امریکی حکام کا ویزا دینے سے گریز

   
تاریخ : 
جنوری ۱۹۹۸ء

ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر بل کلنٹن نے حال ہی میں ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے اگلے صدارتی انتخابات کے لیے اپنی نامزدگی کے موقع پر ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیاہے کہ وہ بیسیویں صدی کو امریکہ کی عالمی بالادستی کی صدی بنانے کے لیے کام کریں گے۔ امریکہ دنیا کی قیادت کا دعوے دار ہے لیکن اس وقت دنیا کو درپیش مسائل کے حوالے سے اس کا جو کردار سب کے سامنے ہے وہ عالمی قیادت کے بنیادی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے اور نہ ہی وہ ان تقاضوں کے ادراک کی ضرورت محسوس کر رہا ہے۔ راقم الحروف نے گزشتہ نو سال کے دوران اسلام آباد میں متعین امریکی سفیر کو مختلف معاملات کے بارے میں چار بار لکھا ہے لیکن امریکی سفارتخانے کے ذمہ داروں نے کسی ایک خط کا جواب دینے کی زحمت بھی گوارہ نہیں فرمائی۔ یہ ایک چھوٹا اور فروعی سا مسئلہ ہے لیکن اس سے امریکی حکمرانوں کے حکومتی مزاج کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ میں ان چار خطوط کو کم وبیش نو سال کے طویل انتظار کے بعد اشاعت کے لیے جاری کر رہا ہوں اور امریکی حکمرانوں سے صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قیادت وہی دیرپا ہوتی ہے جس کی بنیاد اصولوں اور اخلاقیات پر ہو، ڈنڈے اور طاقت کے زور پر مسلط کی ہوئی قیادت کی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے اور اس کی جڑیں بھی دلوں کی گہرائی تک رسائی حاصل نہیں کر پاتیں۔ خدا کرے کہ دنیا بھر کی قیادت کا خواب دیکھنے والے امریکی حکمرانوں کی سمجھ میں یہ بات جلد آجائے۔

عزت مآب جناب آرنلڈ رافیل صاحب!

سفیر ریاست ہائے متحدہ امریکہ، اسلام آباد

سلام و آداب!

اسلام آباد میں بحیثیت سفیر تشریف آوری پر پاکستان کی ایک اہم دینی سیاسی جماعت ’’جمعیۃ علماء اسلام پاکستان‘‘ کی طرف سے آنجناب کو خوش آمدید کہتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ آپ کا دور سفارت دونوں ملکوں کے درمیان باوقار اور خوشگوار تعلقات میں اضافہ کا باعث ہوگا۔ ہمارے لیے آپ کے بارے میں یہ معلومات مسرت افزا ہیں کہ پاکستان کے حوالہ سے آپ وسیع مطالعہ اور مشاہداتی علم سے بہرہ ور ہیں اور یہ کہ آپ پاکستان کی قومی زبان اردو سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔

مجھے اس بات کا احساس ہے کہ پاکستان میں آنجناب کی آمد کے ساتھ ہی اس خط کے ساتھ منسلک ایک تلخ مضمون کے ذریعے آپ کا خیر مقدم کر رہاہوں مگر اس بات کو بھی انتہائی ضروری سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے لیے امریکی امداد کے حالیہ معاملات کے بارے میں پاکستان کے دینی حلقوں کے جذبات سے آپ صحیح طور پر آگاہ ہوسکیں تاکہ معاملے کے تمام پہلوؤں کا ادراک آپ کے لیے آسان ہو اور آپ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی معزز حکومت کے سامنے حالات کی مکمل تصویر رکھ سکیں۔ امید ہے کہ اس مضمون کے بعض مندرجات کی تلخی اس کے منطقی تقاضوں کی تکمیل میں حائل نہیں ہوگی اور آپ ان جذبات سے اپنی معزز حکومت کو آگاہ کرنے میں فراخ دلی سے کام لیں گے۔

شکریہ

عزت ماب سفیر محترم ریاستہائے متحدہ امریکہ ۔اسلام آباد

سلام وآداب!

گزارش ہے کہ میں نے ۱۹۸۷ء میں امریکہ کا وزٹ ویز احاصل کیا تھا جس پر ۱۹۸۷ء، ۱۹۸۸ اور ۱۹۹۰ء میں چار مرتبہ امریکہ جاچکاہوں اور ہر بار مقررہ میعاد سے بہت کم قیام کا موقع ملا ہے۔ ۱۶ مئی ۱۹۹۴ء کو میں نے دوبارہ امریکی ویزا کے لیے لاہور کے قونصلیٹ جنرل میں درخواست دی جس پر مجھے کہا گیا کہ میں اپنے ذرائع آمدن کے دستاویزی ثبوت کے ساتھ دوبارہ درخواست دوں جو میں نے آج ۱۹ مئی ۱۹۹۴ء کو پیش کر دی اور اس کے ساتھ اپنی مالی پوزیشن اور سفری اخراجات کے حوالہ سے تحریری موقف درخواست سے منسلک کیا۔ مگر درخواست وصول کرتے وقت میرا تحریری موقف درخواست سے الگ کر کے مجھے واپس کر دیا گیا اور ایک دو رسمی سوالات کے بعد میری درخواست مسترد کر دی گئی۔ میرا خیال ہے کہ میرا تحریری موقف پڑھے بغیر اور اسے درخواست کے ساتھ منسلک کیے بغیر درخواست کو مسترد کرنا سراسر نا انصافی ہے جو شاید اس لیے روا رکھی گئی ہے کہ پاکستان کے معاملات میں امریکی طرز عمل کے خلاف میرے موقف اور سرگرمیوں کے باعث میری درخواست بہرحال مسترد کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا اس لیے تحریری موقف کو درخواست کے ساتھ منسلک رکھنے اور اسے پڑھ کر اس کے بارے میں مجھ سے اطمینان حاصل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

میں اپنے امریکہ کے سفر کے مقاصد اور اخراجات کے حوالے سے اپنا تحریری موقف اس عریضہ کے ساتھ منسلک کر رہا ہوں اور یہ گزارش کرتا ہوں کہ ویز اکی درخواست مسترد کرنے کے فیصلہ پر نظر ثانی کی جائے کیونکہ انسانی حقوق اور آزادیٔ رائے کے بارے میں امریکی موقف کو سامنے رکھتے ہوئے محض سیاسی مخالفت کی بنا پر ویزا دینے سے انکار ایک عجیب قسم کا تضاد معلوم ہوتا ہے۔ نیز گزارش ہے کہ میں ۲۶ مئی کو چار ماہ کے لیے لندن جا رہا ہوں اس لیے میرے اس عریضہ کا جواب لندن کے پتہ پر دیا جائے۔

بے حد شکریہ: والسلام
عبد المتین زاہد
المعروف ابو عمار زاہد الراشدی

بگرامی خدمت جناب عزت مآب تھامس سائمنز صاحب

سفیر ریاستہائے متحدہ امریکہ برائے اسلام آباد

سلام و آداب

یہ معلوم کرکے خوشی ہوئی کہ آنجناب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے ریاستہائے متحدہ امریکہ کے سفیر کی حیثیت سے اسلام آباد تشریف لاچکے ہیں۔ میں پاکستان کا ایک شہری اور مذہبی راہ نما ہونے کی حیثیت سے آپ کو تشریف آوری پر خوش آمدید کہتاہوں۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے تعلقات و معاملات دونوں ملکوں کے سیاسی و صحافتی حلقوں کے ساتھ مذہبی حلقوں میں بھی ایک عرصہ سے زیر بحث ہیں اور روزنامہ جنگ لاہور ۷ جنوری ۱۹۹۶ء کی رپورٹ کے مطابق آنجناب نے بھی واشنگٹن میں اپنی حلف برداری کے بعد بعض ایسے امور کا ذکر کیا ہے جو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے حوالہ سے باعث تشویش ہیں اور ان میں آپ کے بقول ’’حال اور مستقبل کی دنیا میں اسلام کا کردار اور انسانی حقوق کے احترام کی صورت حال‘‘ بھی شامل ہے۔

میں پاکستان کا ایک باشعور شہری اور معاشرہ میں اسلام کے بطور نظام زندگی نفاذ کی جدوجہد کا ایک نظریاتی کارکن ہوں۔ اس حوالہ سے عالم اسلام اور پاکستان کے بارے میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی موجودہ پالیسیوں کا مخالف ہوں اور اس اختلاف کا کھلم کھلا اظہار کرتا رہتا ہوں مگر اس کے باوجود یہ امکان بھی ہمیشہ پیش نظر رکھتا ہوں کہ اس وقت امریکہ اور عالم اسلام کے درمیان جو نظریاتی اور تہذیبی کشمکش جاری ہے اور جس کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے، ممکن ہے اس کے بہت سے پہلو غلط فہمیوں پر مبنی ہوں اور سنجیدہ گفت وشنید کے ساتھ انہیں دورکیا جا سکتا ہو۔ اس لیے اس امر کی ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ سرکاری سفارت کے ساتھ ساتھ بہت سی ایسی غلط فہمیوں سے بھی پیچھا چھڑایا جا سکے جو بلاوجہ کشیدگی میں اضافہ کا باعث بنی ہوئی ہیں۔

اس پس منظر میں آنجناب کے ساتھ ملاقات وگفتگو کا خواہش مند ہوں، امید ہے آپ اس پر سنجیدگی سے غور فرمائیں گے۔ اس عریضہ کے ساتھ مندرجہ ذیل مطبوعات بھی آپ کی خدمت میں بھجوا رہا ہوں تاکہ ہمار ا موقف سمجھنے میں آپ کو آسانی ہو۔

  • جنگ میں آپ کے مطبوعہ بیان کا تراشہ۔
  • ’’مغرب میں مقیم مسلمانوں کی دینی ذمہ داریاں‘‘کے عنوان پر اپنے بعض خطابات ومضامین کا مجموعہ۔
  • ’’اسلام اور انسانی حقوق‘‘ کے موضوع پر سہ ماہی مجلہ ’’الشریعہ‘‘ کا تازہ شمارہ۔
  • ہفت روزہ’’نقاب‘‘گوجرانوالہ کا ایک شمارہ جس میں میرا ذاتی تعارف تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔
بے حد شکریہ ،والسلام
ابو عمار زاہد الراشدی
چیئر مین ورلڈ اسلامک فورم
خطیب مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ

بگرامی خدمت جناب قونصل جنرل ریاستہائے متحدہ امریکہ لاہور

سلام و آداب!

گزارش ہے کہ میں پاکستان کا ایک معروف شہری ہوں، گوجرانوالہ کی مرکزی جامع مسجد کا گزشتہ چھبیس سال سے خطیب ہوں، ملک کی ممتاز دینی وسیاسی جماعت جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کا مسلسل سترہ سال تک (۱۹۷۵ء تا ۱۹۹۲ء) مرکزی سیکرٹری اطلاعات رہا ہوں، پاکستان قومی اتحاد کا صوبہ پنجاب کا سیکرٹری جنرل اور اسلامی جمہوری اتحاد کا صوبائی نائب صدر رہا ہوں، روزنامہ وفاق لاہور، ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور اور ہفت روزہ خدام الدین لاہور میں کم وبیش پچیس سال تک صحافتی خدمات سرانجام دیتا رہا ہوں اور اب بھی روزنامہ وفاق لاہور کا کالم نویس اور سہ ماہی علمی مجلہ الشریعہ گوجرانوالہ کا چیف ایڈیٹر ہوں، عالم اسلام اور پاکستان کے بارے میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کی موجودہ پالیسیوں کا سخت مخالف ہوں اور ان کے خلاف مسلم رائے عامہ کو بیدار و منظم کرنا میری جدوجہد کا ہمیشہ سے اہم حصہ رہا ہے، اپنی جدوجہد اور مقاصد کے لیے تعلیم اور میڈیا کے ذرائع پر یقین رکھتا ہوں اور انہیں ہر ممکن طورپر استعمال میں لانے کی کوشش کرتا ہوں، اسلامی نظریاتی جدوجہد میں تشدد کے ذرائع پر یقین نہیں رکھتا اور نہ ہی ایسا کوئی ذریعہ میری جدوجہد کاحصہ رہا ہے۔

میں نے ۱۶ جولائی ۱۹۸۷ء کو قونصلیٹ جنرل ریاستہائے متحدہ امریکہ لاہور سے امریکہ کا ملٹی پل ویز احاصل کیا تھا جو پانچ سال کے لیے تھا اور اس کے تحت ۱۹۸۷ء، ۱۹۸۸ء، ۱۹۸۹ء اور ۱۹۹۰ء میں چار مرتبہ امریکہ جا چکا ہوں۔مذکورہ ویزا اور امریکہ میں انٹری کے بارے میں پاسپورٹ کے متعلقہ صفحات کی فوٹو کاپی اس خط کے ساتھ منسلک کر رہا ہوں۔ امریکہ کے ویزے کے لیے میں نے ۱۶ مئی ۱۹۹۴ء کو درخواست دی جو منظور نہیں کی گئی، پھر ۱۹ مئی ۱۹۹۴ء کو دوبارہ درخواست دی وہ بھی منظور نہیں ہوئی، اس کے بعد ۵ جون ۱۹۹۵ء کو درخواست دی اور اسے بھی مسترد کر دیا گیا۔ میں یہ سمجھتاہوں کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے ویزے کے لیے میری درخواست کو منظور نہ کرنے کی یہ کاروائی میرے امریکہ مخالف نظریات اور امریکی پالیسیوں کے خلاف جدوجہد کی وجہ سے انتقامی طور پر کی گئی ہے جو مسلمہ انسانی حقوق کے منافی اور سراسر ناانصافی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے میرا یہ معمول ہے کہ ’’ورلڈ اسلامک فورم‘‘ اور دیگر مسلم تنظیموں کی سرگرمیوں میں شرکت کے لیے ہر سال دو تین ماہ لندن میں رہتا ہوں اور اسی دوران مسلسل چار سال تک امریکہ بھی جاتا رہا ہوں۔ اس سال ستمبر کے پہلے عشرے کے دوران تین ماہ کے لیے لندن جا رہا ہوں جس کے لیے کراچی سے میری ۸ ستمبر ۱۹۹۶ء کو گلف ایئر سے سیٹ کنفرم ہے اور اسی دوران دو تین ہفتے کے لیے امریکہ جانا چاہتا ہوں۔

’’ورلڈ اسلام فورم‘‘ کے تعلیمی پروگرام کا ایک اہم حصہ اسلامی تعلیمات کا خط وکتابت کورس ہے جو ’’اسلامک ہوم سٹڈی کورس‘‘ کے نا م سے گزشتہ دو سال سے جاری ہے اور اس کا دفتر مدنی مسجد ۲۸۹ گلیڈ سٹون سٹریٹ، فارسٹ فیلڈز، نوٹنگھم، برطانیہ میں ہے۔ یہ کورس انگلش اور اردو دو زبانوں میں ہیے جو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ دعوہ اکیڈمی کا تیار کردہ ہے اور اس کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ کے تحت’’ورلڈ اسلامک فورم‘‘ نے اسے آرگنائز کیا ہے اور اس سال اس کورس میں یورپ کے مختلف ممالک کے ایک ہزار سے زائد طلبہ وطالبات شریک ہیں۔ اس سال ریاستہائے متحدہ امریکہ جانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ’’اسلامک ہوم سٹڈی کورس‘‘ کا دائرہ ریاستہائے متحدہ امریکہ تک وسیع کرنے کے امکانات کا جائزہ لینا چاہتا ہوں اور دینی تعلیم کے حوالہ سے امریکہ میں مقیم مسلمانوں کی ضروریات پر وہاں کی مسلم تنظیموں سے رابطہ اور گفت وشنید کرنا چاہتا ہوں۔

ان معروضات کے ساتھ آنجناب سے گزارش کر رہا ہوں کہ مجھے ریاستہائے متحدہ امریکہ کا ویزا نہ دینے کی پالیسی پر نظر ثانی کی جائے اور اپنے فیصلے سے مجھے ہفتہ عشرہ کے اندر آگاہ کیا جائے تاکہ ویزے کے حصول کے لیے باضابطہ درخواست دے سکوں اور اس کے مطابق اپنے سفر کے انتظامات اور تیاری کرسکوں۔

بے حد شکریہ
والسلام :عبدالمتین زاہد
(المعروف ابو عمار زاہد الراشدی)
خطیب مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ
۲۹ جولائی ۱۹۹۶ء
   
2016ء سے
Flag Counter