر عید سے قبل افطاری کے لیے ایک دن ہمیں بھی دے دیں۔ فالحمد للہ علیٰ ذلک۔
گزشتہ شب دارالعلوم کی مسجد میں حافظ صاحب نے تراویح میں پانچواں پارہ پڑھا جس کی چند آیات کا مختصر مفہوم میں نے بیان کیا۔ یہاں نمازیوں میں یہ دلچسپی ہر جگہ نظر آتی ہے کہ وہ تراویح کے بعد تراویح میں پڑھے جانے والے قرآن کریم کا خلاصہ شوق سے سنتے ہیں اور گھر جانے کی اتنی جلدی نہیں ہوتی جتنی ہمارے ہاں کے نمازیوں کو ہوتی ہے۔ یہاں کا روزہ ہمارے روزے سے بڑا ہوتا ہے اور اسی حساب سے راتیں چھوٹی ہوتی ہیں۔چار اگست کو یہاں سحری چار بج کر انتیس منٹ پر ختم ہوئی اور شام کو روزہ آٹھ بج کر نو منٹ پر افطار ہوا۔ رات کو تراویح وغیرہ سے سوا گیارہ بجے کے لگ بھگ فراغت ہوتی ہے، اس کے بعد بھی بیان سننے کے لیے نمازیوں کی بڑی تعداد بیٹھتی ہے۔ میرا معمول پندرہ بیس منٹ بیان کرنے کا ہے مگر سننے والوں کا تقاضا باقی رہتا ہے اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ اتنا ہی مزید بیان ہو لیکن میں سحری کے خیال سے اس سے گریز کرتا ہوں۔ گزشتہ رات کو یہاں کیے جانے والے خلاصے کا تھوڑا سا حصہ نذرِ قارئین ہے۔
پانچواں پارہ سورۃ النساء کے بڑے حصے پر مشتمل ہے۔ سورۃ النساء کا آغاز اللہ تعالیٰ نے خاندانی نظام اور اس کے احکام کے تذکرے سے کیا ہے۔ تین چار رکوع خاندانی زندگی کے مسائل کے بارے میں ہیں جن میں نکاح، وراثت، میاں بیوی کے معاملات و حقوق، زیر کفالت یتیموں کے حقوق، جن خواتین سے نکاح حرام ہے ان کا تذکرہ، بدکاری کی حرمت و سزا اور اس نوعیت کے دیگر احکام و قوانین بیان ہوئے ہیں۔ جبکہ دوران میں ایک اصولی بات قرآن کریم نے یہ کہی ہے کہ چونکہ خاندان ایک ادارہ ہے اور سوسائٹی کا ایک یونٹ ہے اس لیے اس کا نظام ایک ہاتھ میں رہے گا تو یہ کامیابی سے چلے گا اور اگر اختیارات ایک سے زیادہ ہاتھوں میں ہوں گے تو یہ بکھر جائے گا۔ قرآن کریم نے اسے دو جملوں میں بیان فرمایا ہے۔ ایک یہ کہ ’’الرجال قوامون علی النسآء‘‘ خاندانی زندگی میں مرد کو گھر کے حکمران کی حیثیت حاصل ہے۔ جبکہ دوسرا جملہ قرآن کریم میں ایک اور جگہ ہے کہ ’’وللرجال علیھن درجۃ‘‘ مردوں کو عورتوں پر سنیارٹی حاصل ہے۔
یہ کامن سینس کی بات ہے کہ کسی فیکٹری یا ادارے میں برابر کے اختیارات کے دو منیجر ہوں گے تو وہ ادارہ نہیں چل سکے گا۔ کسی ایک کو بہرحال سنیارٹی دے کر فائنل اتھارٹی بنانا ہوگا۔ اسی طرح خاندان کے ادارے میں بھی فائنل اتھارٹی ایک ہی ہوگی البتہ اس کے ماتحت رہ کر عورت بھی رائے اور اختیار سے محروم نہیں ہے۔ اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں ’’والمرأۃ راعیۃ فی بیت زوجھا‘‘ (عورت اپنے خاوند کے گھر میں حاکم ہے) فرما کر اسے وزیرداخلہ بہرحال بنا دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے یہ بات قرآن کریم میں ایک اور انداز سے بھی سمجھائی ہے اور فرمایا ہے کہ کائنات کا نظام ایک طے شدہ ترتیب کے ساتھ صحیح اس لیے چل رہا ہے کہ کنٹرول ایک ہاتھ میں ہے، اگر اس کے ساتھ کسی اور کی پاور شیئرنگ ہوتی تو یہ نظام فساد کا شکار ہوچکا ہوتا۔ اس لیے خاندان میں بھی کنٹرول ایک ہاتھ میں ہوگا تو خاندان صحیح طور پر سوسائٹی میں اپنا کردار ادا کرے گا ورنہ وہی کچھ ہوگا جو خاندانی نظام کے حوالے سے مغربی دنیا میں ہو رہا ہے۔
اسی طرح حافظ صاحب نے تراویح میں ایک اور آیت کریمہ پڑھی جس میں انسانی حقوق کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ سورۃ النساء کی آیت نمبر ۳۶ ہے۔ قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ وہ حقوق کی بات کرتا ہے اور بیسیوں آیات قرآن میں حقوق کی وضاحت کی گئی ہے جن میں فرد کے حقوق بھی ہیں، سوسائٹی کے حقوق بھی ہیں، ریاست و حکومت کے حقوق بھی ہیں، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق بھی ہیں اور ماں باپ اور اولاد کے حقوق بھی ہیں۔ لیکن قرآن کریم نے ہر جگہ آغاز حقوق اللہ سے کیا ہے اور ’’انسانی حقوق‘‘ کی بجائے حقوق اللہ اور حقوق العباد کے عنوان سے بات کی ہے۔ مغرب کا فلسفہ و نظام حقوق کی بات کرتا ہے لیکن اس میں حقوق اللہ کا کہیں بھی کوئی تذکرہ نہیں ہے، وہ صرف انسانی حقوق کی بات کرتا ہے اور اس میں بھی وہ جامعیت اور ترتیب نہیں ہے جو قرآن و سنت کے بیان کردہ حقوق میں ہے۔ اس آیت کریمہ میں قرآن کریم نے اسی ترتیب سے حقوق کا ذکر کیا ہے اور دیگر بہت سی آیات کریمہ میں حقوق کے حوالے سے قرآن کریم کا اسلوب بیان یہی ہے کہ حقوق اللہ کا ذکر پہلے ہے اور اس کے بعد حقوق العباد کا تذکرہ ہے۔
سورۃ النساء کی مذکورہ آیت ۳۶ کا مفہوم یہ ہے کہ (۱) اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، (۲) اور حسن سلوک کرو ماں باپ کے ساتھ (۳) قریبی رشتہ داروں کے ساتھ (۴) یتیموں کے ساتھ (۵) مساکین کے ساتھ (۶) پڑوسی رشتہ داروں کے ساتھ (۷) اجنبی پڑوسیوں کے ساتھ (۸) پہلو میں بیٹھنے والوں کے ساتھ یعنی ملازمت اور کاروبار وغیرہ کے ساتھیوں کے ساتھ (۹) مسافروں کے ساتھ (۱۰) اور اپنے ماتحتوں کے ساتھ، ان دس طبقوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم صرف اس ایک آیت کریمہ میں آتا ہے۔ جبکہ دیگر تفصیلات بیسیوں دوسری آیاتِ قرآنی میں موجود ہیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نوعیت کے ارشادات سینکڑوں احادیث نبویہؐ کا حصہ ہیں۔
حافظ صاحب نے ایک اور آیت کریمہ کی تلاوت کی جس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ اگر تم کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرتے رہو گے تو تمہارے چھوٹے چھوٹے گناہ ہم مٹا دیں گے اور تمہیں عزت کے گھر (جنت) میں داخل کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ کبیرہ گناہوں سے بچنے کی صورت میں صغیرہ گناہ وہ خود ہی معاف کر دیں گے، یہ سورۃ النسآء کی آیت ۳۱ ہے۔
کبیرہ گناہ اور صغیرہ گناہ کی تقسیم ہمارے ہاں عام طور پر چلتی ہے، ان دونوں میں فرق کیا ہے؟ محدثین کرامؒ یہ فرماتے ہیں کہ جس گناہ کے ساتھ قرآن کریم یا حدیث نبویؐ میں سزا کا ذکر ہے، وہ دنیا کی سزا ہو یا آخرت کی، وہ کبیرہ گناہ ہے۔ اسی طرح جس جرم کے ساتھ لعنت اور غضب خداوندی کا ذکر ہے، جہنم کی وعید ہے، اللہ تعالیٰ یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کام کرنے والے سے برأت اور لاتعلقی کا اظہار کیا ہے، ایسے تمام گناہ کبیرہ گناہ ہیں۔ حافظ شمس الدین ذہبیؒ نے اس اصول پر اپنی کتاب ’’الکبائر‘‘ میں ستر گناہ بیان کیے ہیں۔ مگر صوفیائے کرامؒ کا اسلوب بیان مختلف ہوتا ہے، ایک اللہ والے بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ کبیرہ گناہ اور صغیرہ گناہ میں کیا فرق ہے؟ تو انہوں نے عجیب سا جواب دیا، انہوں نے فرمایا کہ بڑے سے بڑے گناہ پر توبہ کر لو اور معافی مانگ لو تو وہ صغیرہ ہو جاتا ہے، چھوٹی سی غلطی پر اکڑ جاؤ تو وہ کبیرہ گناہ بن جائے گی۔ گویا اصل بات گناہ کا احساس اور اس پر توبہ ہے، اگر یہ نصیب ہوجائے تو چھوٹے بڑے گناہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں معافی کے مستحق ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح پانچویں پارے کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم ایمان اور شکر گزاری کا راستہ اختیار کرو، اور اللہ تبارک و تعالیٰ شکر قبول کرنے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کو تمہیں سزا دینے اور عذاب میں ڈالنے سے کوئی دلچسپی نہیں مگر اس کے لیے شرط ہے کہ تم ایمان اور شکر گزاری کا راستہ اختیار کرو جبکہ اللہ تعالیٰ بندوں کے شکر قبول کرتے ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ کون سا بندہ کس نیت اور جذبے کے ساتھ کون سا عمل کر رہا ہے۔