جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس منعقدہ ۴ شوال ۱۴۰۴ھ کے فیصلوں کے مطابق مرکزی اور صوبائی سطح پر نظامِ شریعت کنونشنوں کے پروگرام طے ہو چکے ہیں اور مجالس استقبالیہ نے کام شروع کر دیا ہے:
- کل پاکستان نظامِ شریعت کنونشن ۴ و ۵ نومبر کو لاہور میں ہو رہا ہے جس کے لیے مولانا محمد اجمل خان کی سربراہی میں مجلس استقبالیہ قائم ہو چکی ہے۔
- پنجاب کا صوبائی کنونشن ۱۰ اکتوبر بدھ کو بخاری مسجد، جناح کالونی فیصل آباد میں منعقد ہوگا جس کے لیے مولانا عزیز الرحمان انوری (انوری مسجد سنت پورہ فیصل آباد) کی سربراہی میں مجلس استقبالیہ کام کر رہی ہے۔
- سرحد کا صوبائی کنونشن ۲۲ اکتوبر پیر کو مدینہ مسجد گلبہار کالونی نمبر ۲ پشاور میں منعقد ہوگا جس کے انتظامات پشاور جمعیۃ کے امیر مولانا محمد دین کی سربراہی میں مجلس استقبالیہ کر رہی ہے۔
- بلوچستان کا صوبائی کنونشن ۲۵ و ۲۶ اکتوبر جمعرات و جمعہ کو مدرسہ مدینۃ العلوم، قلعہ سیف اللہ ضلع ژوب میں ہو رہا ہے جس کے انتظامات مولانا محمد عیسیٰ صاحب اور حاجی دلاور خان صاحب کی قیادت میں مجلس استقبالیہ کر رہی ہے۔
- اور سندھ کا صوبائی کنونشن ۲۸ اکتوبر اتوار کو مدرسہ مفتاح العلوم، گھاس مارکیٹ، حیدر آباد میں ہوگا جس کے انتظامات کے لیے مولانا عبد الرؤف کی سربراہی میں مجلس استقبالیہ قائم ہے۔
اس طرح اب ان کنونشنوں کے مقامات اور تاریخوں کے تعین کے بعد ان کے انتظامات اور ملک بھر میں جماعتی احباب اور ہم خیال علماء اور کارکنوں کے ساتھ رابطہ کا کام جاری ہے۔ حضرت الامیر مولانا محمد عبد اللہ درخواستی اور قائد جمعیۃ حضرت مولانا محمد عبید اللہ انور کے ارشاد کے مطابق ان کنونشنوں کے انعقاد کا مقصد مرکزی اور صوبائی سطح پر جماعتی قیادت کے نئے انتخابات کے علاوہ اس امر کا اظہار و اعلان ہے کہ علماء حق کا یہ قافلہ اپنے موقف اور مشن کے اعتبار سے آج بھی اس مقام پر کھڑا ہے جہاں سے اس کے اکابر و اسلاف نے آزادی کے حصول اور اسلامی نظام و اقدار کی بالادستی کے لیے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ اور گردش لیل و نہار کے ساتھ متنوع تبدیلیوں کے باوجود ’’قائمین علی الحق‘‘ کا یہ گروہ ملک کے تمام تر سیاسی، اقتصادی، معاشی، معاشرتی، اخلاقی، قانونی اور تعلیمی و تہذیبی مسائل کا واحد حل نظامِ شریعت کے مکمل نفاذ کو سمجھتا ہےا ور پورے یقین و ایمان کے ساتھ اس کو حق گردانتے ہوئے اپنے وسائل کی حد تک اس کے لیے کوشاں ہے۔
ملک کی موجودہ صورتحال جو منظر پیش کر رہی ہے اور ہواؤں کا رخ مستقبل کے بارے میں جن خدشات و توقعات کی نشاندہی کر رہا ہے اس کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ علماء حق سستی اور تساہل کو خیرباد کہتے ہوئے آنکھیں کھولیں، گرد و پیش کا جائزہ لیں، آنے والے وقت کی ضروریات اور تقاضوں کا احساس کریں، اپنی توانائیوں، وسائل اور صلاحیتوں کو مجتمع کریں، نئی صف بندی میں اپنے مقام کا تعین کریں اور پھر اس کے حصول کے لیے اپنی استعداد اور قوتوں کو منظم طریقہ کے ساتھ استعمال میں لائیں۔ ہم علماء حق کے اس عظیم قافلہ کے ہر خورد و کلاں کو اس حقیقت کا احساس دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا اور مقاصد کبھی جدوجہد کے بغیر حاصل نہیں ہوتے۔ اگر آپ ملک کی سلامتی اور نظام شریعت کے نفاذ کے مشن کو حق سمجھتے ہیں اور اسلامی مقاصد کی بنیاد پر عوامی و جمہوری حقوق کی بحالی کو ملک کے لیے ضروری خیال کرتے ہیں تو یہ کام صرف حق سمجھنے اور ضروری خیال کرنے سے خودبخود نہیں ہو جائیں گے۔ ان کے لیے محنت کرنا ہوگی، جدوجہد کے جاں گسل مراحل سے گزرنا ہوگا اور مشکلات و مصائب کے صحرا کو عبور کرتے ہوئے منزل کی راہ ہموار کرنا ہوگی۔ اور اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو خدا تعالیٰ اور قوم دونوں کے ہاں اپنے مشن اور پروگرام کے ساتھ مخلص قرار نہیں پائیں گے اور اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کے بارے میں سرخرو نہیں ہو سکیں گے۔
اس لیے علماء کرام اور کارکنوں سے گزارش ہے کہ وہ مایوسی کے تمام محرکات کو جھٹکتے ہوئے اور تذبذب کے تمام رجحانات کو رد کرتے ہوئے جمعیۃ علماء اسلام کی تنظیمِ نو اور نظامِ شریعت کنونشنوں کے انعقاد اور کامیابی میں بھرپور دلچسپی لیں۔ بالخصوص اس احساس کو ایک لمحہ کے لیے بھی دامن گیر نہ ہونے دیں کہ بزرگوں اور دوستوں کے ایک حصہ کی علیحدگی کے بعد ہم کیسے کام کریں اور اب کیسے کام ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ ہم نے نہ کبھی جدا ہونے والے بزرگوں اور دوستوں کی خاطر کام کیا ہے اور نہ اپنے موجودہ قائدین کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اگر جدوجہد ان اشخاص و افراد کے لیے ہے تو بے شک کام ترک کر دیں، اس کام کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ اس تگ و دو کی ضرورت ہے۔ لیکن ہمارا کام تو دین حق کی سربلندی اور رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ دین حق موجود ہے، اس کے لیے جدوجہد کا میدان سامنے ہے اور رضائے الٰہی نے بھی حق کی خاطر جدوجہد کرنے والوں سے منہ موڑنے کا اعلان نہیں کیا۔ اس لیے کام ترک کرنے، سست ہوکر گھر بیٹھ جانے، بددلی کا شکار ہونے اور تذبذب کی دلدل میں دھنسے رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
قافلۂ حق سے اس سے قبل بھی متعدد مواقع پر سرکردہ شخصیات نے پالیسی اور موقف کے اختلاف کے باعث اپنی راہیں الگ کی ہیں لیکن حق پرستوں کے اس عظیم کارواں نے کبھی اپنے سفر میں وقفہ نہیں کیا، منزل کو کھوٹا نہیں کیا اور جانے والوں کی یاد میں آنسو بہاتے ہوئے راستہ میں اپنے خیموں کو پختہ نہیں کر لیا۔ قافلوں کا سفر جاری رہتا ہے، کارواں اپنی منزل کی طرف بڑھتے رہتے ہیں اور ملک کے چاروں صوبوں میں نظامِ شریعت کنونشنوں کا انعقاد علماء اور کارکنوں کو اس امر کا احساس دلانے کے لیے کیا جا رہا ہے کہ علماء حق کے قافلے کا سفر جاری ہے اور ہم اپنے جدا ہونے والے بزرگوں اور دوستوں کے جلد واپس آنے کی دعا کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ وہ بھی ہمارے بزرگ ہیں، ساتھی ہیں، انہیں اگر صحرا میں سفر کرتے ہوئے شاہراہ سے ہٹ کر کوئی سراب نظر آگیا ہے اور وہ اس سراب کو حقیقت سمجھتے ہوئے اس کا تعاقب کرنے کا تہیہ کر چکے ہیں تو کوئی بات نہیں یہ بھی انسانی فطرت کا ایک حصہ ہے اور بشری جبلت کے اس پہلو نے بھی آخر کہیں نہ کہیں نمودار ہونا ہے لیکن یہ تعاقب آخر کب تک جاری رہے گاا نہیں بالآخر واپس آنا ہے۔ اور اگر وہ اپنی حقیقی منزل سے دستبردار ہونے کا (خدانخواستہ) فیصلہ نہیں کر چکے تو ان کا راستہ بھی یہی ہے وہ یقیناً اس صراطِ مستقیم پر واپس آئیں گے اور ہم اپنے سفر کو جاری رکھتے ہوئے سفر کے ہر موڑ پر بے تاب نگاہوں اور مضطرب دلوں کے ساتھ ان بزرگوں اور دوستوں کی واپسی پر ان کے قدموں سے اٹھنے والی دھول کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانے کے لیے بے چین رہیں گے۔
ہم تذبذب اور بددلی کو پاؤں کی زنجیر بنانے والے دستووں سے عرض کریں گے کہ کٹنے کا یہ عمل تو انسانی جسم کے ساتھ بھی ہو جاتا ہے کہ یہ بھی زندگی کے ہنگاموں کا ایک حصہ ہے لیکن کیا جسم کا کوئی ایک یا دو عضو کٹ جانے کے بعد باقی جسم وظیفۂ زندگی ادا کرنے سے انکار کر دیتا ہے؟ ہم جماعتی کارکنوں اور عہدہ داروں کے ساتھ ساتھ گھروں میں بیٹھ کر وقت کا انتظار کرنے والے دوستوں سے گزارش کریں گے کہ جس وقت کا آپ انتظار کر رہے ہیں وہ تو تیزی کے ساتھ گزرتا جا رہا ہے۔ لادین قوتوں نے نہ صرف اپنی صف بندی کو پختہ کر لیا ہے بلکہ ہماری صفوں میں افتراق ڈالنے میں بھی کامیاب ہیں۔ ہماری جنگ ان تمام عناصر سے ہے جو اس ملک میں نظامِ شریعت کے نفاذ میں رکاوٹ ہیں، ان میں اسلام کا نام لے کر اپنی متضاد پالیسیوں کے ساتھ اسلام کو بدنام کرنے والے حکمران بھی ہیں، اسلام کے راستہ میں مسلسل رکاوٹیں ڈالنے والی نوکرشاہی بھی ہے، اسلام کو اپنے مقاصد کی راہ میں رکاوٹ سمجھنے والے موقع پرست سیاستدان بھی ہیں اور اسلام کی ناکامی کے لیے ان تمام عناصر کو خوبی کے استعمال کرنے والے کمیونسٹ اور قادیانی بھی ہیں۔ یہ چومکھی جنگ عزم و حوصلہ اور نظم و ضبط کے ساتھ ہی لڑی جائے گی اور یہ وعدۂ خداوندی ہے کہ جب کوئی حق پرست گروہ نیک نیتی او رخلوص کے ساتھ حق کی خاطر جدوجہد کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو پھر خدا کی مدد اس کے شاملِ حال ہوتی ہے اور وہ وسائل اور افراد کی کمی کے باوجود غالب رہتا ہے۔
ان گزارشات کے بعد ہم ان عملی کاموں کی طرف توجہ دلانا مناسب سمجھتے ہیں جن کی بجاآوری ان کنونشنوں کی کامیابی کے لیے ضروری ہے:
- ہر ضلع میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے عہدہ دار ضلع کے تمام جماعتی احباب اور ہم خیال علماء اور کارکنوں سے رابطہ قائم کریں، ان سے ملاقات کر کے انہیں پروگرام سے آگاہ کریں اور انہیں شرکت کے لیے تیار کریں۔
- اپنے صوبہ کے صوبائی کنونشن کی مجلس استقبالیہ کے صدر سے رابطہ قائم کر کے ان سے پروگرام کی تفصیلات معلوم کریں اور انہیں اپنی کارکردگی اور اس کے نتائج سے آگاہ کریں۔
- مقامی اور ضلعی سطح پر عہدہ داروں کے انتخابات صوبائی کنونشنوں سے قبل مکمل کر لیں کیونکہ ان کنونشنوں کے موقع پر صوبائی عہدہ داروں کے انتخابات ہوں گے۔ نیز ضلع سے صوبائی مجلس عمومی کے نمائندوں کی فہرست بھی صدرِ استقبالیہ کو بھجوائیں۔
- جمعۃ المبارک کے خطبات، تقاریر، بیانات اور اخباری خبروں کے ذریعے اسلامی نظام کے نفاذ، جمہوری عمل کی بحالی، ۱۹۷۳ء کے آئین کے تحت آزادانہ جماعتی بنیادوں پر انتخابات کے انعقاد اور قومی سیاست پر شریعت کی بالادستی کا مسلسل ذکر کرتے رہیں اور نظامِ شریعت کنونشنوں کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالیں۔
- نظامِ شریعت کنونشنوں کے سلسلہ میں ضلعی سرگرمیوں کی رپورٹ جمعیۃ کے آرگن ہفت روزہ ترجمان اسلام اور مقامی اخبارات کے نمائندوں کے ذریعے قومی اخبارات کو بھی بھجواتے رہیں۔
- آنے والے انتخابات کے سلسلہ میں جماعتی اور غیر جماعتی دونوں صورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ضلع کی انتخابی صورتحال کا تجزیہ کریں اور حقائق و واقعات کی روشنی میں ایک مختصر اور صاف ستھری تجزیاتی رپورٹ صوبائی کنونشن کے موقع پر مجلس عمومی کے اجلاس میں پیش کریں اور اس رپورٹ میں جماعتی پوزیشن کا بھی ذکر کریں۔
- کنونشنوں کی مجالس استقبالیہ اور مرکزی اور صوبائی جمعیتوں کی طرف سے جو نمائندہ حضرات مختلف علاقوں کا دورہ کر رہے ہیں ان سے بھرپور تعاون کریں اور کنونشنوں اور دیگر جماعتی اخراجات کے لیے اصحابِ ثروت کو توجہ دلا کر جماعتی بیت المال کو مستحکم بنائیں اور مرکزی دفتر کو مالی بحران سے نجات دلانے کے لیے خصوصی دل چسپی لیں۔
- جماعتی آرگن ہفت روزہ ترجمان اسلام جماعتی احباب کے درمیان رابطہ کا واحد مؤثر اور معتمد ذریعہ ہے لیکن مالی مشکلات کے باعث اشاعت کا تسلسل برقرار رکھنا ادارہ کے لیے مشکل ہوگیا ہے، اس کی اشاعت بڑھانے کے ساتھ ساتھ اشتہارات اور امدادی رقوم کے ذریعے ادارہ کی امداد کریں تاکہ پرچہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر مؤثر طور پر جماعتی خدمات سرانجام دے سکے۔