جنوبی افریقہ: مسلم جوڈیشیل کونسل اور ختم نبوت کانفرنس

   
۸ نومبر ۲۰۰۸ء

گزشتہ روز جنوبی افریقہ کے ایک ہفتے کے سفر سے واپس پہنچا ہوں اور ابھی کراچی میں ہوں۔ یہ سفر جنوبی افریقہ کی مسلم جوڈیشیل کونسل کی دعوت پر ۳۱ اکتوبر سے کیپ ٹاؤن کے سٹی کونسل ہال میں منعقد ہونے والی تین روزہ سالانہ بین الاقوامی ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کے لیے ہوا جس کا اہتمام انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ نے جنوبی افریقہ کی مسلم جوڈیشیل کونسل کے اہتمام سے کیا تھا۔ کانفرنس میں جنوبی افریقہ کے سرکردہ علماء کرام کے علاوہ سعودی عرب، برطانیہ، بھارت، پاکستان، آسٹریلیا اور دیگر ممالک سے بھی علماء کرام اور دینی رہنماؤں نے شرکت کی۔ انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانیت کے تعاقب کے لیے عالمی سطح پر کام کرنے والی تنظیم ہے جس کے سربراہ مکہ مکرمہ کے فضیلۃ الشیخ مولانا عبد الحفیظ مکی اور سیکرٹری جنرل کویت کے مولانا احمد علی سراج ہیں جبکہ اس میں مولانا سعید احمد عنایت اللہ، مولانا محمد الیاس چنیوٹی، مولانا محمد زاہد قاسمی اور دوسرے متعدد علماء کرام سرگرم عمل ہیں۔

مسلم جوڈیشیل کونسل جنوبی افریقہ کے علماء کرام کی تنظیم ہے جو وہاں کے مسلمانوں کو دینی معاملات بالخصوص حلال و حرام کے مسائل میں راہنمائی فراہم کرتی ہے اور خاندانی و مالیاتی تنازعات میں مصالحت اور ثالثی کے فرائض سرانجام دیتی ہے۔ کونسل کا قیام ۱۹۴۵ء میں مصر سے تعلق رکھنے والے ایک عالم دین الشیخ احمد بہاؤ الدین کی کوششوں سے عمل میں آیا تھا، ان کے بعد انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ الشیخ عید روسؒ نے اسے پروان چڑھایا اور اس کے دائرہ کار میں وسعت پیدا کی، پھر الشیخ کرنظیحؒ کے دور میں اس کونسل نے ترقی کے مزید مدارج طے کیے۔ آج کل الشیخ احسان ہمدرکس اس کے سربراہ ہیں اور الشیخ عبد الخالق علی اس کے سیکرٹری جنرل کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں جو علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے جامعہ علوم اسلامیہ کے فاضل ہیں۔

مسلم جوڈیشیل کونسل کے تحت باقاعدہ ثالثی کونسل اور عدالت کام کرتی ہے جس کا طریق کار یہ ہے کہ جو مسلمان اپنے باہمی تنازعات میں، جن میں زیادہ تر مسائل نکاح و طلاق اور گھریلو جھگڑوں کے ہوتے ہیں، کونسل کے دفتر میں درخواست دیتے ہیں۔ کونسل کی طرف سے مقرر کردہ کونسلر حضرات فریقین سے رابطہ کر کے ان کی آپس میں صلح کرانے کی کوشش کرتے ہیں، اگر باہمی صلح نہ ہو سکے تو کونسل کی عدالت اس کیس کی باقاعدہ سماعت کر کے فیصلہ صادر کرتی ہے۔ اس عدالت کے فیصلوں کو جنوبی افریقہ کے ریاستی عدالتی نظام میں بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ مولانا عبد الخالق علی نے بتایا کہ کونسل کو اوسطاً ہفتہ میں ۸۰ کے لگ بھگ درخواستیں موصول ہوتی ہیں جن میں سے اکثریت کے معاملات باہمی صلح صفائی کے مرحلے میں طے ہو جاتے ہیں جبکہ اوسطاً چار پانچ کیس ایسے ہوتے ہیں جو عدالت کی سطح تک فیصلے کے لیے باقی رہ جاتے ہیں، ان کی سماعت جمعرات کے روز علماء کی جماعت کرتی ہے جس کے سربراہ دارالعلوم دیوبند کے ایک پرانے فاضل بزرگ مولانا محمد یوسف کران ہیں۔ جنوبی افریقہ میں رہنے والے مسلمانوں کی اکثریت انڈونیشیا اور ملائیشیا کے علاقوں سے تعلق رکھتی ہے جو زیادہ تر شافعی المذہب ہیں اس لیے ان کے تنازعات کے فیصلوں میں ان کے فقہی رجحانات کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔

تین روزہ بین الاقوامی ختم نبوت کانفرنس کے انعقاد کا سبب یہ ہوا کہ افریقی ممالک بالخصوص جنوبی افریقہ کے کیپ ٹاؤن کے علاقے میں قادیانیوں کی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اور چونکہ قادیانی گروہ پوری امت کی طرف سے غیر مسلم قرار دیے جانے کے باوجود خود کو مسلم کہلاتا اور اسلامی اصطلاحات کے حوالے سے اپنا مذہب پیش کرنے پر مصر ہے، جبکہ مسلمانوں کی نئی نسل کی اکثریت مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان عقیدہ و مذہب کے فرق سے بے خبر ہے اس لیے مسلمان نوجوان عام طور پر اس ’’دام ہمرنگ زمین‘‘ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس صورتحال سے قادیانی حضرات دنیا کے مختلف ممالک کی طرح جنوبی افریقہ بلکہ پاکستان میں بھی خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس پس منظر میں مسلم جوڈیشیل کونسل کے راہنماؤں نے مکہ مکرمہ میں انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے سربراہ مولانا عبد الحفیظ مکی سے رابطہ قائم کیا اور دونوں تنظیموں کی باہمی مشاورت و تعاون سے یہ کانفرنس انعقاد پذیر ہوئی۔

۳۱ اکتوبر جمعہ کو مغرب کی نمازکے بعد کانفرنس کی افتتاحی نشست ہوئی جس کے مہمان خصوصی جنوبی افریقہ کی مسلم کمیونٹی کے معروف رہنما جناب ابراہیم رسول تھے جو کیپ ٹاؤن کے گورنر رہ چکے ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ کے صدر کے خصوصی مشیر ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ عقیدۂ ختم نبوت اسلام کی بنیاد ہے اور ہمارے بنیادی عقائد میں سے ہے۔ ہم قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک نئے مذہب کے پیروکار سمجھتے ہیں اور اپنے بنیادی عقائد اور اسلام کی بنیادوں سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں لیکن میں علماء کرام اور دین کے فروغ و تحفظ کے لیے کام کرنے والوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ دین کی دعوت اور اسلامی عقائد کے دفاع میں آج کے عالمی ماحول اور بین الاقوامی تناظر کو ضرور سامنے رکھیں اور آج سے ایک صدی قبل کے ماحول میں بات کرنے کی بجائے آج کے ماحول میں بات کریں بلکہ اگلی صدی کے امکانات کو بھی سامنے رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کے عالمی ماحول میں سب سے زیادہ زور گلوبلائزیشن، انسانی حقوق، شہری آزادیوں اور مذاہب و اقوام کے درمیان مکالمے اور مفاہمت کے فروغ پر دیا جاتا ہے اس لیے ہمیں اسلام کی بات کرتے ہوئے ان امور کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

مسلسل تین روز جاری رہنے کے بعد کانفرنس کا اختتام ۲ نومبر اتوار کو عصر کی نماز سے قبل پنجاب اسمبلی کے رکن مولانا محمد الیاس چنیوٹی کی دعا پر ہوا جو انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ پاکستان کے صدر ہیں اور تحریک ختم نبوت کے عالمی راہنما حضرت مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی کے فرزند و جانشین ہیں۔ کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان سے علماء کرام کا جو وفد گیا اس میں علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب کے علاوہ کالعدم سپاہ صحابہؓ کے سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی، حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کے فرزند و جانشین مولانا صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی، مولانا محمد الیاس چنیوٹی، مولانا مفتی شاہد محمود، مولانا راشد فاروقی اور راقم الحروف شامل تھے۔ علامہ خالد محمود صاحب اور راقم الحروف گزشتہ روز بدھ کو کراچی واپس پہنچ گئے جبکہ باقی حضرات چند روز کے لیے وہاں ٹھہر گئے ہیں اور مختلف شہروں میں دینی اجتماعات سے خطاب کے بعد اگلے ہفتے واپس آئیں گے۔

راقم الحروف نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عرض کیا کہ میں صدر جنوبی افریقہ کے مشیر خاص جناب ابراہیم رسول کی اس بات کی مکمل تائید کرتا ہوں بلکہ گزشتہ ربع صدی سے دینی حلقوں میں خود بھی مسلسل یہ آواز لگا رہا ہوں کہ ہمیں آج کے عالمی ماحول میں دین کی بات کرتے ہوئے آج کی ضروریات، اسلوب اور انسانی نفسیات کا لحاظ رکھنا ہوگا۔ جناب ابراہیم رسول کی گفتگو سے مجھے یہ حوصلہ ہوا ہے کہ یہ سوچ بحمد اللہ تعالیٰ آگے بڑھ رہی ہے اور دینی حلقے اس کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ قادیانی حضرات آج کل انسانی حقوق اور مذہبی آزادیوں کے عنوان سے اپنی مظلومیت کا مقدمہ عالمی رائے عامہ اور بین الاقوامی حلقوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور دوسری طرف سے اس زبان و اسلوب میں جواب نہ ملنے کی وجہ سے انہیں پذیرائی بھی مل رہی ہے۔ جبکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں قادیانیوں کے مذہبی اور شہری حقوق سے کبھی انکار نہیں کیا گیا اور ظاہر بات ہے کہ پاکستان کے مذہبی حلقوں کو اگر اپنے ملک میں سکھوں، ہندوؤں، عیسائیوں، پارسیوں اور دیگر غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق اور سرگرمیوں پر کبھی اعتراض نہیں ہوا تو قادیانیوں کے حقوق پر انہیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ سوال حقوق کو تسلیم کرنے کا اور ان کا احترام کرنے کا نہیں بلکہ حقوق کے تعین اور ان کے ٹائٹل کا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان قادیانیوں کو اپنے وجود کا حصہ نہیں سمجھتے۔ دنیائے اسلام کا کوئی مذہبی حلقہ انہیں مسلمان تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے انہیں دستوری طور پر غیر مسلم اقلیت کا درجہ دے کر ان کے حقوق کا تعین کر دیا ہے جن میں دیگر تمام شہری حقوق کے ساتھ ساتھ ووٹ دینے اور اسمبلیوں میں آبادی کے تناسب سے نمائندگی حاصل کرنے کا حق بھی شامل ہے۔ لیکن قادیانیوں نے پوری دنیائے اسلام، پاکستانی عوام کی غالب اکثریت اور ملک کی منتخب پارلیمنٹ کے اس متفقہ دستوری فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے خود کو ہر حال میں مسلمان قرار دیے جانے پر اصرار جاری رکھا ہوا ہے۔ اور وہ اقلیتی حقوق کی بجائے اکثریتی حقوق حاصل کرنے پر بضد ہیں جو مسلم اکثریت کو کسی صورت میں قبول نہیں اور مسلمانوں کے تشخص کے منافی ہے۔

اس لیے میں اس انٹرنیشنل ختم نبوت کانفرنس کی وساطت سے عالمی رائے عامہ اور بین الاقوامی حلقوں سے یہ اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اصل صورتحال کا جائزہ لیں اور قادیانیوں کی یکطرفہ ضد اور ہٹ دھرمی کو سپورٹ کرنے کی بجائے پاکستان کی مسلم اکثریت کے حقوق اور جذبات و عقائد کا احترام و لحاظ کریں۔ ہمیں قادیانیوں کے حقوق سے دیگر غیر مسلم اقلیتوں کی طرح کوئی انکار نہیں، لیکن انہیں اپنی جائز اور مسلمہ حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے مسلم اکثریت اور دستور کے فیصلے کے سامنے سرنڈر کرنا ہوگا کیونکہ یہ قطعاً نہیں ہو سکتا کہ وہ دنیائے اسلام اور پاکستانی عوام کی اکثریت کے فیصلے کو چیلنج کرتے رہیں اور دستور پاکستان سے اعلانیہ بغاوت کا ماحول بھی قائم رکھیں اور پھر اس ماحول میں اپنے خودساختہ حقوق کا بھی مطالبہ کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter